Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 169
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُ١ؕ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِ١ؕ وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
فَخَلَفَ
: پیچھے آئے
مِنْۢ بَعْدِهِمْ
: ان کے بعد
خَلْفٌ
: ناخلف
وَّرِثُوا
: وہ وارث ہوئے
الْكِتٰبَ
: کتاب
يَاْخُذُوْنَ
: وہ لیتے ہیں
عَرَضَ
: متاع (اسباب)
هٰذَا الْاَدْنٰى
: ادنی زندگی
وَيَقُوْلُوْنَ
: اور کہتے ہیں
سَيُغْفَرُ لَنَا
: اب ہمیں بخشدیا جائے گا
وَاِنْ
: اور اگر
يَّاْتِهِمْ
: آئے ان کے پاس
عَرَضٌ
: مال و اسباب
مِّثْلُهٗ
: اس جیسا
يَاْخُذُوْهُ
: اس کو لے لیں
اَلَمْ يُؤْخَذْ
: کیا نہیں لیا گیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر (ان سے
مِّيْثَاقُ
: عہد
الْكِتٰبِ
: کتاب
اَنْ
: کہ
لَّا يَقُوْلُوْا
: وہ نہ کہیں
عَلَي
: پر (بارہ میں)
اللّٰهِ
: اللہ
اِلَّا
: مگر
الْحَقَّ
: سچ
وَدَرَسُوْا
: اور انہوں نے پڑھا
مَا فِيْهِ
: جو اس میں
وَالدَّارُ
: اور گھر
الْاٰخِرَةُ
: آخرت
خَيْرٌ
: بہتر
لِّلَّذِيْنَ
: ان کے لیے جو
يَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
: کیا تم سمجھتے نہیں
پھر ان کے بعد آئے ایسے نالائق جانشین جو کتاب کے وارث بنے جو اس دنیا کی متاع اختیار کرتے اور کہتے ہیں ہمارے لیے سب معاف کردیا جائے گا اور اگر ایسا ہی کوئی اور سامان ان کو مل جائے تو اسے بھی لے لیں کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ؟ کہ وہ اللہ پر حق کے سواء کوئی اور بات نہ کہیں اور انھوں نے اچھی طرح پڑھا بھی ہے جو کچھ اس میں لکھا ہے اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں کیا تم سمجھتے نہیں۔
فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰزَاالْااَدْنٰی وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا ج وَاِنْ تَاْتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاْخُذُوْہُط اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَ وَدَرَسُوْا مَافِیْہِط وَالدَّارُالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ (الاعراف : 169) ” پھر ان کے بعد آئے ایسے نالائق جانشین جو کتاب کے وارث بنے جو اس دنیا کی متاع اختیار کرتے اور کہتے ہیں ہمارے لیے سب معاف کردیا جائے گا اور اگر ایسا ہی کوئی اور سامان ان کو مل جائے تو اسے بھی لے لیں کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ؟ کہ وہ اللہ پر حق کے سواء کوئی اور بات نہ کہیں اور انھوں نے اچھی طرح پڑھا بھی ہے جو کچھ اس میں لکھا ہے اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں کیا تم سمجھتے نہیں “۔ مشکل الفاظ کے معنی اس آیت کریمہ میں چند الفاظ وضاحت طلب ہیں۔ پہلا لفظ خَلَفْ مصدرخلافت سے مشتق ماضی کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ” قائم مقام اور خلیفہ ہوگئے “ اور دوسرا لفظ خَلْفٌ مصدر ہے جو ” قائم مقام اور خلیفہ “ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ‘ مفرد اور جمع دونوں کے لیے بولا جاتا ہے یہ اکثر برے خلیفہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مقابل نیک اور قابل خلیفہ کے لیے خَلَفْ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ ” عرض “ سامان کے معنی میں بولا جاتا ہے جو نقد کے بدلا میں خریدا جاتا ہے۔ اور کبھی مطلقاً مال کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے خواہ نقد ہو یا سامان اور اس جگہ اسے مال کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ادنیٰ دُنُوٌ سے بھی مشتق ہوسکتا ہے اس صورت میں ادنیٰ کا معنی ہوگا اقرب۔ اسی کا مؤنث دنیا ہے۔ جس کے معنی قریب کے ہیں آخرت کے مقابلے میں یہ جہاں چونکہ انسان کے زیادہ قریب ہے اس لیے اس کو ادنیٰ اور دنیا کہا جاتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ادنیٰ دناء ۃ سے ہے اس کا معنی ہے ذلت ‘ اس صورت میں ادنیٰ کے معنی ذلیل اور حقیر کے ہوجائیں گے ‘ دنیا اور اس کے سب سامان چونکہ آخرت کے مقابلے میں حقیر اور ذلیل ہیں اس لیے اس کو ادنیٰ اور دنیا کہا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے تدریجی زوال کے اسباب دریا کے جب کسی بند میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو ہوش مند لوگ فوراً اس کی فکر کرتے ہیں وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر ان دراڑوں کو برابر نہ کیا گیا اور بند کی کمزوریوں کو دور نہ کیا گیا تو کہیں نہ کہیں شگاف بھی پڑ سکتا ہے لیکن اگر بند کے نگران اور اس کے آس پاس رہنے والے لوگ اسے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کردیں کہ ابھی صرف دراڑیں ہی پڑی ہیں پانی باہر نکلنا تو شروع نہیں ہوا نا ‘ تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ یہ غفلت کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور ایک نہ ایک دن بند میں شگاف پڑجاتا ہے۔ شگاف بھی اچانک نہیں پڑتا شروع میں پانی رسنے لگتا ہے پھر آہستہ آہستہ بہنے لگتا ہے پھر کہیں کہیں سوراخ ہونے لگتے ہیں اور جب اس کی فکر نہیں کی جاتی تو پھر شگاف کھل جاتا ہے اور کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔ آغاز میں معمولی کوشش سے اصلاح ہوسکتی ہے لیکن جب شگاف بڑا ہوجائے تو پھر بعض دفعہ زندگیاں دے کر بھی اسے بند نہیں کیا جاسکتا یہی حال قوموں کی زندگی کا بھی ہے مقاصدِ زندگی کے حوالے سے جب ان میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو پیغمبر اس کی طرف متوجہ کرنے لگتے ہیں لیکن جب قوم ان کی بات نہیں سنتی تو پھر ایک تدریج کے ساتھ زوال کا عمل آگے بڑھنے لگتا ہے کہیں اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ‘ کہیں عقائد کو گھن لگتا ہے ‘ کہیں معاملات میں ناہمواری جنم لیتی ہے اور کہیں اجتماعی زندگی انتشار اور افتراق کا شکار ہوتی ہے لیکن جب قوم ان میں سے کسی بات کا بھی ادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتی تو پھر زوال کا عمل بڑھتے بڑھتے ناقابلِ اصلاح ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے اسی تدریجی زوال کو ان آیات میں بیان کیا جا رہا ہے ایک ایسی امت جس کی بنیاد اللہ کے دین پر استوار ہو اور جس کی اجتماعی زندگی کا دارومدار تعلق باللہ ‘ اطاعت و خشیت اور خلق خدا کی خدمت پر ہو اس کے زوال اور تباہی کی تکمیل میں جو چیز سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جن مذہبی علماء اور راہنمائوں نے لوگوں کے اندر ان بنیادی اقدار کو زندہ رکھنا اور توانا کرنا ہے وہ خود ان بنیادی اقدار سے تہی دامن ہوجائیں ان کے اہداف اور مقاصد زندگی تبدیل ہوجائیں اور ان کی ترجیحات یکسر بدل کر رہ جائیں اس وقت اس قوم کا حال ایک ایسی گاڑی کا ہوجاتا ہے جس کے سٹیئرنگ پر کوئی ڈرائیور نہ ہو اور اگر ہو تو اسے بالکل معلوم نہ ہو کہ مجھے اس گاڑی اور اس کے مسافروں کو لے کر کہاں جانا ہے مسافر کہیں اور جانا چاہتے ہوں اور اس کا رخ کسی اور طرف ہو ایسی صورت میں ان کی تباہی کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کے زوال کی اسی آخری علامت کو بیان کیا جار ہا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ قومی خصوصیات سے محروم ہوچکے تھے۔ انتشار اور افتراق کے باعث ان کی اجتماعی زندگی تباہ ہوچکی تھی۔ بایں ہمہ ! ان میں خیر بالکل ختم نہیں ہوا تھا صالحین کا ایک گروہ ان میں باقی تھا جو ان کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ ان صالحین کے راہنما اور مقتداء یقینا کتاب اللہ کے علماء ہوں گے جو کسی نہ کسی حد تک اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے لیکن اب ان کی بدنصیبی یہاں تک پہنچ گئی کہ اب کتاب کے جو وارث ہوئے اور جنھوں نے اللہ کی کتاب کے علم کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر لوگوں کی اصلاح کے فرض کو انجام دینا تھا ان کا حال یہ ہوگیا کہ اس کتاب نے ان کے لیے آخرت کے حصول کو مقصد زندگی ٹھہرایا تھا اور انھیں حکم دیا گیا تھا کہ تمہاری زندگی اس طرح گزرنی چاہیے کہ ہر دیکھنے والا محسوس کرے کہ یہ لوگ آخرت کے مسافر ہیں ہر کام کرنے سے پہلے تمہیں فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ اس بارے میں اللہ کی کتاب نے کیا احکام دئیے ہیں اور شریعت ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے ؟ تمہیں اپنی ضروریاتِ زندگی کے حصول میں ہر قدم پر سوچنا چاہیے کہ میرے لیے کیا چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام ہے ؟ اور زندگی گزارتے ہوئے مجھے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے میرا اللہ ناراض ہوجائے لیکن اب جو لوگ کتاب کے وارث اور حامل ٹھہرے ان کی زندگی کا رخ بالکل دوسری طرف ہوگیا وہ بجائے آخرت کے دنیا کو اپنا ہدف بنا چکے بجائے آخرت کے مسافر بننے کے وہ دنیا کے حریص ہوگئے بالکل دنیا داروں کی طرح انھیں رات دن یہ فکر رہنے لگی کہ ہم ایک پر تعیش زندگی کس طرح اختیار کرسکتے ہیں انھوں نے کتاب خداوندی کو بھی دنیا طلبی کا ذریعہ بنا لیا اصحابِ اقتدار اور امرائے دولت کی خوشنودی کے لیے اگر اللہ کی کتاب میں انھیں تحریف اور ترمیم کرنا پڑی تو اس سے بھی دریغ نہ کیا اور عوام کو ایسے ایسے مذہبی فریب دئیے جس سے ان کی مالی زندگی مستحکم ہوتی گئی۔ دنیا کی روایت یہ ہے کہ جب کسی قوم کے مذہبی رہنماء سیرت و کردار سے عاری ہوجاتے ہیں یا ان کے کردار میں کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں تو عوام ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہب کا قلادہ گلے سے اتار پھینکتے ہیں اور حکمران جب دیکھتے ہیں کہ یہی ایک طبقہ تھا جو ہمیں روکتا تھا اور اب وہ خود دنیا کی دلدل میں دھنس گیا ہے تو پھر انھیں اپنے مقاصدِ مذمومہ کو حاصل کرنے میں کوئی روک نہیں رہتی نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم عقائد کی کمزوری ‘ اخلاق کی خرابی اور معاملات میں نا ہمواری کا شکار ہو کر بےدریغ تباہی کی طرف دوڑنے لگتی ہے۔ بنی اسرائیل نے بھی جب دیکھا کہ ہمارے مذہبی راہنما خود حب دنیا کے اسیر ہو کر کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں تو اب انھیں دنیا طلبی کی ناروا حدود تک پہنچنے سے کون روک سکتا تھا حقوق اللہ پہلے ہی تباہ ہوچکے تھے اب حقوق العباد بھی تباہ ہوگئے ہر چیز پر حب دنیا کے غلبے کے باعث ایک ایسی لوٹ کھسوٹ مچی جس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ دیانت و امانت ‘ حلال و حرام کی پابندی ‘ قناعت اور سادگی ‘ بےغرضی اور بےلوثی قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ اجتماعی زندگی ان کی پہلے ہی تباہ ہوچکی تھی رہی سہی کسر حب دنیا کے بحران نے پوری کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جب بھی قوموں کے عروج وزوال پر غور کرتے ہیں تو حیرت انگیز حد تک یہ بات سامنے آتی ہے کہ قوموں نے نامساعد حالات ‘ وسائل کی کمی ‘ آسانیوں کے فقدان اور مالی حالات میں ابتری کے دور میں ہی ترقی کی ہے یہی وہ دور ہوتا ہے جب ان کے اندر ہمت و شجاعت اور محنت و جانکاہی کا جذبہ ابلتا ہے۔ اولوالعزمی اور بلند ہمتی ان کا راستہ روشن کرتی ہے ان کے پیش نظر مقاصدِ زندگی اور قومی اہداف کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا وہ نان شبینہ پر گزارا کرتے ہیں ‘ پیوند لگے کپڑے پہنتے ہیں ‘ جھونپڑوں میں سکونت رکھتے ہیں لیکن تخت و تاج ان کے پائوں کی ٹھوکروں میں ہوتے ہیں ‘ زمین ان کے لیے سمٹنے لگتی ہے ‘ سر اور دل ان کی عظمتوں کے سامنے جھکنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کے اندر دنیا اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے اور وہ مظاہرِ دنیا کو عزت و عظمت کی علامت سمجھنے لگتے ہیں زمین پر بیٹھنے کی بجائے تخت پر بیٹھنا اور تاج پہننا ان کی معراج بن جاتا ہے اور طاقت اور قوت سے وہ لوگوں کی گردنوں پر سوار رہنا چاہتے ہیں اور درہم و دینار ‘ دولت کی ریل پیل ‘ معاشرت کا ٹھاٹھ بھاٹھ ان کا مقصود بن جاتا ہے تو پھر انھیں زوال کی طرف بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا قوت ہمیشہ جھونپڑوں سے نکلتی ہے اور محلات میں جا کر ڈوب جاتی ہے۔ سخت زندگی اولوالعزمی کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں فتوحات کا راستہ کھلتا ہے دنیا اور دولت دنیا سے محبت اور وابستگی ذلت اور نکبت کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا ہے ؎ سبب کچھ اور ہے تو خود جسے سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بےزری سے نہیں جب بھی میرا جوہر آشکار ہوا قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں بنی اسرائیل اپنے مقتدائوں اور راہنمائوں کی اسی کمزوری اور گمراہی کے باعث اپنے زوال کی انتہاء کو پہنچ گئے حتی کہ ان کا یہ حال ہوگیا کہ اگر کبھی انھیں توجہ دلائی جاتی کہ تم ایک حامل دعوت امت ہو لوگوں کی اصلاح تمہاری ذمہ داری ہے تمہیں لوگوں کو دین سکھانا اور اللہ کی دھرتی پر دین کو قائم کرنا ہے تو عوام تو عوام ان کے مذہبی راہنما ایسی باتوں کے جواب میں کہتے کہ ہمیں اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ ہمارا طرز عمل قیامت کے دن ہمارے لیے عذاب کا باعث ہوگا کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم چونکہ انبیاء کرام کی اولاد ہیں اور ہمارا اللہ سے خاص رشتہ ہے اس لیے یقینا ہماری مغفرت کردی جائے گی اور کسی صورت بھی اللہ کا عذاب ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگا لیکن اگر ایسی کوئی بات ہوئی بھی تو ہمارے آبائو اجداد یقینا ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اندازہ فرمائیں ! یہ ایسی امت ہے جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب موجود ہے اور اللہ کے کتنے انبیاء و رسل ان کی ہدایت کے لیے آچکے ہیں۔ بایں ہمہ ! اپنے گھڑے ہوئے غلط عقائد پر انھیں اس حد تک اعتماد ہے کہ وہ ایمان و عمل کو چھوڑ کر ایسے ہی عقائد کے سہارے مغفرت کو یقینی سمجھتے ہیں یہ باتیں پڑھ کر بظاہر حیرت ہوتی ہے لیکن اگر ہم امت مسلمہ کے بعض طبقات کی زندگی دیکھیں تو پھر یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ امتیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان کا حال ایسا ہی ہوتا ہے۔ اندازہ فرمائیے اس امت کے پاس اللہ کی آخری کتاب موجود ہے اور پھر یہ واحد امت ہے جس کے پاس اللہ کے رسول کی سنت محفوظ ہے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں واضح راہنمائی میسر نہ ہو بایں ہمہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے غلط علماء اور پیشوائوں نے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ تمہیں اسلامی شریعت پر عمل کرنے اور ایمان کے تقاضوں کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تم نے جن لوگوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے یعنی جن کو اپنا پیر اور مرشد مانا ہے تمہیں بس ان کی خدمت کرنی چاہیے وہ تمہاری بخشش کے لیے کافی ہیں۔ چناچہ ملک کے مختلف حصوں میں دیہات ہی میں نہیں شہروں میں بھی آپ کو ایسے پیرانِ کرام ملیں گے جن کی اپنی زندگی سراسر اسلامی تعلیمات سے بیگانہ ہے۔ بعض تو ایسے بھی مشہور بزرگ ہیں کہ جن میں تمام شرعی عیوب پائے جاتے ہیں لیکن عوام کی سادگی کا کیا کہنا کہ وہ سال بسال ان کے درشن کو اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھ کر بےتابانہ وہاں پہنچتے ہیں اور جیسے ہی انھیں ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے وہ اپنی ساری جمع پونجی ان کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں لیکن جو تعلیم یافتہ لوگ اس حدتک سادہ نہیں ان کی بیخبر ی کا بھی یہ عالم ہے کہ انھیں ایمان و عمل سے کوئی بڑاتعلق نہیں رہا ہے وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال چاہے کچھ بھی ہوں قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی شفاعت ہماری نجات کے لیے کافی ہے ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ارکانِ اسلام کے تارک ہیں ایسے بھی ہیں جن کی کمائی سراسر حرام کے ذرائع کی مرہونِ منت ہے اور ایسے بھی ہیں جنھیں نہ حقوق اللہ کی فکر ہے اور نہ حقوق العباد کی لیکن جب کبھی انھیں ان سے آخرت کی بات ہوتی ہے تو وہ بڑے اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ہم جس رسول پاک ﷺ پر ایمان لائے ہیں وہ قیامت کے دن ہماری سفارش فرمائیں گے تو پھر ہمیں کسی عمل کی ضرورت کیا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کرلینا چاہیے کہ رمضان المبارک میں خیرات کرلی جائے ‘ ربیع الاول میں میلاد کی محفلیں رچا دی جائیں، کسی مسجد میں قالین بچھا دیا جائے ‘ شبِ برأت میں حلوہ پوری سے لوگوں کی تواضع کردی جائے، یہ سب کچھ کرلینے کے بعد تو نجات میں کوئی شبہ ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اسی طرح کے سہاروں نے بنی اسرائیل کی زندگی برباد کی تھی اور انہی سہاروں نے اس امت کی دینی زندگی تباہ کردی ہے۔ اس آیت کریمہ میں آگے چل کر فرمایا گیا ہے کہ اے بنی اسرائیل کے لوگو ! تم نے جن مفروضوں پر اپنی پوری دینی زندگی کو استوار کرلیا ہے اور جس میں آخرت کی بجائے دنیا طلبی تمہارا مقصود بن کر رہ گئی ہے۔ کیا تمہاری کتاب نے تمہیں یہی تعلیم دی تھی ؟ اور آج بھی وہ اللہ کی کتاب تمہارے پاس موجود ہے بتائو کیا اس میں یہ باتیں موجود ہیں ؟ تمہیں خوب معلوم ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات موجود نہیں البتہ اسی کتاب میں تم سے یہ عہد ضرور لیا گیا تھا کہ تم اسی کتاب کے احکام کے مطابق زندگی گزاروگے اور اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر اس کتاب یعنی اللہ کی طرف منسوب نہیں کرو گے۔ تم میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو اس کتاب کو پڑھتے بھی ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کتاب میں کیا ہے اور کیا نہیں حتی کہ اس کتاب کو پڑھنے کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے یہ کتاب پڑھ پڑھ کر گھس ڈالی ہے کیونکہ یہاں ” دَرَسُوْا “ کا لفظ استعمال ہوا ہے درس کا معنی گھسنا ہے جب کوئی کتاب ہر سطر پر انگلی رکھ کر بار بار پڑھی جائے تو عموماً اس کے الفاظ گھس جاتے ہیں آج بھی آپ نے بعض لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ قرآن کریم پر انگلی رکھ کر پڑھتے ہیں اور تورات کے زمانے میں کتابت اور طباعت کے اتنے خوبصورت انتظام بھی نہیں تھے یقینا اس وقت کتاب کو پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ انگلی بھی پھیرنا پڑتی ہوگی تاکہ کسی سطر کا اشتباہ نہ ہوجائے تو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے کتاب پڑھ پڑھ کر گھس ڈالی ہے اور تمہیں خوب معلوم ہے کہ اس کتاب میں تمہیں کیا تعلیمات دی گئی ہیں اور تمہارے لیے کیا ترجیحات قائم کی گئی ہیں اور کس طرح آخرت کو تمہارا مقصود ٹھہرایا گیا تھا لیکن تم نے اس کی بجائے دنیا کے مال کو اپنا مقصود بنایا اور اس پوری تبدیلی کے لیے ان تصورات میں پناہ لی جنھیں تم نے اپنی خواہش سے پیدا کیا۔ حالانکہ اس کتاب نے تمہیں کھول کر یہ بات بتائی تھی کہ بخشش اور آخرت کا گھر کسی کا ذاتی اور خاندانی اجارہ نہیں بلکہ یہ تو ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں خدا ترسی سے کام کریں گے جس کی زندگی ایک متقی کی زندگی ہوگی وہ بجائے دنیا کو اپنا مطلوب بنانے کے آخرت کی تیاری کی فکر کریں گے لیکن تم نے اس بنیادی تعلیم سے منحرف ہو کر اور کتاب خداوندی کی ہدایات کو نظر انداز کر کے نہ صرف دنیا طلبی کو اپنا محبوب اور مقصود بنایا بلکہ غلط عقائد اور تصورات گھڑ کر پوری دینی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا تمہارے نزدیک بنی اسرائیل میں سے ہونا نجات کے لیے کافی ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر کتابیں اور پیغمبر بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی کیا تم اتنی معمولی بات کو نہیں سمجھتے کہ جو لوگ بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے انھیں اگر اپنے نسب کے اعتبار سے جنت میں جانا ہے تو ان کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کا تشریف لانا اور پھر ان پر تورات کا نازل ہونا اور پھر تورات کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ان کا مصر سے نکل کر صحرائے تیہ اور وادیٔ سیناء میں آنا اور شہری زندگی کو چھوڑ کر صحرائی زندگی کو اختیار کرنا تاکہ اللہ کے دین کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے اس کی آخر کیا ضرورت تھی۔ اب بھی اگر تم سمجھنا چاہو تو ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ اللہ کے یہاں نجات اور بخشش کا دارومدار کس چیز پر ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے ہاں مصلحین کہلا سکتے ہیں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا :
Top