Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 169
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْكِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ هٰذَا الْاَدْنٰى وَ یَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُ لَنَا١ۚ وَ اِنْ یَّاْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهٗ یَاْخُذُوْهُ١ؕ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْهِمْ مِّیْثَاقُ الْكِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ وَ دَرَسُوْا مَا فِیْهِ١ؕ وَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
فَخَلَفَ : پیچھے آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : ناخلف وَّرِثُوا : وہ وارث ہوئے الْكِتٰبَ : کتاب يَاْخُذُوْنَ : وہ لیتے ہیں عَرَضَ : متاع (اسباب) هٰذَا الْاَدْنٰى : ادنی زندگی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں سَيُغْفَرُ لَنَا : اب ہمیں بخشدیا جائے گا وَاِنْ : اور اگر يَّاْتِهِمْ : آئے ان کے پاس عَرَضٌ : مال و اسباب مِّثْلُهٗ : اس جیسا يَاْخُذُوْهُ : اس کو لے لیں اَلَمْ يُؤْخَذْ : کیا نہیں لیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر (ان سے مِّيْثَاقُ : عہد الْكِتٰبِ : کتاب اَنْ : کہ لَّا يَقُوْلُوْا : وہ نہ کہیں عَلَي : پر (بارہ میں) اللّٰهِ : اللہ اِلَّا : مگر الْحَقَّ : سچ وَدَرَسُوْا : اور انہوں نے پڑھا مَا فِيْهِ : جو اس میں وَالدَّارُ : اور گھر الْاٰخِرَةُ : آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا تم سمجھتے نہیں
پھر ان کے بعد آئے ایسے نالائق جانشین جو کتاب کے وارث بنے جو اس دنیا کی متاع اختیار کرتے اور کہتے ہیں ہمارے لیے سب معاف کردیا جائے گا اور اگر ایسا ہی کوئی اور سامان ان کو مل جائے تو اسے بھی لے لیں کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ؟ کہ وہ اللہ پر حق کے سواء کوئی اور بات نہ کہیں اور انھوں نے اچھی طرح پڑھا بھی ہے جو کچھ اس میں لکھا ہے اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں کیا تم سمجھتے نہیں۔
فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِھِمْ خَلْفٌ وَّرِثُوا الْکِتٰبَ یَاْخُذُوْنَ عَرَضَ ھٰزَاالْااَدْنٰی وَیَقُوْلُوْنَ سَیُغْفَرُلَنَا ج وَاِنْ تَاْتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہٗ یَاْخُذُوْہُط اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ اَنْ لَّا یَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَ وَدَرَسُوْا مَافِیْہِط وَالدَّارُالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ (الاعراف : 169) ” پھر ان کے بعد آئے ایسے نالائق جانشین جو کتاب کے وارث بنے جو اس دنیا کی متاع اختیار کرتے اور کہتے ہیں ہمارے لیے سب معاف کردیا جائے گا اور اگر ایسا ہی کوئی اور سامان ان کو مل جائے تو اسے بھی لے لیں کیا ان سے کتاب میں عہد نہیں لیا گیا ؟ کہ وہ اللہ پر حق کے سواء کوئی اور بات نہ کہیں اور انھوں نے اچھی طرح پڑھا بھی ہے جو کچھ اس میں لکھا ہے اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں کیا تم سمجھتے نہیں “۔ مشکل الفاظ کے معنی اس آیت کریمہ میں چند الفاظ وضاحت طلب ہیں۔ پہلا لفظ خَلَفْ مصدرخلافت سے مشتق ماضی کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں ” قائم مقام اور خلیفہ ہوگئے “ اور دوسرا لفظ خَلْفٌ مصدر ہے جو ” قائم مقام اور خلیفہ “ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ‘ مفرد اور جمع دونوں کے لیے بولا جاتا ہے یہ اکثر برے خلیفہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مقابل نیک اور قابل خلیفہ کے لیے خَلَفْ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ ” عرض “ سامان کے معنی میں بولا جاتا ہے جو نقد کے بدلا میں خریدا جاتا ہے۔ اور کبھی مطلقاً مال کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے خواہ نقد ہو یا سامان اور اس جگہ اسے مال کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ ادنیٰ دُنُوٌ سے بھی مشتق ہوسکتا ہے اس صورت میں ادنیٰ کا معنی ہوگا اقرب۔ اسی کا مؤنث دنیا ہے۔ جس کے معنی قریب کے ہیں آخرت کے مقابلے میں یہ جہاں چونکہ انسان کے زیادہ قریب ہے اس لیے اس کو ادنیٰ اور دنیا کہا جاتا ہے۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ادنیٰ دناء ۃ سے ہے اس کا معنی ہے ذلت ‘ اس صورت میں ادنیٰ کے معنی ذلیل اور حقیر کے ہوجائیں گے ‘ دنیا اور اس کے سب سامان چونکہ آخرت کے مقابلے میں حقیر اور ذلیل ہیں اس لیے اس کو ادنیٰ اور دنیا کہا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے تدریجی زوال کے اسباب دریا کے جب کسی بند میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو ہوش مند لوگ فوراً اس کی فکر کرتے ہیں وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر ان دراڑوں کو برابر نہ کیا گیا اور بند کی کمزوریوں کو دور نہ کیا گیا تو کہیں نہ کہیں شگاف بھی پڑ سکتا ہے لیکن اگر بند کے نگران اور اس کے آس پاس رہنے والے لوگ اسے معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کردیں کہ ابھی صرف دراڑیں ہی پڑی ہیں پانی باہر نکلنا تو شروع نہیں ہوا نا ‘ تو پھر یہ بات یقینی ہے کہ یہ غفلت کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور ایک نہ ایک دن بند میں شگاف پڑجاتا ہے۔ شگاف بھی اچانک نہیں پڑتا شروع میں پانی رسنے لگتا ہے پھر آہستہ آہستہ بہنے لگتا ہے پھر کہیں کہیں سوراخ ہونے لگتے ہیں اور جب اس کی فکر نہیں کی جاتی تو پھر شگاف کھل جاتا ہے اور کھلتا ہی چلا جاتا ہے۔ آغاز میں معمولی کوشش سے اصلاح ہوسکتی ہے لیکن جب شگاف بڑا ہوجائے تو پھر بعض دفعہ زندگیاں دے کر بھی اسے بند نہیں کیا جاسکتا یہی حال قوموں کی زندگی کا بھی ہے مقاصدِ زندگی کے حوالے سے جب ان میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں تو پیغمبر اس کی طرف متوجہ کرنے لگتے ہیں لیکن جب قوم ان کی بات نہیں سنتی تو پھر ایک تدریج کے ساتھ زوال کا عمل آگے بڑھنے لگتا ہے کہیں اخلاقی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ‘ کہیں عقائد کو گھن لگتا ہے ‘ کہیں معاملات میں ناہمواری جنم لیتی ہے اور کہیں اجتماعی زندگی انتشار اور افتراق کا شکار ہوتی ہے لیکن جب قوم ان میں سے کسی بات کا بھی ادراک کرنے کو تیار نہیں ہوتی تو پھر زوال کا عمل بڑھتے بڑھتے ناقابلِ اصلاح ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے اسی تدریجی زوال کو ان آیات میں بیان کیا جا رہا ہے ایک ایسی امت جس کی بنیاد اللہ کے دین پر استوار ہو اور جس کی اجتماعی زندگی کا دارومدار تعلق باللہ ‘ اطاعت و خشیت اور خلق خدا کی خدمت پر ہو اس کے زوال اور تباہی کی تکمیل میں جو چیز سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جن مذہبی علماء اور راہنمائوں نے لوگوں کے اندر ان بنیادی اقدار کو زندہ رکھنا اور توانا کرنا ہے وہ خود ان بنیادی اقدار سے تہی دامن ہوجائیں ان کے اہداف اور مقاصد زندگی تبدیل ہوجائیں اور ان کی ترجیحات یکسر بدل کر رہ جائیں اس وقت اس قوم کا حال ایک ایسی گاڑی کا ہوجاتا ہے جس کے سٹیئرنگ پر کوئی ڈرائیور نہ ہو اور اگر ہو تو اسے بالکل معلوم نہ ہو کہ مجھے اس گاڑی اور اس کے مسافروں کو لے کر کہاں جانا ہے مسافر کہیں اور جانا چاہتے ہوں اور اس کا رخ کسی اور طرف ہو ایسی صورت میں ان کی تباہی کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کے زوال کی اسی آخری علامت کو بیان کیا جار ہا ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ قومی خصوصیات سے محروم ہوچکے تھے۔ انتشار اور افتراق کے باعث ان کی اجتماعی زندگی تباہ ہوچکی تھی۔ بایں ہمہ ! ان میں خیر بالکل ختم نہیں ہوا تھا صالحین کا ایک گروہ ان میں باقی تھا جو ان کی اصلاح کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ ان صالحین کے راہنما اور مقتداء یقینا کتاب اللہ کے علماء ہوں گے جو کسی نہ کسی حد تک اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوں گے لیکن اب ان کی بدنصیبی یہاں تک پہنچ گئی کہ اب کتاب کے جو وارث ہوئے اور جنھوں نے اللہ کی کتاب کے علم کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر لوگوں کی اصلاح کے فرض کو انجام دینا تھا ان کا حال یہ ہوگیا کہ اس کتاب نے ان کے لیے آخرت کے حصول کو مقصد زندگی ٹھہرایا تھا اور انھیں حکم دیا گیا تھا کہ تمہاری زندگی اس طرح گزرنی چاہیے کہ ہر دیکھنے والا محسوس کرے کہ یہ لوگ آخرت کے مسافر ہیں ہر کام کرنے سے پہلے تمہیں فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ اس بارے میں اللہ کی کتاب نے کیا احکام دئیے ہیں اور شریعت ہماری کیا راہنمائی کرتی ہے ؟ تمہیں اپنی ضروریاتِ زندگی کے حصول میں ہر قدم پر سوچنا چاہیے کہ میرے لیے کیا چیز حلال ہے اور کیا چیز حرام ہے ؟ اور زندگی گزارتے ہوئے مجھے کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے میرا اللہ ناراض ہوجائے لیکن اب جو لوگ کتاب کے وارث اور حامل ٹھہرے ان کی زندگی کا رخ بالکل دوسری طرف ہوگیا وہ بجائے آخرت کے دنیا کو اپنا ہدف بنا چکے بجائے آخرت کے مسافر بننے کے وہ دنیا کے حریص ہوگئے بالکل دنیا داروں کی طرح انھیں رات دن یہ فکر رہنے لگی کہ ہم ایک پر تعیش زندگی کس طرح اختیار کرسکتے ہیں انھوں نے کتاب خداوندی کو بھی دنیا طلبی کا ذریعہ بنا لیا اصحابِ اقتدار اور امرائے دولت کی خوشنودی کے لیے اگر اللہ کی کتاب میں انھیں تحریف اور ترمیم کرنا پڑی تو اس سے بھی دریغ نہ کیا اور عوام کو ایسے ایسے مذہبی فریب دئیے جس سے ان کی مالی زندگی مستحکم ہوتی گئی۔ دنیا کی روایت یہ ہے کہ جب کسی قوم کے مذہبی رہنماء سیرت و کردار سے عاری ہوجاتے ہیں یا ان کے کردار میں کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں تو عوام ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہب کا قلادہ گلے سے اتار پھینکتے ہیں اور حکمران جب دیکھتے ہیں کہ یہی ایک طبقہ تھا جو ہمیں روکتا تھا اور اب وہ خود دنیا کی دلدل میں دھنس گیا ہے تو پھر انھیں اپنے مقاصدِ مذمومہ کو حاصل کرنے میں کوئی روک نہیں رہتی نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم عقائد کی کمزوری ‘ اخلاق کی خرابی اور معاملات میں نا ہمواری کا شکار ہو کر بےدریغ تباہی کی طرف دوڑنے لگتی ہے۔ بنی اسرائیل نے بھی جب دیکھا کہ ہمارے مذہبی راہنما خود حب دنیا کے اسیر ہو کر کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں تو اب انھیں دنیا طلبی کی ناروا حدود تک پہنچنے سے کون روک سکتا تھا حقوق اللہ پہلے ہی تباہ ہوچکے تھے اب حقوق العباد بھی تباہ ہوگئے ہر چیز پر حب دنیا کے غلبے کے باعث ایک ایسی لوٹ کھسوٹ مچی جس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ دیانت و امانت ‘ حلال و حرام کی پابندی ‘ قناعت اور سادگی ‘ بےغرضی اور بےلوثی قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ اجتماعی زندگی ان کی پہلے ہی تباہ ہوچکی تھی رہی سہی کسر حب دنیا کے بحران نے پوری کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جب بھی قوموں کے عروج وزوال پر غور کرتے ہیں تو حیرت انگیز حد تک یہ بات سامنے آتی ہے کہ قوموں نے نامساعد حالات ‘ وسائل کی کمی ‘ آسانیوں کے فقدان اور مالی حالات میں ابتری کے دور میں ہی ترقی کی ہے یہی وہ دور ہوتا ہے جب ان کے اندر ہمت و شجاعت اور محنت و جانکاہی کا جذبہ ابلتا ہے۔ اولوالعزمی اور بلند ہمتی ان کا راستہ روشن کرتی ہے ان کے پیش نظر مقاصدِ زندگی اور قومی اہداف کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا وہ نان شبینہ پر گزارا کرتے ہیں ‘ پیوند لگے کپڑے پہنتے ہیں ‘ جھونپڑوں میں سکونت رکھتے ہیں لیکن تخت و تاج ان کے پائوں کی ٹھوکروں میں ہوتے ہیں ‘ زمین ان کے لیے سمٹنے لگتی ہے ‘ سر اور دل ان کی عظمتوں کے سامنے جھکنے لگتے ہیں لیکن جیسے ہی ان کے اندر دنیا اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوتی ہے اور وہ مظاہرِ دنیا کو عزت و عظمت کی علامت سمجھنے لگتے ہیں زمین پر بیٹھنے کی بجائے تخت پر بیٹھنا اور تاج پہننا ان کی معراج بن جاتا ہے اور طاقت اور قوت سے وہ لوگوں کی گردنوں پر سوار رہنا چاہتے ہیں اور درہم و دینار ‘ دولت کی ریل پیل ‘ معاشرت کا ٹھاٹھ بھاٹھ ان کا مقصود بن جاتا ہے تو پھر انھیں زوال کی طرف بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا قوت ہمیشہ جھونپڑوں سے نکلتی ہے اور محلات میں جا کر ڈوب جاتی ہے۔ سخت زندگی اولوالعزمی کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں فتوحات کا راستہ کھلتا ہے دنیا اور دولت دنیا سے محبت اور وابستگی ذلت اور نکبت کا سبب بنتی ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا ہے ؎ سبب کچھ اور ہے تو خود جسے سمجھتا ہے زوال بندہ مومن کا بےزری سے نہیں جب بھی میرا جوہر آشکار ہوا قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں بنی اسرائیل اپنے مقتدائوں اور راہنمائوں کی اسی کمزوری اور گمراہی کے باعث اپنے زوال کی انتہاء کو پہنچ گئے حتی کہ ان کا یہ حال ہوگیا کہ اگر کبھی انھیں توجہ دلائی جاتی کہ تم ایک حامل دعوت امت ہو لوگوں کی اصلاح تمہاری ذمہ داری ہے تمہیں لوگوں کو دین سکھانا اور اللہ کی دھرتی پر دین کو قائم کرنا ہے تو عوام تو عوام ان کے مذہبی راہنما ایسی باتوں کے جواب میں کہتے کہ ہمیں اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں کہ ہمارا طرز عمل قیامت کے دن ہمارے لیے عذاب کا باعث ہوگا کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہم چونکہ انبیاء کرام کی اولاد ہیں اور ہمارا اللہ سے خاص رشتہ ہے اس لیے یقینا ہماری مغفرت کردی جائے گی اور کسی صورت بھی اللہ کا عذاب ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگا لیکن اگر ایسی کوئی بات ہوئی بھی تو ہمارے آبائو اجداد یقینا ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اندازہ فرمائیں ! یہ ایسی امت ہے جن کے ہاتھوں میں اللہ کی کتاب موجود ہے اور اللہ کے کتنے انبیاء و رسل ان کی ہدایت کے لیے آچکے ہیں۔ بایں ہمہ ! اپنے گھڑے ہوئے غلط عقائد پر انھیں اس حد تک اعتماد ہے کہ وہ ایمان و عمل کو چھوڑ کر ایسے ہی عقائد کے سہارے مغفرت کو یقینی سمجھتے ہیں یہ باتیں پڑھ کر بظاہر حیرت ہوتی ہے لیکن اگر ہم امت مسلمہ کے بعض طبقات کی زندگی دیکھیں تو پھر یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ امتیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان کا حال ایسا ہی ہوتا ہے۔ اندازہ فرمائیے اس امت کے پاس اللہ کی آخری کتاب موجود ہے اور پھر یہ واحد امت ہے جس کے پاس اللہ کے رسول کی سنت محفوظ ہے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کے بارے میں ہمیں واضح راہنمائی میسر نہ ہو بایں ہمہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے غلط علماء اور پیشوائوں نے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ تمہیں اسلامی شریعت پر عمل کرنے اور ایمان کے تقاضوں کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تم نے جن لوگوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے یعنی جن کو اپنا پیر اور مرشد مانا ہے تمہیں بس ان کی خدمت کرنی چاہیے وہ تمہاری بخشش کے لیے کافی ہیں۔ چناچہ ملک کے مختلف حصوں میں دیہات ہی میں نہیں شہروں میں بھی آپ کو ایسے پیرانِ کرام ملیں گے جن کی اپنی زندگی سراسر اسلامی تعلیمات سے بیگانہ ہے۔ بعض تو ایسے بھی مشہور بزرگ ہیں کہ جن میں تمام شرعی عیوب پائے جاتے ہیں لیکن عوام کی سادگی کا کیا کہنا کہ وہ سال بسال ان کے درشن کو اپنی بخشش کا ذریعہ سمجھ کر بےتابانہ وہاں پہنچتے ہیں اور جیسے ہی انھیں ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے وہ اپنی ساری جمع پونجی ان کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں لیکن جو تعلیم یافتہ لوگ اس حدتک سادہ نہیں ان کی بیخبر ی کا بھی یہ عالم ہے کہ انھیں ایمان و عمل سے کوئی بڑاتعلق نہیں رہا ہے وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال چاہے کچھ بھی ہوں قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کی شفاعت ہماری نجات کے لیے کافی ہے ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ارکانِ اسلام کے تارک ہیں ایسے بھی ہیں جن کی کمائی سراسر حرام کے ذرائع کی مرہونِ منت ہے اور ایسے بھی ہیں جنھیں نہ حقوق اللہ کی فکر ہے اور نہ حقوق العباد کی لیکن جب کبھی انھیں ان سے آخرت کی بات ہوتی ہے تو وہ بڑے اطمینان سے جواب دیتے ہیں کہ ہم جس رسول پاک ﷺ پر ایمان لائے ہیں وہ قیامت کے دن ہماری سفارش فرمائیں گے تو پھر ہمیں کسی عمل کی ضرورت کیا ہے ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کرلینا چاہیے کہ رمضان المبارک میں خیرات کرلی جائے ‘ ربیع الاول میں میلاد کی محفلیں رچا دی جائیں، کسی مسجد میں قالین بچھا دیا جائے ‘ شبِ برأت میں حلوہ پوری سے لوگوں کی تواضع کردی جائے، یہ سب کچھ کرلینے کے بعد تو نجات میں کوئی شبہ ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اسی طرح کے سہاروں نے بنی اسرائیل کی زندگی برباد کی تھی اور انہی سہاروں نے اس امت کی دینی زندگی تباہ کردی ہے۔ اس آیت کریمہ میں آگے چل کر فرمایا گیا ہے کہ اے بنی اسرائیل کے لوگو ! تم نے جن مفروضوں پر اپنی پوری دینی زندگی کو استوار کرلیا ہے اور جس میں آخرت کی بجائے دنیا طلبی تمہارا مقصود بن کر رہ گئی ہے۔ کیا تمہاری کتاب نے تمہیں یہی تعلیم دی تھی ؟ اور آج بھی وہ اللہ کی کتاب تمہارے پاس موجود ہے بتائو کیا اس میں یہ باتیں موجود ہیں ؟ تمہیں خوب معلوم ہے کہ اس میں ایسی کوئی بات موجود نہیں البتہ اسی کتاب میں تم سے یہ عہد ضرور لیا گیا تھا کہ تم اسی کتاب کے احکام کے مطابق زندگی گزاروگے اور اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر اس کتاب یعنی اللہ کی طرف منسوب نہیں کرو گے۔ تم میں ایسے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو اس کتاب کو پڑھتے بھی ہیں اور وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کتاب میں کیا ہے اور کیا نہیں حتی کہ اس کتاب کو پڑھنے کا عالم یہ ہے کہ انھوں نے یہ کتاب پڑھ پڑھ کر گھس ڈالی ہے کیونکہ یہاں ” دَرَسُوْا “ کا لفظ استعمال ہوا ہے درس کا معنی گھسنا ہے جب کوئی کتاب ہر سطر پر انگلی رکھ کر بار بار پڑھی جائے تو عموماً اس کے الفاظ گھس جاتے ہیں آج بھی آپ نے بعض لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ وہ قرآن کریم پر انگلی رکھ کر پڑھتے ہیں اور تورات کے زمانے میں کتابت اور طباعت کے اتنے خوبصورت انتظام بھی نہیں تھے یقینا اس وقت کتاب کو پڑھتے ہوئے ساتھ ساتھ انگلی بھی پھیرنا پڑتی ہوگی تاکہ کسی سطر کا اشتباہ نہ ہوجائے تو یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم نے کتاب پڑھ پڑھ کر گھس ڈالی ہے اور تمہیں خوب معلوم ہے کہ اس کتاب میں تمہیں کیا تعلیمات دی گئی ہیں اور تمہارے لیے کیا ترجیحات قائم کی گئی ہیں اور کس طرح آخرت کو تمہارا مقصود ٹھہرایا گیا تھا لیکن تم نے اس کی بجائے دنیا کے مال کو اپنا مقصود بنایا اور اس پوری تبدیلی کے لیے ان تصورات میں پناہ لی جنھیں تم نے اپنی خواہش سے پیدا کیا۔ حالانکہ اس کتاب نے تمہیں کھول کر یہ بات بتائی تھی کہ بخشش اور آخرت کا گھر کسی کا ذاتی اور خاندانی اجارہ نہیں بلکہ یہ تو ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں خدا ترسی سے کام کریں گے جس کی زندگی ایک متقی کی زندگی ہوگی وہ بجائے دنیا کو اپنا مطلوب بنانے کے آخرت کی تیاری کی فکر کریں گے لیکن تم نے اس بنیادی تعلیم سے منحرف ہو کر اور کتاب خداوندی کی ہدایات کو نظر انداز کر کے نہ صرف دنیا طلبی کو اپنا محبوب اور مقصود بنایا بلکہ غلط عقائد اور تصورات گھڑ کر پوری دینی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا تمہارے نزدیک بنی اسرائیل میں سے ہونا نجات کے لیے کافی ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر کتابیں اور پیغمبر بھیجنے کی ضرورت ہی کیا تھی کیا تم اتنی معمولی بات کو نہیں سمجھتے کہ جو لوگ بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے انھیں اگر اپنے نسب کے اعتبار سے جنت میں جانا ہے تو ان کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کا تشریف لانا اور پھر ان پر تورات کا نازل ہونا اور پھر تورات کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ان کا مصر سے نکل کر صحرائے تیہ اور وادیٔ سیناء میں آنا اور شہری زندگی کو چھوڑ کر صحرائی زندگی کو اختیار کرنا تاکہ اللہ کے دین کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکے اس کی آخر کیا ضرورت تھی۔ اب بھی اگر تم سمجھنا چاہو تو ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ اللہ کے یہاں نجات اور بخشش کا دارومدار کس چیز پر ہے اور وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے ہاں مصلحین کہلا سکتے ہیں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا :
Top