Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 170
وَ الَّذِیْنَ یُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُمَسِّكُوْنَ : مضبوط پکڑے ہوئے ہیں بِالْكِتٰبِ : کتاب کو وَاَقَامُوا : اور قائم رکھتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّا : بیشک ہم لَا نُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتے اَجْرَ : اجر الْمُصْلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
اور جو لوگ کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھامتے اور نماز قائم کرتے ہیں تو ہم مصلحین کا اجر ضائع نہیں کریں گے
وَالَّذِیْنَ یُمَسِکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَط اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَالْمُصْلِحِیْنَ ۔ وَاِذْ نَتَقْنَالْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَانَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّطَنُوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌمبِھِمْج خُذُوْامَآاٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَافِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَقُوْنَ ۔ (الاعراف : 171 170) ” اور جو لوگ کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھامتے اور نماز قائم کرتے ہیں تو ہم مصلحین کا اجر ضائع نہیں کریں گے اور یاد کرو جب ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو معلق کردیا گویا وہ سائبان ہے اور انھوں نے گمان کیا کہ وہ ان پر گرا ہی چاہتا ہے ‘ (ہم نے کہا) پکڑو اس چیز کو جو ہم نے تم کو دی ہے مضبوطی سے ‘ اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے تاکہ تم خدا کے عذاب سے محفوظ رہو۔ “۔ نجات کا دارومدار تمسیک بالکتاب اور اقامتِ صلوٰۃ پر ہے اس آیت کریمہ کو سابقہ آیت کریمہ کے ساتھ ملا کر پڑھیں اور اس کی روشنی میں اس کے الفاظ پر غور کریں تو تب اس آیت کریمہ کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ گزشتہ آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا زوال بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گیا کہ جس کتاب کے ذریعے سے انھوں نے دنیا کی امامت و قیادت کرنی تھی اور جس کے واسطے سے انھوں نے اپنی اور دنیا کی اصلاح کا کام کرنا تھا انھوں نے اس کتاب کو صرف تلاوت کی حد تک قبول کیا باقی پوری زندگی انھوں نے خواہشات کے حوالے کردی ہماری طرح وہ بھی یہی سمجھتے رہے کہ اللہ کی کتاب کا حق صرف یہ ہے کہ اسے پڑھا جائے اور اس سے ثواب حاصل کیا جائے یا زیادہ سے زیادہ اس سے شفاء حاصل کرلی جائے یعنی تعویذ وغیرہ میں استعمال کیا جائے اور اگر بہت ہی زیادہ اس تعلق کو نبھانا ہو تو پھر اس سے ایصالِ ثواب کا کام لے لیا جائے رہی یہ بات کہ اس کتاب کو زندگی کا راہنما بنا کر اس کی راہنمائی میں زندگی گزاری جائے اسی کو آئین اور قانون کا درجہ دیا جائے جس طرح عبادت گاہوں میں اس کا چلن ہو اسی طرح زندگی کے ہر دائرے میں حتی کہ عدالتوں اور ایوان ہائے حکومت میں بھی اسی کی حکومت ہو اس سے انھوں نے یکسر انحراف کر کے کتاب کو اپنے گھروں یا زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت گاہوں تک محدود کرلیا اور اپنی زندگی کی باگ ڈور وضعی قوانین اور طاغوتی قوتوں کے ہاتھ میں دے دی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تمام تر خرابی کا دارومدار اسی ایک تصور کے بگڑ جانے پر ہے کہ ہم نے تمہیں اس کتاب سے تمسک کا حکم دیا تھا اور اب بھی وہی لوگ اس کتاب سے فائدہ اٹھائیں گے جو اس کتاب سے تمسک کریں گے۔ تمسک کا معنی ہے ” کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینا یا تھام لینا “۔ کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا مطلب یہ ہے جیسا پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اس کتاب کو زندگی کی راہنماء بنایا جائے جس طرح عبادت کرتے ہوئے یہ کتاب راہنمائی کرے اسی طرح معاشرت ‘ معیشت ‘ تعلیم ‘ سیاست ‘ تفریح ‘ حکومت ‘ معاملات ‘ آدابِ زندگی غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں کبھی اس کے ماننے والے اسے اپنے سے علیحدہ نہ کریں جس طرح جسم و جان میں موت سے پہلے علیحدگی نہیں ہوسکتی ‘ جس طرح پھول اور خوشبو کبھی الگ الگ نہیں ہوسکتے ‘ جس طرح چاند سے اس کی آب و تاب الگ نہیں کی جاسکتی ‘ جس طرح پانی سے اس کا بہائو نہیں چھینا جاسکتا ‘ جس طرح سورج سے اس کی کرنیں الگ نہیں کی جاسکتیں اسی طرح کتاب اور اہل کتاب کو بھی جدا جدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس انتہائی قریبی تعلق اس وابستگی اور وارفتگی اور ایمان و عمل کے اس رشتے کو کتاب سے تمسک کا نام دیا گیا ہے اور پھر یہ دکھانے کے لیے کہ کتاب سے تمسک کے بعد انسان میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو لوگ صاحب ایمان ہیں وہ کتاب سے تمسک کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں کیونکہ کتاب سے تمسک کا سب سے پہلا مقصد یہ ہے کہ بندے کو اس کے معبود سے جوڑ دیا جائے۔ بندے کا اپنے رب سے ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہوجائے انسان جو مختلف آستانوں پر سر جھکاتا پھرتا ہے یا بغاوت کا شکار ہو کر خود طاغوت بن بیٹھا ہے اسے اللہ کے آستانے پر جھکا دیا جائے جو انسان قوت اور طاقت کا مدعی بن کر لوگوں پر ظلم توڑنے لگا ہے اس کے ذہن میں یہ بات ڈال دی جائے کہ طاقت کا حقیقی سر چشمہ اللہ کی ذات ہے اسی کی قدرتیں اور قوتیں بےپناہ ہیں اس کے سامنے کسی کی قدرت اور قوت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح جو لوگ تخت و تاج یا دولت و امارت کو عظمت و بلندی کا مصدر و منبع جان کر اس کی بندگی کرنے لگتے ہیں انھیں بتایا جائے کہ وہ ذات جو سب عظمتوں کی مالک ‘ سب کبریائیوں کی حامل اور تمام بلندیوں سے بلند ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں عظمت و سطوت کی نمود دیکھتے ہو وہ فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں انسانوں کی کمزوریوں نے انسانوں کو خدا بنایا ہے، سر جھکانے والوں نے آستانوں کو وجو دبخشا ‘ جھکنے والوں نے دماغوں میں ربوبیت کا سودا پیدا کیا ہے۔ ان تمام کمزوریوں کا علاج صرف نماز سے ممکن ہے جس کا ایک ایک بول ‘ جس کا قیام و قعود ‘ جس کا رکوع و سجود ‘ جس کی تسبیح و مناجات ایک ایک کمزوری کا علاج ہے۔ ایک نمازی جب نماز کے ارادے سے ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ اصل میں اعلان کرتا ہے کہ میں تمام دنیا کی قوتوں ‘ شوکتوں ‘ تمام دنیا کے ازموں اور تمام دنیا کے آستانوں کو ماننے سے انکار کرتا ہوں میں دنیا کے ہر فرعون اور نمرود کی عظمت کو پائوں کی ٹھوکر پر اچھالتا ہوں ‘ میں ساری دنیا کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینکتا ہوں اور میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اللہ سب سے بڑا ہے وہ بادشاہوں کی عظمت سے بھی بڑا ہے اور مشیخیت اور تقدس کے دعوے داروں سے بھی بڑا ہے اس کائنات کے عناصرِ قدرت و فطرت اسی کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ ایک ایک مخلوق اسی کی تسبیح میں لگی ہوئی ہے جہاں کہیں بھی عظمت وقدرت کی نمود ہے وہ سب اس کی دین ہے یہیں سے آدمی کو وہ رفعت و منزلت ملتی ہے جس سے وہ تمام مخلوقات سے بلند ہو کر اللہ سے جڑ جاتا ہے اب کوئی دیوتا یا اوتار یا کوئی قبہ یا کوئی دستار اسے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کرسکتی ‘ کائنات کی منہ زور قوتیں اس کے ذوق تسخیر کو انگیخت تو کرسکتی ہیں ہراساں نہیں کرسکتیں۔ اسے ایک طرف اپنی ذات کی معرفت نصیب ہوتی ہے تو دوسری طرف اپنے خالق ومالک اور اپنے آقا کی پہچان ملتی ہے۔ انسان کی تمام سرفرازیوں اور اس کی تمام ذلتوں کا راز صرف اسی ایک بات میں مضمر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے آقا کو پہچانتا ہے کہ نہیں ‘ وہ اس دولت سے بہرہ ور ہوجائے تو دنیا کی سب سے بڑی قوت بن جاتا ہے بےبہرہ رہے تو اس کی حیثیت مشت خاک سے زیادہ نہیں ‘ جگر مرادآبادی نے ٹھیک کہا ؎ گھٹے اگر تو بس ایک مشت خاک ہے انساں بڑھے تو وسعت کونین میں سما نہ سکے اپنے آقا کی معرفت اور اپنی ذات کا شعور یہی انسان کا حقیقی سرمایہ ہے اور نماز انسان میں یہی روح پوری توانائیوں کے ساتھ پیدا کرنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ اکبر سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور پھر قدم قدم یہ شعور اور یہ معرفت آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اللہ کی کبریائی کے اعلان کے بعد ایک نمازی اس کی تسبیح وتحمید کرتا ہے ‘ اس کی صفات کی تنزیہ کرتا ہے ‘ اس کی برکتوں اور اس کی بزرگی کے تصور سے اپنے دل و دماغ کو روشن کرتا ہے اور ہاتھ باندھ کر پوری طرح اسی کی غلامی میں ڈوب جاتا ہے اور پھر جب اسے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی بندگی کرنا اس دنیا میں آسان نہیں تو پھر وہ فوراً اسی سے پناہ کا طلب گار ہوتا ہے اور شیطانی قوتوں سے برأ ت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ کی رحمت کے سائے میں دعا کے لیے زمزمہ سنج ہوجاتا ہے اس کی ربوبیت کے اعتراف ‘ اس کی بےپایاں رحمتوں کا شکر اور ساتھ ہی اس کی صفت عدالت کو یاد کرتے ہوئے پروردگار سے التجا کرتا ہے کہ الہٰی ! تیری صفت عدل یقینا میری زندگی کے اعمال کے مطابق میرے ساتھ معاملہ کرے گی تو نے اگرچہ مجھے حواس اور جوہرِ عقل کی دولت سے نوازا ہے لیکن انسانی معاملات ‘ طبعی خواہشات ‘ مفادات کا ہجوم ‘ گروہی مفادات کا دبائو ‘ جبلت کی پیچیدگیاں ‘ تعلقات کی ناہمواریاں ‘ نفع و ضرر کی نارسائیاں اور ذہن و خرد کی ناتمامیاں ایک ایسا گھنا اور خار دار جنگل ہے جس میں راستے کا تلاش کرنا اور کانٹوں سے بچ کر نکلنا تیری ہدایت کے بغیر ممکن نہیں میرے مالک تو مجھے اس ہدایت سے بہرہ ور فرما تاکہ میں زندگی کے راستے پر ان لوگوں کا طریقہ اختیار کروں جو تیرے انعامات کے مستحق ٹھہرے اور ان لوگوں کے طریقوں سے بچوں جو تیرے غضب کے مستحق ہوئے پروردگار اس کے جواب میں وہ کتاب ہدایت کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے جس کی موجودگی میں زندگی کا کوئی بھی زاویہ الجھا ہوا نہیں۔ اس نے انسانی زندگی کے راستے پر اس طرح نور پھیلا دیا ہے کہ سوائے دلوں کے اندھوں کے کسی کے لیے ٹھوکر کھانے کا خوف نہیں ہے۔ ایک بندہ جب اس عظیم دولت سے بہرہ ور ہوتا ہے اور پھر اسے بار بار پڑھتا بھی ہے تو اللہ کی اس نعمت سے گراں بار ہو کر فوراً وہ اپنے مالک کے سامنے جھک جاتا ہے اور اس کی تسبیح وتحمید کے زمزمے اس کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں پھر وہ اس کیفیت میں ایسا سرشار ہوتا ہے کہ حالت قیام میں اس کی زبان پر حمد وثناء کے ساتھ ساتھ اللہ کی جانب سے قبولیت کا بھی اعلان ہونے لگتا ہے زبان پر اس جملے کے آتے ہی طبیعت ایسی بےقابو ہوتی ہے کہ وہ سر تاپا بندگی بن کر اپنے آقا کے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے ‘ دیر تک اس کی حمد وثناء میں ڈوبا رہتا ہے طبیعت کو کچھ اطمینان ملتا ہے تو قعدہ میں اطمینان سے بیٹھ کر اپنی بندگی کا سارا اثاثہ ‘ اپنی توانائیوں کا سارا خزانہ ‘ اپنی قوت گویائی کی ساری جولانیاں اور اپنے کسب و اکتساب کا سارا سرمایہ اللہ کے حضور نذر کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ مرے دیدہ تر کی بےخوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بےتابیاں مرے نالہ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز امنگیں مری آرزوئیں مری امیدیں مری جستجوئیں مری یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر ایسے ہی احساسات میں ڈوبتا ابھرتا بندگی کی معراج کو چھوتا ہوا ایک بندہ نماز کو پورا کرتا ہے اور اسی سے اس کو وہ دولت نصیب ہوتی ہے جو تمسک باالکتاب کی حقیقی منزل ہے اور پھر یہ کوئی ایک دفعہ کا معاملہ نہیں بلکہ دن میں پانچ مرتبہ یہ مشق کروائی جاتی ہے۔ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے ان تأثرات کو دل و دماغ میں ابھارا جاتا ہے، بندے اور اس کے رب کے رشتے کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے ایک بندے کو اس کی اصل حیثیت کا احساس دلایا جاتا ہے تاکہ جب وہ دن کے وقت فرائضِ زندگی اور کاروبارِ معیشت کا آغاز کرے تو یہ احساسات اور تأثرات ہمہ وقت اس کے ہمرکاب اور ہم نشین رہیں اور جب وہ اپنے معمولات میں حدود سے تجاوز کرنے لگے ‘ مسرت و شادمانی کے لمحات میں بہکنے لگے ‘ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے امانتوں میں خیانت کرنے لگے ‘ اقتدار و حکومت کے نشے میں ظلم وتعدی پر آمادہ ہو ‘ یا محکومیت و مظلومیت میں اپنے تئیں بےسہارا پا کر ڈولنے لگے تو اللہ کی کبریائی اور عظمت اور اپنی بندگی و اطاعت کا گہرا شعور ہر قدم پر اس کی دستگیری کرے۔ ہمارے پروردگار سے بڑھ کر ہماری کمزوریوں کو اور کون جانتا ہے اسے خوب علم ہے کہ نسیان و زھول اور خواہشات و جذبات سے مغلوبیت ہمارا وطیرہ ہے۔ اس لیے نماز جیسی یاد دہانی اور ذکر کو صرف صبح تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر بدلتی ہوئی حالت کا لحاظ فرماتے ہوئے بار بار اس کا حکم دیا۔ ہمارا سب سے زیادہ مصروفیت کا وقت سہ پہر اور شام کا وقت ہے جب کاروبارِ معیشت زوروں پر ہوتا ہے اور اندیشہ ہوتا ہے کہ حبِّ دنیا ‘ ہوسِ زر اور دیگر عوامل کہیں اساسی مقاصد پر غالب نہ آجائیں تو ظہر ‘ عصر اور مغرب کی نمازیں فرض فرما کر اصل حیثیت اور حقیقی مقاصد کی یاد دہانی فرمائی اور انسانیت کو پستی میں ڈوب جانے اور غفلت میں بہک جانے سے بچایا اور پھر سونے سے پہلے عشاء کی نماز فرض فرما کر اور نسبتاً لمبی نماز پڑھا کر دن بھر کی کوتاہیوں پر استغفار اطاعت و خدمت پر استقامت کی صورت میں شکر کے اظہار اور آنے والے کل کے لیے دعا و مناجات کا موقع عطا فرمایا۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ اللہ سے بندگی و عبودیت کا عہد لیا گیا اور اسلامی سیرت و کردار کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔ جب تک اس عہد و پیمان میں شعور و آگہی کی کارفرمائی باقی رہے گی اسلامی سیرت و کردار میں ضعف پیدا ہوجانے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے جس کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ بھی محسوس ہوتا ہے وہ یہ کہ تمسک باالکتاب اور اقامتِ صلوٰۃ سے جس سیرت و کردار کی تعمیر ہوگی اس کی روشنی صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ ایک ایسا نور ہوگا جس سے قریب و بعید کا ماحول بھی روشن ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا نماز سے پیدا ہونے والے سیرت و کردار کے نتیجے میں ایک ایسا شعور جنم لے گا جس سے اصلاح کا عمل قوت پکڑے گا اور یہ لوگ اپنے ماحول کے مصلح بن کر رفتہ رفتہ اپنی قوم کو راہ راست دکھائیں گے لیکن یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وہ اللہ کی کتاب کی راہنمائی کو قبول کریں اور اپنی زندگیوں کو نماز کے نور سے روشن کریں کیونکہ یہی وہ حقیقی بنیاد ہے جو کسی بھی فرد اور قوم کی زندگی کی تعمیر کی بنیاد بن سکتی ہے اس لیے اگلی آیت کریمہ میں اسی بات کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ قومی زندگی میں کتاب خداوندی کی راہنمائی کی حیثیت ‘ اس کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ جب ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور انھوں نے بنی اسرائیل کے سامنے اسے پیش کیا تو انھوں نے اس کے احکام کو دیکھتے ہوئے اسے قبول کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا تو پروردگار نے ان کی اس کوتاہی کو نظر انداز کرنے کے بجائے کوہ طور کو ان کے سروں پر معلق کردیا اور یہ تصور دیا کہ اگر تم نے پورے اخلاص کے ساتھ اس کتاب کی دی ہوئی راہنمائی اور اس کی پیش کردہ شریعت کے مطابق زندگی کا چلن نہ بنایا تو تمہیں اس کوہ طور کے نیچے مسل دیا جائے گا۔ کیونکہ جو زندگی اللہ کے اقرار اور اس پر ایمان کے باوجود کتاب اللہ کے راہنمائی سے عاری ہو اور کتاب کی پیش کردہ شریعت پر عمل کرنے کے لیے تیار نہ ہو محض اقرار و ایمان نہ اس کی دنیا بنا سکتے ہیں اور نہ اس کے آخرت میں کام آسکتے ہیں بندگی کا بنیادی تقاضا ہی یہ ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے اور ہر شعبے میں اللہ کی حاکمیت قائم کی جائے اس کے نازل کردہ احکام نافذ ہوں اور اس کی کتاب انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک مکمل طور پر حاوی ہو یہ ضرورت اور یہ تقاضا ظاہر ہے صرف ایمان لانے سے پورا نہیں ہوتا اس کے لیے تو اللہ کے دین کا نافذ ہونا ضروری ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تو دین میں جبر نہیں رکھا اسے یہ پسند نہیں کہ کسی کو زبردستی مومن بنایا جائے لیکن یہاں تو بنی اسرائیل پر جبر کیا جا رہا ہے کہ اگر تم نے تورات کو قبول نہ کیا تو تم پر پہاڑ گرا کر تمہیں تباہ کردیا جائے گا حقیقت یہ ہے کہ بنی اسرائیل صحرائے سیناء میں آنے اور نزول کتاب سے پہلے ایمان لا چکے تھے اب سوال ان کے ایمان کا نہیں تھا بلکہ سوال یہ تھا کہ جس پروردگار اور جس رسول پر وہ ایمان لائے ہیں اس کے پیش کردہ صحیفہ ہدایت کو قبول کرنے سے کیسے انکار کرسکتے ہیں لیکن اگر وہ انکار کریں تو ان کا یہ انکار بغاوت کے مترادف ہوگا اور بغاوت کی اجازت تو دنیا کا کوئی مہذب آدمی نہیں دیتا۔ کوئی بھی مہذب قوم کسی شخص کو اپنے ملک کا شہری بننے پر مجبور نہیں کرتی لیکن جب کوئی شخص اپنی آزادانہ رائے سے کسی ملک کی شہریت کو قبول کرلیتا ہے تو پھر اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ تمہیں اس ملک کے قوانین کی پابندی بھی کرنا ہوگی اب اگر وہ شہری تو رہنا چاہتا ہے لیکن وہ ملک کے آئین اور قانون کا احترام اور اطاعت کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ اسے ماننے سے ہی انکار کردیتا ہے تو اب اس پر ضرور جبر کیا جائے گا یہی صورتحال یہاں بھی ہے کہ یہ لوگ آزادانہ مرضی سے ایمان لانے کے بعد اطاعت اور عمل میں کوتاہی کا ارتکاب کرنا چاہتے تھے جس پر انھیں تنبیہ کی گئی کہ تمہارا معاملہ ایک ایسے خداوندِ ذوالجلال سے ہے جو تمہیں سزا دینے پر بھی قادر ہے اور اس کی قوت کا معمولی سا اظہار یہ ہے کہ اس نے میلوں تک پھیلے ہوئے کوہ طور کو تمہارے سروں پر معلق کردیا ہے تو تم اگر اس کے جلال اور اس کے غضب سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی نازل کردہ کتاب کے مطابق زندگی گزارو اس کے بغیر تم ایک کامیاب زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
Top