Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 143
ثَمٰنِیَةَ اَزْوَاجٍ١ۚ مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ١ؕ قُلْ ءٰٓالذَّكَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْهِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ١ؕ نَبِّئُوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَۙ
ثَمٰنِيَةَ : آٹھ اَزْوَاجٍ : جوڑے مِنَ : سے الضَّاْنِ : بھیڑ اثْنَيْنِ : دو وَ : اور مِنَ : سے الْمَعْزِ : بکری اثْنَيْنِ : دو قُلْ : پوچھیں ءٰٓالذَّكَرَيْنِ : کیا دونوں نر حَرَّمَ : حرام کیے اَمِ الْاُنْثَيَيْنِ : یا دونوں مادہ اَمَّا : یا جو اشْتَمَلَتْ : لپٹ رہا ہو عَلَيْهِ : اس پر اَرْحَامُ : رحم (جمع) الْاُنْثَيَيْنِ : دونوں مادہ نَبِّئُوْنِيْ : مجھے بتاؤ بِعِلْمٍ : کسی علم سے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم صٰدِقِيْنَ : سچے
چوپایوں کی آٹھوں قسموں کو لو بھیڑوں میں سے نر و مادہ دو اور بکریوں میں سے نر و مادہ دو پھر ان سے پوچھو کہ ان دونوں کے نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادینوں کو یا اس بچے کو جو ان مادینوں کے رحم میں ہے اگر تم سچے ہو تو کسی سند کے ساتھ مجھے بتائو
ارشاد فرمایا : ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ ج مِنَ الضَّاْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ ط قُلْ ئٰٓ الذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتُ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ ط نَبِّئُوْنِیْ بِعِلْمٍ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ ط قُلْ ئٰٓ الذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ ط اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْوَصّٰکُمُ اللہ ُ بِھٰذَا ج فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اِنَّ اللہ َ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (الانعام : 143۔ 144) (چوپایوں کی آٹھوں قسموں کو لو بھیڑوں میں سے نر و مادہ دو اور بکریوں میں سے نر و مادہ دو پھر ان سے پوچھو کہ ان دونوں کے نروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مادینوں کو یا اس بچے کو جو ان مادینوں کے رحم میں ہے اگر تم سچے ہو تو کسی سند کے ساتھ مجھے بتائو۔ اسی طرح لو اونٹوں میں سے نر و مادہ دو اور گائے بیل میں سے نر و مادہ دو پھر پوچھو کہ ان دونوں نروں کو حرام ٹھہرایا ہے یا ان کی مادائوں کو یا اس بچے کو جو مادائوں کے پیٹ میں ہے کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے تمہیں اس کی ہدایت فرمائی تو ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے بغیر کسی علم کے بیشک اللہ ظالموں کو راہ یاب نہیں کرے گا ) کفار نے جو حلال حرام بنا رکھا ہے اس کی سند مانگی جا رہی ہے ثمانیۃ کا معنی ہے آٹھ بلکہ آٹھوں اور ازواج زوج کی جمع ہے اس کا اطلاق جوڑے پر بھی ہوتا ہے اور جوڑے کے ایک ایک فرد پر بھی۔ عربی زبان میں دونوں طرح یہ لفظ مستعمل ہے۔ سابقہ مضمون کو نہایت آسان شکل میں بالکل الگ الگ کر کے سوال کی صورت میں ان کے سامنے رکھا ہے اور پھر خود ان سے اس کا جواب طلب کیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اب تک تم پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جتنی نعمتوں سے تم متمتع ہو رہے ہو جن میں جانور بھی شامل ہیں۔ ان سب کو اللہ نے پیدا فرمایا ہے ان کی تخلیق میں اور پھر ان کی زندگی کی بقاء اور زندگی کے امکانات میں کسی کا کوئی دخل نہیں لیکن اے مشرکینِ عرب تم نے نجانے کس طرح ان جانوروں میں سے بعض کو حلال اور بعض کو حرام کر ڈالا ہے اور پھر مزید تقسیم یہ کہ بعض کے مذکر حلال ہیں اور مونث حرام اور بعض کے مونث حلال ہیں اور مذکر حرام اور پھر اگر تم نے بعض جانوروں کے مذکر اور مونث دونوں حلال ٹھہرائے ہیں تو مادہ کے پیٹ کے بچے کو کہیں حلال کردیا ہے اور کہیں حرام ٹھہرا دیا ہے یہ جو پوری مشرکانہ کارروائی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے نہایت وضاحت سے ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ تمہارے یہاں جو جانور سواری یا کھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں وہ چار ہیں اور جب ان کو مذکر اور مونث کے طور پر الگ الگ لو تو آٹھ ہوجائیں گے۔ ان میں بھیڑ اور بکری ہیں اور گائے اور اونٹ ہیں۔ ان میں سے صاف صاف بتائو کہ کیا بھیڑ اور بکریاں اور ان کے مذکر آخر ان میں سے کون سا حلال ہے اور کون سا حرام۔ اس طرح اونٹ اور گائے میں مذکر اور مونث دونوں کو سامنے رکھو اور پھر بتائو کہ ان میں حلال کون ہے اور حرام کون۔ ظاہر ہے کہ ان کی تخلیق ‘ ان کی جسمانی ساخت ‘ ان کی غذا اور ان کی زندگی کا مقصدسب یکساں ہے۔ ان آٹھوں میں باہمی کوئی اختلاف نہیں ایک طرح کی غذا کھا کے پلتے ہیں ‘ ایک طرح کے فوائد اپنے پالنے والوں کو باہم پہنچاتے ہیں ‘ ایک طرح کی زندگی گزارتے ہیں اور ایک طرح کی زندگی کے وظائف ادا کرنے کے پابند ہیں۔ پھر آخر کیا تُک ہے کہ تم نے ان میں سے بعض کو حلال کردیا ہے اور بعض کو حرام اور ستم بالائے ستم یہ کہ اگر مذکر مونث دونوں حلال ہیں تو تم ان کے پیٹ کے بچوں کو حرام کردیتے ہو اور اگر وہ مردہ شکل میں پیداہو تو حلال کردیتے ہو اور پھر حلال میں بھی تقسیم ہے کہ کبھی مردوں کے لیے حلال اور کبھی عورتوں کے لیے حلال اور اس طرح کبھی دونوں میں سے کسی ایک کے لیے حرام ‘ آخر یہ جو گورکھ دھندہ تم نے بنا رکھا ہے آنحضرت سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان سے پوچھو کہ مجھے علم کے حوالے سے بتلائو کہ تمہاری اس قانون سازی کا جواز کیا ہے تم نے حلت و حرمت کی سند کہاں سے حاصل کی ہے۔ دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں ایک تو یہ کہ تم جو کچھ کہتے ہو عقل اور فطرت اس کی تصدیق کریں لیکن ہر عقلمند آدمی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ عقل اور فطرت تمہاری ان لغویات کی کبھی تصدیق نہیں کرسکتیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ چونکہ تم اس حلت و حرمت کا انتساب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہو تو پھر صاف صاف بتلائو کہ کیا تمہارے پاس کوئی صحیفہ ابراہیمی ہے جس کی سند کی بنیاد پر تم یہ ساری باتیں کہتے ہو اور اگر ایسا نہیں اور یقینا نہیں تو پھر تم ہی بتلائو کہ تمہارے ان تصورات اور عقائد کی آخر کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔ دوسری آیت کے آخر میں فرمایا کہ نہ تو تاریخ مذہب ان باتوں کی تائید کرتی ہے اور نہ عقل و فطرت تو بدرجہ آخر یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر بقول تمہارے یہ چیزیں اللہ ہی نے حرام کی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یقینا تم اس وقت موجود ہو گے اور تم نے خود اپنے کانوں سے اللہ کا یہ حکم سنا ہوگا۔ ظاہر ہے یہ بات کہنے کی کون جرأت کرسکتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جب ان تین باتوں میں سے کوئی بھی نہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تم عقل و فطرت ‘ تاریخ اور خود اپنے آپ پر اس طرح کی باتیں کہہ کر ظلم کر رہے ہو۔ لیکن مزید ستم یہ ہے کہ تم اس ظلم کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ جس طرح عیسائیت کو پال نے بگاڑا اور اسے پٹڑی سے اتارا اسی طرح بت پرستی اور تمہارے مشرکانہ تصورات کی ابتدا عمر و بن لحی نامی آدمی کے ذریعے ہوئی۔ تم جو بار بار ان باتوں کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے ہو تمہیں خوب معلوم ہے کہ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی کا سارا ریکارڈ جو تورات کے صحیفوں میں بھی موجود ہے تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا ہے اس کا ایک ایک حرف گواہی دے رہا ہے کہ حضرت ابراہیم کو نہ صرف یہ کہ شرک اور مشرکانہ رسوم سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ انھوں نے اپنے ایک ایک قول اور ایک ایک عمل سے شرک کی جڑ اکھاڑ دی تھی۔ لیکن تم ان تمام دلائل کو دیکھتے ہوئے جو آفتاب سے زیادہ روشن ہیں اپنی کوتاہیوں پر پھر بھی اصرار کر رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم سراسر ایک زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہو۔ تو ایسا آدمی جو جان بوجھ کر حقیقت کا چہرہ بگاڑے اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوسکتا ہے اور تاریخ شاہد ہے اور تمہارے گرد و پیش پھیلے ہوئے معذب قوموں کے کھنڈرات اپنی خاموشی سے گواہی دے رہے ہیں کہ ایسا ظلم کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا وہ فلاح تو خیر کیا پائیں گے وہ تو دنیا کے لیے درس عبرت بن کے رہ جاتے ہیں۔ اس لیے آخر میں فرمایا کہ اللہ ظالم قوم کو کبھی راہ یاب نہیں فرماتا اس کا ایک مطلب تو تاریخ کی شہادت کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت اور آخرت میں یہ لوگ ناکام و نامراد ہو کر جہنم کا ایندھن بنیں گے لیکن یہاں صاف صاف چونکہ آنحضرت سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ان مشرکینِ مکہ سے یہ یہ پوچھیئے اس سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آیت کا یہ آخری حصہ شاید ایک پیش گوئی کی حیثیت رکھتا ہے یعنی یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ آج جبکہ تمہارے اشراف اور تمہارے سادات سر سے پائوں تک دعوت اسلامی کا راستہ روکنے میں مصروف ہیں اور تم زندگی کا ہر دکھ اور ہر تکلیف مسلمانوں کو پہنچا کر ان کو اسلام سے پھیر دینے کی کوشش کر رہے ہو اور تم سمجھتے ہو کہ شاید اس طرح تم اسلام کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجاؤ گے لیکن ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ تم نے ظلم کا جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اس کے نتیجے میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ملے گا اور اللہ اپنے نور کو مکمل کر کے رہے گا حضور کی دعوت پھیلے گی اور وہ دن دور نہیں جب کہ فتح مکہ کے بعد تم ہاتھ باندھے حضور کے سامنے کھڑے ہو کر زندگی کی بھیک مانگتے نظر آئو گے۔ اگلی آیت کریمہ میں حلت و حرمت کے حوالے سے تحقیقی انداز میں ایک بات فرمائی جا رہی ہے۔
Top