Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ : اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں اُمَمًا : گروہ در گروہ مِنْهُمُ : ان سے الصّٰلِحُوْنَ : نیکو کار وَمِنْهُمْ : اور ان سے دُوْنَ : سوا ذٰلِكَ : اس وَبَلَوْنٰهُمْ : اور آزمایا ہم نے انہیں بِالْحَسَنٰتِ : اچھائیوں میں وَالسَّيِّاٰتِ : اور برائیوں میں لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْجِعُوْنَ : رجوع کریں
اور ہم نے ان کو منتشر کردیا زمین میں گروہ گروہ کر کے۔ ان میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف بھی ہیں اور ہم نے ان کی آزمائش کی خوشحالیوں اور بدحالیوں سے تاکہ وہ رجوع کریں۔
ارشاد فرمایا وَقَطَّعْنٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًاج مِنْھُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِکَز وَبَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ (الاعراف : 168) ” اور ہم نے ان کو منتشر کردیا زمین میں گروہ گروہ کر کے۔ ان میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف بھی ہیں اور ہم نے ان کی آزمائش کی خوشحالیوں اور بدحالیوں سے تاکہ وہ رجوع کریں “۔ بنی اسرائیل کا قومی انتشار گزشتہ آیت کریمہ میں پروردگار نے انبیاء کرام کی معرفت بنی اسرائیل کو اس بات کو نوٹس جاری کیا تھا کہ اگر تم نے اپنی حالت نہ بدلی اور تم بداعمالیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ تم پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کرے گا وہ خود تمہارے اندر سے ہوں یا باہر سے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ بعض ظالم حکمران جو قوم کے اندر سے ہوں وہ اپنی قوم کو اپنی خواہشات کو پوری کرنے کے لیے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جب قوم اپنی حدود سے بالکل نکل جاتی ہے اور ہر طرح اجتماعی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتی ہے اور ان کا آپس کا ربط و ضبط انتشار و افتراق میں بدل جاتا ہے تو پھر باہر سے ظالم لوگوں کو حملہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بالعموم ایسی قوموں کی اجتماعی قوت کو توڑنے کے لیے انھیں منتشر کردیا کرتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کے باعث ایسے ہی حوادث پیش آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصریوں کی غلامی سے نجات دلا کر صحرائے سیناء میں انھیں ایک قوم بنانے اور اس میں تنظیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آپ مسلسل اس کے لیے محنت فرماتے رہے لیکن یہ غلامی کی ماری ہوئی قوم آزاد قوم کی سی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جب بھی انھیں قومی توانائی کا ثبوت دینے کے لیے کسی بھی امتحان میں ڈالا گیا تو یہ بری طرح ناکام ہوئے یہ چونکہ چار سو سال تک انسانوں کی چاکری کر کے روٹی کھانے کے ہنر کے سوا اور ہر قومی خصوصیت سے محروم ہوچکے تھے اس لیے اپنے اندر عزت اور وقار کی زندگی کا شعور پیدا کرنا اور قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ان کے لیے آسان نہ تھا وہ روٹی حاصل کرنے کے لیے مزدوری تو کرسکتے تھے اور اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے ذلت آمیز بیگار سے بھی انھیں انکار نہ تھا لیکن قوموں کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے ایثار و قربانی کی جن کٹھن وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے جواں ہمتی اور اولوالعزمی کی جو تاریخ رقم کرنا پڑتی ہے وہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) مسلسل محنت کے باوجود غلامی کی پروردہ نسل کو تو کسی تبدیلی سے آشنا کرنے سے معذور رہے البتہ جو نسل صحرا میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ان سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں وہ لوگ جب اپنی ذ مہ داریوں کی عمر کو پہنچے تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) تو اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن ان کے جانشینوں نے اس تنظیمی عمل کو آگے بڑھایا اور ان میں قومی شعور توانا کر کے ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تاریخ کا یہ سفر آگے بڑھتا رہا حتی کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل اپنی تنظیم اور قومی خصوصیات میں اپنی معراج کو پہنچے لیکن جیسے ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کو پیارے ہوئے تو بنی اسرائیل کے زوال کا سفر شروع ہوگیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر قوم جب اپنی ترقی کے معراج پر پہنچتی ہے تو بالعموم وہیں سے اس کے زوال کا سفر شروع ہوتا ہے کیونکہ جب کسی چیز کو حاصل کرنا پیش نظر ہوتا ہے تو محنت اور کوشش کی لگن رواں دواں رہتی ہے اس سفر کے ہر شریک کار کو مسلسل یہ خیال رہتا ہے کہ ہم لوگ ایک منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں اگر ہم نے ذرا بھی محنت سے جی چرایا تو وہ منزل کبھی بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی لیکن جب وہ منزل کے قریب پہنچتے ہیں یا جب منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر عموماً لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ محنت و کاوش ‘ علم و دانش ‘ ربط و تنظیم اور ایثار و قربانی ہر چیز اپنی صف لپیٹ دیتی ہے اب ان کے پیش نظر محنت نہیں بلکہ محنت کا پھل ہوتا ہے ہر ایک کوشش کرتا ہے کہ میں اس پھل سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرسکوں۔ پہلے ان کا سرمایہ سفر ارادے کی قوت ‘ عمل ِ پیہم ‘ باہمی ارتباط اور دوسروں کے لیے ایثار ہوتا ہے لیکن منزل پر پہنچنے کے بعد ان کی منزل ان کے لیے خوان یغما بن جاتی ہے۔ ہر شخص اپنی ہمت سے بڑھ کر ہاتھ مارنے اور سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے ایسی صورت میں خود غرضی ‘ نفسانیت ‘ مفاد پرستی اور ہوس زر کا دور دورہ ہوجاتا ہے ایسی صورت میں زوال اور انحطاط کے سوا کسی اور چیز کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے عروج کا دور اور نگزیب عالمگیر کا زمانہ ہے۔ جیسے ہی عالمگیر کی آنکھیں بند ہوئیں تو اس کے جانشینوں اور صوبوں کے امراء نے وہ لوٹ کھسوٹ مچائی کہ پورا ملک زوال کی گرفت میں آگیا۔ خلافتِ راشدہ کے بعد بنی امیہ کی تاریخ ‘ بنی امیہ کے بعد بنی عباس کی تاریخ اور پھر مختلف خاندانوں کی حکومتوں کی تاریخ ایک سے ایک بڑھ کر اس تاریخی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بھی یہی حادثہ پیش آیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دنیا سے جاتے ہی ان کا بیٹا ان کا جانشین ہوا اور اس نے اس زمانے کی سب سے اس بڑی حکومت کو اپنی میراث سمجھ کر اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانا شروع کردیا۔ پورے ملک میں فسق و فجور کو پھیلنے کا موقع مل گیا۔ امراء میں رقابت شروع ہوگئی ہر کوئی حکومت کا خواب دیکھنے لگا اس انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک غلام نے الگ حکومت بنا لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت جس کی قوت و شوکت کے سامنے کبھی کسی دوسری ریاست کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی خلفشار کا شکار ہوگئی۔ ایک متحدہ سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی ایک کا نام اسرائیل ٹھہرا اور دوسری کا یہودیہ۔ ایک کا دارالحکومت سامرہ تھا اور دوسری کا یروشلم۔ اب ان دونوں حکومتوں میں تصادم شروع ہوا چناچہ 937 ق م سے لے کر 586 ق م تک بنی اسرائیل کی تاریخ خانہ جنگی کی تاریخ ہے دونوں ریاستیں آپس میں ٹکراتی رہیں اور ان کے باہمی جنگ و جدل کے باعث قریبی ریاستوں کو یہ جرات ہوئی اور انھوں نے بار بار ان پر حملے کرنے شروع کیے کبھی مصر کا حکمران چڑھ دوڑتا اور کبھی صورو صیدا میں سے کوئی حکمران حملہ آور ہوتا لیکن بنی اسرائیل نے اس سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا حتی کہ ان کا یہ اختلاف و انتشار اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گیا جب بخت نصر نے ان پر حملہ کر کے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ان کے ہزاروں لوگ قتل ہوگئے۔ ہزاروں لوگوں کو اپنی ریاست کے مختلف شہروں میں تتر بتر کردیا اور ہزاروں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا اور پھر ان کا یہ انتشار و افتراق اور مختلف ملکوں میں ان کا بکھیرا جانا ایک ایسی حقیقت ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت سے پہلے جسے اپنی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا تھا اور اب بھی یہ بڑی طاقتوں کے سائے میں پلنے والا ناسور کسی لمبی عمر کی خبر نہیں دے رہا بلکہ اس کے طور اطوار یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ قدرت کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ دوبارہ انھیں ان کے انجام سے دوچار کر دے گا۔ چناچہ اس پوری صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو زمین میں گروہ گروہ کر کے منتشر کردیا۔ اجتماعی اصلاح کے لیے اہل خیر کا مضبوط ہونا ضروری ہے قطعناتقطیع سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ‘ منتشر کردینا۔ اور امم امت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایک جماعت یا ایک فرقہ یا گروہ۔ ان الفاظ میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اس کے بعد دوسرا جملہ ہے : ( مِنْھُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِک ان میں سے کچھ نیک لوگ تھے اور کچھ ان سے مختلف تھے۔ ) اس جملہ میں بھی ایک بہت بڑی حقیقت منکشف کی گئی ہے وہ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کا زوال جب آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے اور ان کی قومی زندگی کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور ان میں ایک ایک کر کے قومی خصوصیات ختم ہوتی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس قوم میں تمام لوگ بگڑ چکے ہیں اور سرے سے ان میں کوئی صالح طبقہ موجود نہیں ہے بلکہ زوال پذیر اور بگڑی ہوئی قوموں میں بھی نیک لوگ بھی موجود ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا زوال بڑھتا چلا جاتا ہے اس کی وجہ کیا ہوتی ہے ؟ اس وجہ کو بیان کرنے سے پہلے ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم کے اندر صالح لوگوں کے ہونے سے ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب جس سے قوموں کی جڑ کٹ جاتی ہے اور خیر کے تمام سوتے خشک ہوجاتے ہیں اور قدرت ایسی قوم کو دھرتی کا بوجھ سمجھ کر مٹادیتی ہے ایسی قوم پر نہیں آتا جس میں کچھ نہ کچھ نیک لوگ موجود ہوں یعنی ان میں نیکی اور خیر کی دعوت دینے والے اور اپنی ہمت اور وسائل کے مطابق دین کی خدمات انجام دینے والے اور قوم کے انکار اور استہزاء کے باوجود انھیں آخرت یاد دلانے والے موجود ہوں ان کی وجہ سے قوم کا بڑا حصہ جو برائیوں میں مبتلا ہوچکا ہوتا ہے وہ فیصلہ کن عذاب سے بچا رہتا ہے اور قدرت ان کو ڈھیل دیتی رہتی ہے کہ تمہارے اندر خیر کی دعوت دینے والے ابھی تک موجود ہیں تمہارے لیے ابھی موقع ہے کہ ان کی دعوت قبول کر کے اپنے برئے انجام سے بچ جاؤ۔ لیکن جہاں تک تباہی کی طرف بڑھنے کا سوال ہے یہ نیک لوگ اس سے انھیں نہیں روک سکتے وہ اپنی ساری کوششوں کے باوجود تباہی کی طرف جانے کے نتائج سے انھیں آگاہ تو کرسکتے ہیں لیکن ان کا رخ پھیرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وجہ اس کی یہ ہے کہ قوموں کو لیڈ اور فیڈ کرنے والے پالیسیاں بنانے والے پالیسیوں پر عمل کرنے والے قوم اور ملک کو جہتِ سفر دینے والے اور ان کے اعصاب اور ان کے مرکز اعصاب کو کنڑول کرنے والے صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبقہ خواص سے تعلق رکھتے ہیں ‘ جو عدالتوں میں ججز کی کرسی پر بیٹھتے۔ ایوانِ حکومت میں حکمرانی کرتے ‘ پارلیمینٹ میں قانون سازی کرتے ‘ تعلیمی اداروں کو نصاب تعلیم دیتے ‘ ابلاغ کو ابلاغ کی جہت دیتے، تربیتی اداروں میں مختلف شکلوں میں تربیت کا سامان کرتے اور انتظامی اداروں میں اختیارات پر قابض ہوتے اور انھیں استعمال کرتے ہیں۔ جب یہ طبقات بگڑ جاتے ہیں تو پھر عام لوگ آہستہ آہستہ ان کے رنگ میں رنگنا شروع ہوجاتے ہیں اور بےبسی کا شکار ہو کر ان کے اشاروں پر چلنے لگتے ہیں۔ زندگی کے مقاصد دم توڑ جاتے اور ضروریاتِ زندگی مقاصدِ زندگی بن کر عام آدمی کی زندگی میں حکمرانی کرنے لگتے ہیں اس صورت حال میں اگر ان میں کچھ نیک لوگ موجود بھی ہوں تو ان کی نیکی عبادت گاہوں یا چند دینی اداروں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ بنی اسرائیل اسی صورتحال سے دوچار تھے وہ مکمل طور پر برائی کی گرفت میں کبھی نہیں آئے ان میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی طبقہ نیکی اور خیر کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ اجتماعی عذاب سے بچے رہے۔ لیکن یہ انفرادی نیکی اجتماعی تباہی کا راستہ نہ روک سکی جس کے نتیجے میں نہ ان کا کوئی ملک محفوظ رہا نہ قومی زندگی محفوظ رہی۔ وہ انفرادی یا جماعتی طور پر دولت کمانے یا دوسروں کے خلاف سازشیں کرنے میں تو ضرور کامیاب رہے لیکن اپنی اجتماعی زندگی کو بروئے کار لانے اور اپنے فیصلے آپ کرنے سے محروم ہوگئے۔ بنی اسرائیل کی زندگی کا یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی قومی زندگی کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے یہ مملکتِ خداداد اسلامی زندگی گزارنے اور اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے اللہ سے مانگ کرلی تھی اور اس کے لیے ہم نے اتنی بڑی قربانی دی کہ معلوم تاریخ میں اس کی مثالیں کم کم ملیں گیں۔ لیکن جب ہم نے اللہ سے کیے ہوئے اس وعدے سے انحراف کیا بلکہ رفتہ رفتہ اس وعدے کے خلاف بغاوت کردی اس کا سب سے پہلا نتیجہ وہی نکلا جو بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا کہ ہماری اجتماعی زندگی میں دراڑیں پڑیں حتی کہ عالم اسلام کی یہ سب سے بڑی مملکت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں گروہوں میں منتشر کر کے رکھ دیا۔ آج آدھا پاکستان ہمارے پاس ہے لیکن اس میں بھی ہمارے صوبائی تعصبات ‘ لسانی عصبیتں ‘ گروہی مفادات پوری طرح اپنا رنگ دکھا رہے ہیں قوم میں نیک لوگوں کی کمی نہیں لیکن آہستہ آہستہ ہمارے اجتماعی فیصلہ کرنے کے سر چشمے لا دینیت کے قبضے میں جا رہے ہیں۔ ہماری پارلیمینٹ اولاً تو خیر کی نمائندہ نہیں رہی اور اگر اس کی کچھ امید بھی کی جاسکتی ہو تو ایک پیر تسمہ پا ہے جو ان کے سروں پر بیٹھا ان کو کچھ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہمارے تعلیمی ادارے نہ صرف لادینیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں بلکہ جہاں کہیں دین کی کوئی تھوڑی بہت خدمت ہو رہی ہے اس کا برداشت کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ تو پوری طرح شیطانی قوتوں کے نرغے میں ہیں اور یہ شیطانی قوتیں شب و روز کروڑوں لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کا فرض انجام دے رہی ہیں۔ ہمارے اخبارات چند ایک کو چھوڑ کر نہ جانے کس کی خدمت بجا لا رہے ہیں اس طرح سے ہماری اجتماعی زندگی اس ملک کے مقصد وجود سے رفتہ رفتہ منحرف ہوتی جا رہی ہے ایسی صورتحال میں خدشات بڑھتے جا رہے ہیں اور بنی اسرائیل کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اس آخری امت کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ہمیں بار بار بنی اسرائیل کی تاریخ سے سبق سیکھنے کا حکم دیا ہے اور قرآن کریم اسی لیے پلٹ پلٹ کر ان کی تاریخ ہمارے سامنے لا رہا ہے تاکہ یہ حامل دعوت امت سابقہ حامل دعوت امت کے زوال کے اسباب سے آگاہ ہو کر اپنے بچائو کی کوشش کرسکے۔ آزمائش کے دو طریقے اس آیت کریمہ میں تیسرا جملہ : { وَبَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ } ہے۔ ” اور ہم نے ان کو خوشحالیوں اور بد حالیوں سے آزمایا شائد وہ رجوع کریں “۔ بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لیے پروردگار نے دو طریقے اختیار فرمائے اور یہ بنی اسرائیل کی خصوصیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کو سمجھانے اور راہ راست پر لانے کے لیے یہی دونوں طریقے اختیار فرماتے رہے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ کوئی قوم اللہ کے راستے سے انحراف اختیار کرتی ہے تو پروردگار اسے مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کر کے غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور انھیں یہ بات باور کروائی جاتی ہے کہ تم اس زمین پر اس طرح زندگی گزار رہے ہو جس طرح ایک ایسی قوم زندگی گزارتی ہے جس کا کوئی خدا نہ ہو اور اسے یہ یقین ہو کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اسے کبھی کسی کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی وہ زمین ہی کو اپنا اول و آخر مسکن سمجھتی ہے اور اسی میں مر مٹنا اس کی زندگی کی انتہاء ہے جو اس کے جی میں آتا ہے وہ فیصلے کرتی ہے اور جو چاہتی ہے وہ اپنی منزل متعین کرلیتی ہے اس کی کامیابی اور ناکامی کے اپنے پیمانے ہیں کیونکہ اس کی زندگی اس کے اپنے گرد گھومتی ہے ان کو یہ بتلانے کے لیے کہ تمہیں یہ غلط فہمی ہے کہ تم یہاں ہر فیصلہ کرنے کے مجاز ہو تمہارے اوپر کوئی اور بڑی ذات بھی ہے جس نے تمہیں بےمقصد پیدا نہیں کیا اور پھر تمہیں اندھیرے میں بھی نہیں رکھا بلکہ اس مقصد سے آگاہی دینے کے لیے وہ بار بار پیغمبر بھیجتا رہا ہے اب یہ مصیبتیں ‘ تکلیفیں ‘ وبائیں ‘ زلزلے اور بیماریاں بھیج کر وہ تمہیں توجہ دلانا چاہتا ہے کہ دیکھو ! اگر تم اپنی زندگی اور اپنی قسمتوں کے خود مالک ہوتے تو تمہیں یہ حوادث پیش نہ آتے تم جب چاہتے ان حوادث کا راستہ روک لیتے یا انھیں اپنے سے دور کردیتے لیکن تم اس پر قادر نہیں ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اوپر ایک اور ذات ہے جس نے تمہیں زندگی گزارنے اور زمین پر رہنے کی آزادی بخشی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تم اس سے آزاد ہو کر زندگی گزار سکتے ہو اس کے احکام کو سمجھو ‘ قبول کرو اور اس کے مطابق زندگی گزارو۔ لیکن جب وہ قوم ان مصیبتوں کے باجود بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتی اور وہ اس کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اسے زمانے کے پھیر کا نتیجہ سمجھتی ہے تو پھر پروردگار اس سے سخت تر آزمائش میں انھیں مبتلا کردیتا ہے یہ سخت تر آزمائش بظاہر نرم دکھائی دیتی ہے لیکن اس آزمائش پر پورا اترنا چونکہ زیادہ مشکل ہے اس لیے میں اس کو سخت تر کہہ رہا ہوں وہ آزمائش یہ ہے کہ اب پروردگار بجائے مصیبتوں کے انھیں راحتوں ‘ آسانیوں ‘ نعمتوں ‘ آسائشوں ‘ عشرتوں اور مسرتوں سے گراں بار کردیتا ہے۔ ان کے کاروبار سنبھل جاتے ہیں۔ کھیتیاں سونا اگلنے لگتی ہیں بارشیں وقت پر ہونے لگتی ہیں ‘ بین الاقوامی دنیا میں ساکھ بڑھنے لگتی ہے ‘ مالی پریشانیاں کم ہونے لگتی ہیں اس تبدیلی کو دیکھ کر قوم یہ سمجھتی ہے کہ پہلے اگر پروردگار ہم سے ناراض تھا تو اب وہ راضی ہوگیا ہے یا پہلے زمانہ ہم سے بگڑا ہوا تھا تو وہ اب ہمارے موافق ہوگیا ہے اس لیے جیسے جیسے ان کی دولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کے عشرت کدے آباد ہونے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کا کاروبار سنبھلتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ کی نافرمانی کے مراکز پھلنے پھولنے لگتے ہیں انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ دکھوں میں مبتلا ہو کر تو بعض دفعہ سوچنے لگتی ہے لیکن عیش و عشرت کی زندگی تو عموماً بگاڑ کا ذریعہ بنتی ہے۔ چناچہ قدرت جس قوم کو اس آزمائش میں مبتلا کرتی ہے انھیں ایک طوفان سے وابستہ کردیتی ہے۔ طوفان ان کے سر پر تلا کھڑا ہوتا ہے لیکن ان کی مستیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بنی اسرائیل بھی انھیں دونوں آزمائشوں سے بار بار گزرتے رہے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنی زندگی کو بدل سکیں۔ لیکن بنی اسرائیل کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان آزمائشوں سے سبق سیکھنے کی بجائے وہ ہمیشہ اور بگڑتے چلے گئے اگر پروردگار نے انھیں بد حالیوں میں مبتلا کیا تو انھوں نے اللہ پر اعتراض کرنے شروع کر دئیے معلوم ہوتا ہے آج کل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں (یداللہ مغلولۃ) اور اگر انھیں خوشحالیوں سے نوازا گیا اور اس کے بدلے میں انھیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی تو پکار اٹھے : ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء (بےشک اللہ تعالیٰ فقیر ہیں اور ہم غنی اور مال دار ہیں) یعنی نعمتیں ملیں تو انھوں نے شکر نہیں کیا اور مصیبت میں مبتلا ہوئے تو صبر نہ دکھایا حالانکہ شکر اور صبر ہی تو اسلامی زندگی ہے جسے انھوں نے اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اجتماعی زندگی اللہ کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کی آئینہ دار بن گئی۔ بنی اسرائیل کے زوال کا یہ سفر ایک طویل داستان ہے جس میں ہم مختلف نشیب و فراز دیکھتے ہیں اسی کا ایک پہلو جو کئی پہلوئوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے اگلی آیت کریمہ میں بیان کیا جا رہا ہے۔
Top