Ruh-ul-Quran - At-Tur : 41
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَؕ
اَمْ : یا عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ : ان کے پاس غیب ہے فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ : تو وہ لکھ رہے ہیں
کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے، پس وہ خود ہی لکھ لیتے ہیں
اَمْ عِنْدَھُمُ الْغَیْبُ فَہُمْ یَکْتُبُوْنَ ۔ (الطور : 41) (کیا ان کے پاس غیب کا علم ہے، پس وہ خود ہی لکھ لیتے ہیں۔ ) گزشتہ مضمون کا منطقی نتیجہ گزشتہ آیت میں جو سوال اٹھایا گیا ہے اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ ان کو زندگی کے جن حقائق کا علم دے رہے ہیں اور وہ ان سے بھاگ رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے وہ تمام ضروری باتیں معلوم کرکے لکھ لیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کوئی ذریعہ علم ان کے پاس موجود نہیں، کیونکہ انھیں یہ بات خود تسلیم ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آیا۔ ان کی لائی ہوئی تعلیم اہل عرب کی جہالت کی نذر ہوگئی۔ ان کا کوئی صحیفہ یا کوئی کتاب ان کے پاس موجود نہیں، ان کے اسوہ حسنہ کو یہ بالکل بھول چکے۔ اب جو کچھ ان کے پاس شریعت ہے وہ سب ان کے وضعی خیالات ہیں۔ چند رسم و رواج ہیں جنھیں انھوں نے عقائد کی شکل دے رکھی ہے۔ ان کی خواہشات اور چند اوہام ہیں جو ان کے یہاں روایت کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔ یہی ان کا علمی سرمایہ ہے جس کے بل بوتے پر وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت اور اس پر اترنے والی کتاب کا انکار کررہے ہیں۔
Top