Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قِيْلَ
: کہا گیا
لَهُمُ
: ان سے
اسْكُنُوْا
: تم رہو
هٰذِهِ
: اس
الْقَرْيَةَ
: شہر
وَكُلُوْا
: اور کھاؤ
مِنْهَا
: اس سے
حَيْثُ
: جیسے
شِئْتُمْ
: تم چاہو
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
حِطَّةٌ
: حطۃ (بخشدے)
وَّادْخُلُوا
: اور داخل ہو
الْبَابَ
: دروازہ
سُجَّدًا
: سجدہ کرتے ہوئے
نَّغْفِرْ
: ہم بخشدیں گے
لَكُمْ
: تمہیں
خَطِيْٓئٰتِكُمْ
: تمہاری خطائیں
سَنَزِيْدُ
: عنقریب ہم زیادہ دیں گے
الْمُحْسِنِيْنَ
: نیکی کرنے والے
اور یاد کرو جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں رہو بسو ‘ اس میں سے جہاں سے چاہو کھائو پیو اور توبہ استغفار کرتے رہو اور دروازے میں سرفگندہ داخل ہو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے ‘ خوب کاروں کو ہم مزید نوازیں گے
ارشاد فرمایا : وَاِذْ قِیْلَ لَھُمُ اسْکُنُوْا ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ وَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ وَّادْخُلُوْاالْبَابَ سُجَّدْا نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطِیْٓئٰتِکُمْط سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَطْلِمُوْنَ ۔ (الاعراف : 162، 161) ” اور یاد کرو جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں رہو بسو ‘ اس میں سے جہاں سے چاہو کھائو پیو اور توبہ استغفار کرتے رہو اور دروازے میں سرفگندہ داخل ہو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے ‘ خوب کاروں کو ہم مزید نوازیں گے تو ان میں سے ان لوگوں نے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اس کو بدل دیا ‘ کہی ہوئی بات سے مختلف بات سے ‘ تو ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی بوجہ اس کے کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے “۔ ان آیات کے سلسلے میں متعین طور پر یہ بات کہنا مشکل ہے کہ ان کا شان نزول کیا ہے ؟ بعض مفسرین کا خیال ہے جن کی تائید شاہ عبد القادر صاحب بھی فرماتے ہیں کہ من وسلویٰ سے اکتا کر انھوں نے زمین سے اگنے والی بعض نعمتوں کا مطالبہ کیا تھا جس کا ذکر قرآن پاک میں سورة البقرہ میں کیا گیا ہے۔ اسی کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ ‘ صحرا میں چونکہ کاشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ‘ شہر میں جا کر کاشتکاری کرو اور اپنے مطلب کی چیزیں اگا کر کھائو۔ لیکن سورة بقرہ میں چونکہ اس مطالبہ کا ذکر ایسی ہی آیات کریمہ کے اگلے رکوع میں کیا گیا ہے اس لیے تکرار سے بچنے کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کا ان نعمتوں کے بارے میں مطالبہ پہلے اجمالاً رہا ہوگا اس کے جواب میں انھیں شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور اس کے بعد انھوں نے زمین سے اگنے والی سبزیوں کا نام لے لے کر مطالبہ شروع کیا جس کا ذکر اگلے رکوع میں آرہا ہے۔ مطالبہ چونکہ دو مختلف موقعوں پر کیا گیا ہے اس لیے اس میں تکرار کا احتمال نہیں۔ قریہ کی وضاحت اور اس میں داخل ہونے کے آداب بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں جس واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کا تعلق جہاد سے ہے کسی خاص شہر کو فتح کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا اور فتح کرنے کے بعد اس میں داخلے کے آداب بھی سکھائے گئے تھے لیکن یہ اپنی عاداتِ بد کے باعث ناشکری کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں اس شہر کو فتح نہیں کرسکے تھے پھر سالوں تک ان کی یہ محرومی پھیلتی گئی حتی کہ ان کی اگلی نسل نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانے میں اس شہر کو فتح کیا۔ واقعہ کچھ بھی رہا ہو مقصود تو صرف یہ دکھانا ہے کہ اللہ نے ان پر کیسے کیسے انعامات کیے لیکن بنی اسرائیل کا رویہ ہر موقع پر ناشکری اور بدعملی کا رہا ہے۔ ان آیات کی وضاحت سے پہلے بعض الفاظ کی تشریح کردینا مناسب ہے۔ پہلی آیت میں قریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قریہ کا معنی اصل لغت میں ” جمع ہونے کی جگہ “ کے ہیں۔ گائوں یا شہر میں چونکہ لوگ جمع ہو کر رہتے اور آباد ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں قریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ چھوٹے دیہات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بڑے بڑے شہروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ اس میں استعمال ہوا ہے۔” سجداً “ اس کا اصل معنی سر جھکانا ہے۔ سر جھکانے کے چونکہ مختلف درجے ہوسکتے ہیں ایک درجہ وہ ہے جو ہم سجدے میں اختیار کرتے ہیں اور دوسرا درجہ وہ ہے جیسے ہم رکوع میں یا محض سر جھکا کر کسی کے احترام میں کرتے ہیں۔ عرب دونوں معنوں میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں اس آیت کریمہ میں بھی دونوں ہی معنوں میں اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے صرف سر جھکا کر یعنی عاجزی سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہو یا خیمہ عبادت میں پہنچ کر سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔ تیسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ ہے حِطَّۃ۔ اس کا معنی ہے جھاڑ دینا۔ یہاں اس سے مراد گناہوں کا جھاڑ دینا ہے۔ جسے ہم بخش دینے سے تعبیر کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے یہاں یہ استغفار اور توبہ کے کلمات میں سے تھا یہ اصلاً عبرانی لفظ ہے۔ وہیں سے یہ عربی میں منتقل ہوا۔ اس آیت میں یہ لفظ ایک جملے کے قائم مقام ہے۔ جسے زمحشری نے پورے جملے کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے کہ اصل جملہ اس طرح ہے مسئلتنا حطۃ ہماری درخواست حطۃ ہے۔ مفسرین کی وضاحت کے مطابق اس آیت کریمہ میں قریہ سے مراد سر زمین فلسطین کا کوئی شہر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ” ریحا یا یریحو “ ہو۔ حضرت ابن عباس اور ابن زید کی یہی رائے ہے۔ اس شہر کو فتح کرنے کے بعد داخلے کے آداب سکھائے گئے۔ سب سے پہلے تو یہ بات فرمائی گئی ہے کہ تم اس شہر میں داخل ہوجاؤ تو وہاں جو حلال اور طیب چیزیں ہیں انھیں شوق سے استعمال میں لائو لیکن یہ یاد رکھو کہ شکر گزاری میں کمی نہ آنے پائے۔ لیکن اس سے بھی پہلے جب تمہیں اس شہر میں داخل ہونے کا موقع ملے تو تم اس طرح سر جھکاتے ہوئے شہر کے دروازے سے داخل ہونا کہ دیکھنے والوں کو اندازہ ہو کہ یہ اللہ کے فرماں بردار اور عاجز بندوں کا گروہ ہے جو شہر میں داخل ہو رہا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس شہر میں یہ داخلہ فوجی قوت سے ہو یا کسی اور ذریعہ سے جس کو بعض مفسرین نے زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے یہ بات تو ہر صورت میں طے ہے کہ سر جھکا کر عاجزی سے داخل ہونا اللہ کے بندوں کی شان ہے انھیں کسی صورت میں بھی غرور اور تکبر کے اظہار کی اجازت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے ہیں تو آپ کا سرمبارک اس حد تک عاجزی سے جھکا ہوا تھا کہ بار بار کجاوے کی لکڑی سے ٹکرا جاتا تھا اور جس کجاوے پر آپ تشریف فرما تھے۔ مورخین کی روایت کے مطابق اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہیں تھی حالانکہ مکہ کو فوجی قوت سے فتح کرنا عرب کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا کیونکہ مکہ جزیرہ عرب کا نہ صرف مرکز اعصاب تھا بلکہ قریش اور اس کے حلیف قبیلوں کی قوت کا مرکز بھی تھا اس شہر کا فتح ہونا پورے جزیرہ عرب کے سرنگوں ہونے کے مترادف تھا لیکن رسول پاک ﷺ اتنی عظیم قوت مل جانے کے بعد بھی سر تاپا انکساری اور عاجزی کا مظہر تھے اسی طرح ان کو اس شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا اور مزید فرمایا گیا تھا کہ تمہاری زبانوں پر حطۃ کا لفظ ہونا چاہیے۔ یعنی تم اپنے رویے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی اللہ سے بخش طلب کرتے ہوئے اور توبہ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہونا لیکن ان اللہ کے بندوں نے اللہ کے عاجز بندے بننے کی بجائے ناشکرے اور ظالموں جیسا رویہ اختیار کیا اس لیے پروردگار نے ان کو ظالم ٹھہراتے ہوئے ان کے رویے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ زبان سے جس لفظ کو انھیں کہنے کا حکم دیا گیا تھا انھوں نے اسے بدل ڈالا۔ متعین طور پر یہ بات کہنا بہت مشکل ہے کہ انھوں نے حطۃ کو کس لفظ سے بدلا ‘ قرآن کریم نے اس کی کوئی صراحت نہیں کی اہل تاویل سے مختلف اقوال منقول ہیں جن میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایک مشہور قول یہ ہے کہ ” انھوں نے حطۃ کو حنطۃ سے بدل دیا “ حنطۃ کا معنی ہے گندم۔ انھیں یہ کہا گیا تھا کہ تم استغفار کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو لیکن یہ شہر میں گندم گندم کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ مقصود یہ ہے کہ مصر سے نکل کر صحرائے سیناء کی تکلیفیں اٹھانے کا مقصد ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تربیت تھی جس کے نتیجے میں ایک اولوالعزم قوم وجود میں آتی اور اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کا نظام قائم کردیتی لیکن یہ حیوانی زندگی سے اوپر اٹھنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے ان کے پیغمبر انھیں آسمان کی رفعتوں کی تربیت دیتے رہے لیکن انھوں نے ہمیشہ خاک بازی کو ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا ان پر غضب بھڑکا اور آسمان سے اس نے ان پر عذاب بھیجا تاکہ ان کی نافرمانی اور بغاوت کا انھیں صلہ دیا جائے۔ قرآن کریم نے اس عذاب کو من السماء کے لفظ سے بیان فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ہولناک عذاب تھا کیونکہ ہولناک عذاب ہی کو قہر آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ عذاب کیا تھا ؟ صاحب تدبر قرآن نے لکھا ہے کہ اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ البتہ تورات کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دوران میں متعدد بار بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی شدید نافرمانیاں کیں اور ان نافرمانیوں کی پاداش میں وہ مختلف وبائوں کے شکار ہوئے۔ مثلاً جس زمانہ میں بنی اسرائیل شطیم میں (جو ارض فلسطین کے بالکل پاس کا ایک شہر تھا) تھے تو ان لوگوں نے موآبی عورتوں کے ساتھ بدکاریاں کیں ‘ ان کی دعوت پر یہ لوگ ان کی مشرکانہ قربانیوں میں شریک ہونے لگے اور اس طرح بالواسطہ ان کے دیوتا ” بعل فغور “ کی پرستش شروع کردی جس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت وبا بھیجی جس میں ان کے چوبیس ہزار نفوس ہلاک ہوئے۔ کتاب گنتی کے بات 33 میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے موآب کے میدانوں میں بنی اسرائیل کو یہ ہدایت بھی دی تھی کہ جب تم یرون کو عبور کر کے ملک کنعان میں داخل ہونا تو تم یہاں کے سب مشرکوں کو نکال دینا ‘ ان کی شبیہہ دار پتھروں اور ان کے ڈھالے ہوئے بتوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے اونچے مقامات کو مسمار کردینا ‘ اگر تم نے اس کے خلاف ورزی کی تو یاد رکھو کہ جیسا میں نے تم کو ان کے ساتھ کرنے کے لیے کہا ہے ویسا ہی تمہارے ساتھ کروں گا۔ معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل نے اپنی عادت کے مطابق پیغمبر کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی جس کی پاداش میں ان پر اسی قسم کی کوئی وباء آئی جس قسم کی وبا ان پر شطیم میں آئی تھی۔
Top