Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قِيْلَ : کہا گیا لَهُمُ : ان سے اسْكُنُوْا : تم رہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : شہر وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ : جیسے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : حطۃ (بخشدے) وَّادْخُلُوا : اور داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے نَّغْفِرْ : ہم بخشدیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطِيْٓئٰتِكُمْ : تمہاری خطائیں سَنَزِيْدُ : عنقریب ہم زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور یاد کرو جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں رہو بسو ‘ اس میں سے جہاں سے چاہو کھائو پیو اور توبہ استغفار کرتے رہو اور دروازے میں سرفگندہ داخل ہو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے ‘ خوب کاروں کو ہم مزید نوازیں گے
ارشاد فرمایا : وَاِذْ قِیْلَ لَھُمُ اسْکُنُوْا ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ وَکُلُوْا مِنْھَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ وَّادْخُلُوْاالْبَابَ سُجَّدْا نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطِیْٓئٰتِکُمْط سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَھُمْ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَا کَانُوْا یَطْلِمُوْنَ ۔ (الاعراف : 162، 161) ” اور یاد کرو جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں رہو بسو ‘ اس میں سے جہاں سے چاہو کھائو پیو اور توبہ استغفار کرتے رہو اور دروازے میں سرفگندہ داخل ہو تو ہم تمہاری خطائیں معاف کردیں گے ‘ خوب کاروں کو ہم مزید نوازیں گے تو ان میں سے ان لوگوں نے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اس کو بدل دیا ‘ کہی ہوئی بات سے مختلف بات سے ‘ تو ہم نے ان پر ایک آفت سماوی بھیجی بوجہ اس کے کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے “۔ ان آیات کے سلسلے میں متعین طور پر یہ بات کہنا مشکل ہے کہ ان کا شان نزول کیا ہے ؟ بعض مفسرین کا خیال ہے جن کی تائید شاہ عبد القادر صاحب بھی فرماتے ہیں کہ من وسلویٰ سے اکتا کر انھوں نے زمین سے اگنے والی بعض نعمتوں کا مطالبہ کیا تھا جس کا ذکر قرآن پاک میں سورة البقرہ میں کیا گیا ہے۔ اسی کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اس شہر میں داخل ہوجاؤ ‘ صحرا میں چونکہ کاشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ‘ شہر میں جا کر کاشتکاری کرو اور اپنے مطلب کی چیزیں اگا کر کھائو۔ لیکن سورة بقرہ میں چونکہ اس مطالبہ کا ذکر ایسی ہی آیات کریمہ کے اگلے رکوع میں کیا گیا ہے اس لیے تکرار سے بچنے کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کا ان نعمتوں کے بارے میں مطالبہ پہلے اجمالاً رہا ہوگا اس کے جواب میں انھیں شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور اس کے بعد انھوں نے زمین سے اگنے والی سبزیوں کا نام لے لے کر مطالبہ شروع کیا جس کا ذکر اگلے رکوع میں آرہا ہے۔ مطالبہ چونکہ دو مختلف موقعوں پر کیا گیا ہے اس لیے اس میں تکرار کا احتمال نہیں۔ قریہ کی وضاحت اور اس میں داخل ہونے کے آداب بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں جس واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کا تعلق جہاد سے ہے کسی خاص شہر کو فتح کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا اور فتح کرنے کے بعد اس میں داخلے کے آداب بھی سکھائے گئے تھے لیکن یہ اپنی عاداتِ بد کے باعث ناشکری کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں اس شہر کو فتح نہیں کرسکے تھے پھر سالوں تک ان کی یہ محرومی پھیلتی گئی حتی کہ ان کی اگلی نسل نے حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانے میں اس شہر کو فتح کیا۔ واقعہ کچھ بھی رہا ہو مقصود تو صرف یہ دکھانا ہے کہ اللہ نے ان پر کیسے کیسے انعامات کیے لیکن بنی اسرائیل کا رویہ ہر موقع پر ناشکری اور بدعملی کا رہا ہے۔ ان آیات کی وضاحت سے پہلے بعض الفاظ کی تشریح کردینا مناسب ہے۔ پہلی آیت میں قریہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ قریہ کا معنی اصل لغت میں ” جمع ہونے کی جگہ “ کے ہیں۔ گائوں یا شہر میں چونکہ لوگ جمع ہو کر رہتے اور آباد ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں قریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ چھوٹے دیہات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بڑے بڑے شہروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ دوسرا لفظ اس میں استعمال ہوا ہے۔” سجداً “ اس کا اصل معنی سر جھکانا ہے۔ سر جھکانے کے چونکہ مختلف درجے ہوسکتے ہیں ایک درجہ وہ ہے جو ہم سجدے میں اختیار کرتے ہیں اور دوسرا درجہ وہ ہے جیسے ہم رکوع میں یا محض سر جھکا کر کسی کے احترام میں کرتے ہیں۔ عرب دونوں معنوں میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں اس آیت کریمہ میں بھی دونوں ہی معنوں میں اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے صرف سر جھکا کر یعنی عاجزی سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہو یا خیمہ عبادت میں پہنچ کر سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔ تیسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ ہے حِطَّۃ۔ اس کا معنی ہے جھاڑ دینا۔ یہاں اس سے مراد گناہوں کا جھاڑ دینا ہے۔ جسے ہم بخش دینے سے تعبیر کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے یہاں یہ استغفار اور توبہ کے کلمات میں سے تھا یہ اصلاً عبرانی لفظ ہے۔ وہیں سے یہ عربی میں منتقل ہوا۔ اس آیت میں یہ لفظ ایک جملے کے قائم مقام ہے۔ جسے زمحشری نے پورے جملے کی صورت میں اس طرح بیان کیا ہے کہ اصل جملہ اس طرح ہے مسئلتنا حطۃ ہماری درخواست حطۃ ہے۔ مفسرین کی وضاحت کے مطابق اس آیت کریمہ میں قریہ سے مراد سر زمین فلسطین کا کوئی شہر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد ” ریحا یا یریحو “ ہو۔ حضرت ابن عباس اور ابن زید کی یہی رائے ہے۔ اس شہر کو فتح کرنے کے بعد داخلے کے آداب سکھائے گئے۔ سب سے پہلے تو یہ بات فرمائی گئی ہے کہ تم اس شہر میں داخل ہوجاؤ تو وہاں جو حلال اور طیب چیزیں ہیں انھیں شوق سے استعمال میں لائو لیکن یہ یاد رکھو کہ شکر گزاری میں کمی نہ آنے پائے۔ لیکن اس سے بھی پہلے جب تمہیں اس شہر میں داخل ہونے کا موقع ملے تو تم اس طرح سر جھکاتے ہوئے شہر کے دروازے سے داخل ہونا کہ دیکھنے والوں کو اندازہ ہو کہ یہ اللہ کے فرماں بردار اور عاجز بندوں کا گروہ ہے جو شہر میں داخل ہو رہا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس شہر میں یہ داخلہ فوجی قوت سے ہو یا کسی اور ذریعہ سے جس کو بعض مفسرین نے زیر بحث لانے کی کوشش کی ہے یہ بات تو ہر صورت میں طے ہے کہ سر جھکا کر عاجزی سے داخل ہونا اللہ کے بندوں کی شان ہے انھیں کسی صورت میں بھی غرور اور تکبر کے اظہار کی اجازت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے ہیں تو آپ کا سرمبارک اس حد تک عاجزی سے جھکا ہوا تھا کہ بار بار کجاوے کی لکڑی سے ٹکرا جاتا تھا اور جس کجاوے پر آپ تشریف فرما تھے۔ مورخین کی روایت کے مطابق اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہیں تھی حالانکہ مکہ کو فوجی قوت سے فتح کرنا عرب کی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا کیونکہ مکہ جزیرہ عرب کا نہ صرف مرکز اعصاب تھا بلکہ قریش اور اس کے حلیف قبیلوں کی قوت کا مرکز بھی تھا اس شہر کا فتح ہونا پورے جزیرہ عرب کے سرنگوں ہونے کے مترادف تھا لیکن رسول پاک ﷺ اتنی عظیم قوت مل جانے کے بعد بھی سر تاپا انکساری اور عاجزی کا مظہر تھے اسی طرح ان کو اس شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا اور مزید فرمایا گیا تھا کہ تمہاری زبانوں پر حطۃ کا لفظ ہونا چاہیے۔ یعنی تم اپنے رویے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی اللہ سے بخش طلب کرتے ہوئے اور توبہ کرتے ہوئے شہر میں داخل ہونا لیکن ان اللہ کے بندوں نے اللہ کے عاجز بندے بننے کی بجائے ناشکرے اور ظالموں جیسا رویہ اختیار کیا اس لیے پروردگار نے ان کو ظالم ٹھہراتے ہوئے ان کے رویے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ زبان سے جس لفظ کو انھیں کہنے کا حکم دیا گیا تھا انھوں نے اسے بدل ڈالا۔ متعین طور پر یہ بات کہنا بہت مشکل ہے کہ انھوں نے حطۃ کو کس لفظ سے بدلا ‘ قرآن کریم نے اس کی کوئی صراحت نہیں کی اہل تاویل سے مختلف اقوال منقول ہیں جن میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایک مشہور قول یہ ہے کہ ” انھوں نے حطۃ کو حنطۃ سے بدل دیا “ حنطۃ کا معنی ہے گندم۔ انھیں یہ کہا گیا تھا کہ تم استغفار کرتے ہوئے شہر میں داخل ہو لیکن یہ شہر میں گندم گندم کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ مقصود یہ ہے کہ مصر سے نکل کر صحرائے سیناء کی تکلیفیں اٹھانے کا مقصد ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تربیت تھی جس کے نتیجے میں ایک اولوالعزم قوم وجود میں آتی اور اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کا نظام قائم کردیتی لیکن یہ حیوانی زندگی سے اوپر اٹھنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوئے ان کے پیغمبر انھیں آسمان کی رفعتوں کی تربیت دیتے رہے لیکن انھوں نے ہمیشہ خاک بازی کو ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا ان پر غضب بھڑکا اور آسمان سے اس نے ان پر عذاب بھیجا تاکہ ان کی نافرمانی اور بغاوت کا انھیں صلہ دیا جائے۔ قرآن کریم نے اس عذاب کو من السماء کے لفظ سے بیان فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ہولناک عذاب تھا کیونکہ ہولناک عذاب ہی کو قہر آسمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ عذاب کیا تھا ؟ صاحب تدبر قرآن نے لکھا ہے کہ اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ البتہ تورات کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس دوران میں متعدد بار بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی شدید نافرمانیاں کیں اور ان نافرمانیوں کی پاداش میں وہ مختلف وبائوں کے شکار ہوئے۔ مثلاً جس زمانہ میں بنی اسرائیل شطیم میں (جو ارض فلسطین کے بالکل پاس کا ایک شہر تھا) تھے تو ان لوگوں نے موآبی عورتوں کے ساتھ بدکاریاں کیں ‘ ان کی دعوت پر یہ لوگ ان کی مشرکانہ قربانیوں میں شریک ہونے لگے اور اس طرح بالواسطہ ان کے دیوتا ” بعل فغور “ کی پرستش شروع کردی جس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک سخت وبا بھیجی جس میں ان کے چوبیس ہزار نفوس ہلاک ہوئے۔ کتاب گنتی کے بات 33 میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے موآب کے میدانوں میں بنی اسرائیل کو یہ ہدایت بھی دی تھی کہ جب تم یرون کو عبور کر کے ملک کنعان میں داخل ہونا تو تم یہاں کے سب مشرکوں کو نکال دینا ‘ ان کی شبیہہ دار پتھروں اور ان کے ڈھالے ہوئے بتوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے اونچے مقامات کو مسمار کردینا ‘ اگر تم نے اس کے خلاف ورزی کی تو یاد رکھو کہ جیسا میں نے تم کو ان کے ساتھ کرنے کے لیے کہا ہے ویسا ہی تمہارے ساتھ کروں گا۔ معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل نے اپنی عادت کے مطابق پیغمبر کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی جس کی پاداش میں ان پر اسی قسم کی کوئی وباء آئی جس قسم کی وبا ان پر شطیم میں آئی تھی۔
Top