Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 168
وَ قَطَّعْنٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا١ۚ مِنْهُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْهُمْ دُوْنَ ذٰلِكَ١٘ وَ بَلَوْنٰهُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَقَطَّعْنٰهُمْ
: اور پراگندہ کردیا ہم نے انہیں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
اُمَمًا
: گروہ در گروہ
مِنْهُمُ
: ان سے
الصّٰلِحُوْنَ
: نیکو کار
وَمِنْهُمْ
: اور ان سے
دُوْنَ
: سوا
ذٰلِكَ
: اس
وَبَلَوْنٰهُمْ
: اور آزمایا ہم نے انہیں
بِالْحَسَنٰتِ
: اچھائیوں میں
وَالسَّيِّاٰتِ
: اور برائیوں میں
لَعَلَّهُمْ
: تاکہ وہ
يَرْجِعُوْنَ
: رجوع کریں
اور ہم نے ان کو منتشر کردیا زمین میں گروہ گروہ کر کے۔ ان میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف بھی ہیں اور ہم نے ان کی آزمائش کی خوشحالیوں اور بدحالیوں سے تاکہ وہ رجوع کریں۔
ارشاد فرمایا وَقَطَّعْنٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًاج مِنْھُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِکَز وَبَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ (الاعراف : 168) ” اور ہم نے ان کو منتشر کردیا زمین میں گروہ گروہ کر کے۔ ان میں کچھ نیک بھی ہیں اور کچھ اس سے مختلف بھی ہیں اور ہم نے ان کی آزمائش کی خوشحالیوں اور بدحالیوں سے تاکہ وہ رجوع کریں “۔ بنی اسرائیل کا قومی انتشار گزشتہ آیت کریمہ میں پروردگار نے انبیاء کرام کی معرفت بنی اسرائیل کو اس بات کو نوٹس جاری کیا تھا کہ اگر تم نے اپنی حالت نہ بدلی اور تم بداعمالیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ تم پر ظالم حکمرانوں کو مسلط کرے گا وہ خود تمہارے اندر سے ہوں یا باہر سے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ بعض ظالم حکمران جو قوم کے اندر سے ہوں وہ اپنی قوم کو اپنی خواہشات کو پوری کرنے کے لیے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں لیکن جب قوم اپنی حدود سے بالکل نکل جاتی ہے اور ہر طرح اجتماعی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتی ہے اور ان کا آپس کا ربط و ضبط انتشار و افتراق میں بدل جاتا ہے تو پھر باہر سے ظالم لوگوں کو حملہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بالعموم ایسی قوموں کی اجتماعی قوت کو توڑنے کے لیے انھیں منتشر کردیا کرتے ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کے ساتھ اللہ کی نافرمانی کے باعث ایسے ہی حوادث پیش آئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصریوں کی غلامی سے نجات دلا کر صحرائے سیناء میں انھیں ایک قوم بنانے اور اس میں تنظیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آپ مسلسل اس کے لیے محنت فرماتے رہے لیکن یہ غلامی کی ماری ہوئی قوم آزاد قوم کی سی صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ جب بھی انھیں قومی توانائی کا ثبوت دینے کے لیے کسی بھی امتحان میں ڈالا گیا تو یہ بری طرح ناکام ہوئے یہ چونکہ چار سو سال تک انسانوں کی چاکری کر کے روٹی کھانے کے ہنر کے سوا اور ہر قومی خصوصیت سے محروم ہوچکے تھے اس لیے اپنے اندر عزت اور وقار کی زندگی کا شعور پیدا کرنا اور قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ان کے لیے آسان نہ تھا وہ روٹی حاصل کرنے کے لیے مزدوری تو کرسکتے تھے اور اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے ذلت آمیز بیگار سے بھی انھیں انکار نہ تھا لیکن قوموں کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے ایثار و قربانی کی جن کٹھن وادیوں سے گزرنا پڑتا ہے جواں ہمتی اور اولوالعزمی کی جو تاریخ رقم کرنا پڑتی ہے وہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) مسلسل محنت کے باوجود غلامی کی پروردہ نسل کو تو کسی تبدیلی سے آشنا کرنے سے معذور رہے البتہ جو نسل صحرا میں پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ان سے امیدیں وابستہ کی جاسکتی تھیں وہ لوگ جب اپنی ذ مہ داریوں کی عمر کو پہنچے تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) تو اللہ کو پیارے ہوگئے لیکن ان کے جانشینوں نے اس تنظیمی عمل کو آگے بڑھایا اور ان میں قومی شعور توانا کر کے ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تاریخ کا یہ سفر آگے بڑھتا رہا حتی کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل اپنی تنظیم اور قومی خصوصیات میں اپنی معراج کو پہنچے لیکن جیسے ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) اللہ کو پیارے ہوئے تو بنی اسرائیل کے زوال کا سفر شروع ہوگیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر قوم جب اپنی ترقی کے معراج پر پہنچتی ہے تو بالعموم وہیں سے اس کے زوال کا سفر شروع ہوتا ہے کیونکہ جب کسی چیز کو حاصل کرنا پیش نظر ہوتا ہے تو محنت اور کوشش کی لگن رواں دواں رہتی ہے اس سفر کے ہر شریک کار کو مسلسل یہ خیال رہتا ہے کہ ہم لوگ ایک منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں اگر ہم نے ذرا بھی محنت سے جی چرایا تو وہ منزل کبھی بھی ہمارے ہاتھ نہیں آئے گی لیکن جب وہ منزل کے قریب پہنچتے ہیں یا جب منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر عموماً لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ محنت و کاوش ‘ علم و دانش ‘ ربط و تنظیم اور ایثار و قربانی ہر چیز اپنی صف لپیٹ دیتی ہے اب ان کے پیش نظر محنت نہیں بلکہ محنت کا پھل ہوتا ہے ہر ایک کوشش کرتا ہے کہ میں اس پھل سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرسکوں۔ پہلے ان کا سرمایہ سفر ارادے کی قوت ‘ عمل ِ پیہم ‘ باہمی ارتباط اور دوسروں کے لیے ایثار ہوتا ہے لیکن منزل پر پہنچنے کے بعد ان کی منزل ان کے لیے خوان یغما بن جاتی ہے۔ ہر شخص اپنی ہمت سے بڑھ کر ہاتھ مارنے اور سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے ایسی صورت میں خود غرضی ‘ نفسانیت ‘ مفاد پرستی اور ہوس زر کا دور دورہ ہوجاتا ہے ایسی صورت میں زوال اور انحطاط کے سوا کسی اور چیز کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے عروج کا دور اور نگزیب عالمگیر کا زمانہ ہے۔ جیسے ہی عالمگیر کی آنکھیں بند ہوئیں تو اس کے جانشینوں اور صوبوں کے امراء نے وہ لوٹ کھسوٹ مچائی کہ پورا ملک زوال کی گرفت میں آگیا۔ خلافتِ راشدہ کے بعد بنی امیہ کی تاریخ ‘ بنی امیہ کے بعد بنی عباس کی تاریخ اور پھر مختلف خاندانوں کی حکومتوں کی تاریخ ایک سے ایک بڑھ کر اس تاریخی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ بھی یہی حادثہ پیش آیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دنیا سے جاتے ہی ان کا بیٹا ان کا جانشین ہوا اور اس نے اس زمانے کی سب سے اس بڑی حکومت کو اپنی میراث سمجھ کر اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانا شروع کردیا۔ پورے ملک میں فسق و فجور کو پھیلنے کا موقع مل گیا۔ امراء میں رقابت شروع ہوگئی ہر کوئی حکومت کا خواب دیکھنے لگا اس انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ایک غلام نے الگ حکومت بنا لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت جس کی قوت و شوکت کے سامنے کبھی کسی دوسری ریاست کو سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی خلفشار کا شکار ہوگئی۔ ایک متحدہ سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی ایک کا نام اسرائیل ٹھہرا اور دوسری کا یہودیہ۔ ایک کا دارالحکومت سامرہ تھا اور دوسری کا یروشلم۔ اب ان دونوں حکومتوں میں تصادم شروع ہوا چناچہ 937 ق م سے لے کر 586 ق م تک بنی اسرائیل کی تاریخ خانہ جنگی کی تاریخ ہے دونوں ریاستیں آپس میں ٹکراتی رہیں اور ان کے باہمی جنگ و جدل کے باعث قریبی ریاستوں کو یہ جرات ہوئی اور انھوں نے بار بار ان پر حملے کرنے شروع کیے کبھی مصر کا حکمران چڑھ دوڑتا اور کبھی صورو صیدا میں سے کوئی حکمران حملہ آور ہوتا لیکن بنی اسرائیل نے اس سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا حتی کہ ان کا یہ اختلاف و انتشار اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گیا جب بخت نصر نے ان پر حملہ کر کے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ان کے ہزاروں لوگ قتل ہوگئے۔ ہزاروں لوگوں کو اپنی ریاست کے مختلف شہروں میں تتر بتر کردیا اور ہزاروں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گیا اور پھر ان کا یہ انتشار و افتراق اور مختلف ملکوں میں ان کا بکھیرا جانا ایک ایسی حقیقت ہے کہ موجودہ اسرائیلی حکومت سے پہلے جسے اپنی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا تھا اور اب بھی یہ بڑی طاقتوں کے سائے میں پلنے والا ناسور کسی لمبی عمر کی خبر نہیں دے رہا بلکہ اس کے طور اطوار یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ قدرت کی طرف سے کوئی بھی فیصلہ دوبارہ انھیں ان کے انجام سے دوچار کر دے گا۔ چناچہ اس پوری صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو زمین میں گروہ گروہ کر کے منتشر کردیا۔ اجتماعی اصلاح کے لیے اہل خیر کا مضبوط ہونا ضروری ہے قطعناتقطیع سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ‘ منتشر کردینا۔ اور امم امت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایک جماعت یا ایک فرقہ یا گروہ۔ ان الفاظ میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اس کے بعد دوسرا جملہ ہے : ( مِنْھُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِک ان میں سے کچھ نیک لوگ تھے اور کچھ ان سے مختلف تھے۔ ) اس جملہ میں بھی ایک بہت بڑی حقیقت منکشف کی گئی ہے وہ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کا زوال جب آخری حدوں کو چھونے لگتا ہے اور ان کی قومی زندگی کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور ان میں ایک ایک کر کے قومی خصوصیات ختم ہوتی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس قوم میں تمام لوگ بگڑ چکے ہیں اور سرے سے ان میں کوئی صالح طبقہ موجود نہیں ہے بلکہ زوال پذیر اور بگڑی ہوئی قوموں میں بھی نیک لوگ بھی موجود ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا زوال بڑھتا چلا جاتا ہے اس کی وجہ کیا ہوتی ہے ؟ اس وجہ کو بیان کرنے سے پہلے ہم یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم کے اندر صالح لوگوں کے ہونے سے ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب جس سے قوموں کی جڑ کٹ جاتی ہے اور خیر کے تمام سوتے خشک ہوجاتے ہیں اور قدرت ایسی قوم کو دھرتی کا بوجھ سمجھ کر مٹادیتی ہے ایسی قوم پر نہیں آتا جس میں کچھ نہ کچھ نیک لوگ موجود ہوں یعنی ان میں نیکی اور خیر کی دعوت دینے والے اور اپنی ہمت اور وسائل کے مطابق دین کی خدمات انجام دینے والے اور قوم کے انکار اور استہزاء کے باوجود انھیں آخرت یاد دلانے والے موجود ہوں ان کی وجہ سے قوم کا بڑا حصہ جو برائیوں میں مبتلا ہوچکا ہوتا ہے وہ فیصلہ کن عذاب سے بچا رہتا ہے اور قدرت ان کو ڈھیل دیتی رہتی ہے کہ تمہارے اندر خیر کی دعوت دینے والے ابھی تک موجود ہیں تمہارے لیے ابھی موقع ہے کہ ان کی دعوت قبول کر کے اپنے برئے انجام سے بچ جاؤ۔ لیکن جہاں تک تباہی کی طرف بڑھنے کا سوال ہے یہ نیک لوگ اس سے انھیں نہیں روک سکتے وہ اپنی ساری کوششوں کے باوجود تباہی کی طرف جانے کے نتائج سے انھیں آگاہ تو کرسکتے ہیں لیکن ان کا رخ پھیرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وجہ اس کی یہ ہے کہ قوموں کو لیڈ اور فیڈ کرنے والے پالیسیاں بنانے والے پالیسیوں پر عمل کرنے والے قوم اور ملک کو جہتِ سفر دینے والے اور ان کے اعصاب اور ان کے مرکز اعصاب کو کنڑول کرنے والے صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبقہ خواص سے تعلق رکھتے ہیں ‘ جو عدالتوں میں ججز کی کرسی پر بیٹھتے۔ ایوانِ حکومت میں حکمرانی کرتے ‘ پارلیمینٹ میں قانون سازی کرتے ‘ تعلیمی اداروں کو نصاب تعلیم دیتے ‘ ابلاغ کو ابلاغ کی جہت دیتے، تربیتی اداروں میں مختلف شکلوں میں تربیت کا سامان کرتے اور انتظامی اداروں میں اختیارات پر قابض ہوتے اور انھیں استعمال کرتے ہیں۔ جب یہ طبقات بگڑ جاتے ہیں تو پھر عام لوگ آہستہ آہستہ ان کے رنگ میں رنگنا شروع ہوجاتے ہیں اور بےبسی کا شکار ہو کر ان کے اشاروں پر چلنے لگتے ہیں۔ زندگی کے مقاصد دم توڑ جاتے اور ضروریاتِ زندگی مقاصدِ زندگی بن کر عام آدمی کی زندگی میں حکمرانی کرنے لگتے ہیں اس صورت حال میں اگر ان میں کچھ نیک لوگ موجود بھی ہوں تو ان کی نیکی عبادت گاہوں یا چند دینی اداروں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ بنی اسرائیل اسی صورتحال سے دوچار تھے وہ مکمل طور پر برائی کی گرفت میں کبھی نہیں آئے ان میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی طبقہ نیکی اور خیر کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ اجتماعی عذاب سے بچے رہے۔ لیکن یہ انفرادی نیکی اجتماعی تباہی کا راستہ نہ روک سکی جس کے نتیجے میں نہ ان کا کوئی ملک محفوظ رہا نہ قومی زندگی محفوظ رہی۔ وہ انفرادی یا جماعتی طور پر دولت کمانے یا دوسروں کے خلاف سازشیں کرنے میں تو ضرور کامیاب رہے لیکن اپنی اجتماعی زندگی کو بروئے کار لانے اور اپنے فیصلے آپ کرنے سے محروم ہوگئے۔ بنی اسرائیل کی زندگی کا یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی قومی زندگی کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے یہ مملکتِ خداداد اسلامی زندگی گزارنے اور اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے اللہ سے مانگ کرلی تھی اور اس کے لیے ہم نے اتنی بڑی قربانی دی کہ معلوم تاریخ میں اس کی مثالیں کم کم ملیں گیں۔ لیکن جب ہم نے اللہ سے کیے ہوئے اس وعدے سے انحراف کیا بلکہ رفتہ رفتہ اس وعدے کے خلاف بغاوت کردی اس کا سب سے پہلا نتیجہ وہی نکلا جو بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا کہ ہماری اجتماعی زندگی میں دراڑیں پڑیں حتی کہ عالم اسلام کی یہ سب سے بڑی مملکت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں گروہوں میں منتشر کر کے رکھ دیا۔ آج آدھا پاکستان ہمارے پاس ہے لیکن اس میں بھی ہمارے صوبائی تعصبات ‘ لسانی عصبیتں ‘ گروہی مفادات پوری طرح اپنا رنگ دکھا رہے ہیں قوم میں نیک لوگوں کی کمی نہیں لیکن آہستہ آہستہ ہمارے اجتماعی فیصلہ کرنے کے سر چشمے لا دینیت کے قبضے میں جا رہے ہیں۔ ہماری پارلیمینٹ اولاً تو خیر کی نمائندہ نہیں رہی اور اگر اس کی کچھ امید بھی کی جاسکتی ہو تو ایک پیر تسمہ پا ہے جو ان کے سروں پر بیٹھا ان کو کچھ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہمارے تعلیمی ادارے نہ صرف لادینیت کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں بلکہ جہاں کہیں دین کی کوئی تھوڑی بہت خدمت ہو رہی ہے اس کا برداشت کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ تو پوری طرح شیطانی قوتوں کے نرغے میں ہیں اور یہ شیطانی قوتیں شب و روز کروڑوں لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کا فرض انجام دے رہی ہیں۔ ہمارے اخبارات چند ایک کو چھوڑ کر نہ جانے کس کی خدمت بجا لا رہے ہیں اس طرح سے ہماری اجتماعی زندگی اس ملک کے مقصد وجود سے رفتہ رفتہ منحرف ہوتی جا رہی ہے ایسی صورتحال میں خدشات بڑھتے جا رہے ہیں اور بنی اسرائیل کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اس آخری امت کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ہمیں بار بار بنی اسرائیل کی تاریخ سے سبق سیکھنے کا حکم دیا ہے اور قرآن کریم اسی لیے پلٹ پلٹ کر ان کی تاریخ ہمارے سامنے لا رہا ہے تاکہ یہ حامل دعوت امت سابقہ حامل دعوت امت کے زوال کے اسباب سے آگاہ ہو کر اپنے بچائو کی کوشش کرسکے۔ آزمائش کے دو طریقے اس آیت کریمہ میں تیسرا جملہ : { وَبَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ } ہے۔ ” اور ہم نے ان کو خوشحالیوں اور بد حالیوں سے آزمایا شائد وہ رجوع کریں “۔ بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانے کے لیے پروردگار نے دو طریقے اختیار فرمائے اور یہ بنی اسرائیل کی خصوصیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کو سمجھانے اور راہ راست پر لانے کے لیے یہی دونوں طریقے اختیار فرماتے رہے ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ کوئی قوم اللہ کے راستے سے انحراف اختیار کرتی ہے تو پروردگار اسے مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا کر کے غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور انھیں یہ بات باور کروائی جاتی ہے کہ تم اس زمین پر اس طرح زندگی گزار رہے ہو جس طرح ایک ایسی قوم زندگی گزارتی ہے جس کا کوئی خدا نہ ہو اور اسے یہ یقین ہو کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اسے کبھی کسی کے سامنے جواب دہی نہیں کرنی وہ زمین ہی کو اپنا اول و آخر مسکن سمجھتی ہے اور اسی میں مر مٹنا اس کی زندگی کی انتہاء ہے جو اس کے جی میں آتا ہے وہ فیصلے کرتی ہے اور جو چاہتی ہے وہ اپنی منزل متعین کرلیتی ہے اس کی کامیابی اور ناکامی کے اپنے پیمانے ہیں کیونکہ اس کی زندگی اس کے اپنے گرد گھومتی ہے ان کو یہ بتلانے کے لیے کہ تمہیں یہ غلط فہمی ہے کہ تم یہاں ہر فیصلہ کرنے کے مجاز ہو تمہارے اوپر کوئی اور بڑی ذات بھی ہے جس نے تمہیں بےمقصد پیدا نہیں کیا اور پھر تمہیں اندھیرے میں بھی نہیں رکھا بلکہ اس مقصد سے آگاہی دینے کے لیے وہ بار بار پیغمبر بھیجتا رہا ہے اب یہ مصیبتیں ‘ تکلیفیں ‘ وبائیں ‘ زلزلے اور بیماریاں بھیج کر وہ تمہیں توجہ دلانا چاہتا ہے کہ دیکھو ! اگر تم اپنی زندگی اور اپنی قسمتوں کے خود مالک ہوتے تو تمہیں یہ حوادث پیش نہ آتے تم جب چاہتے ان حوادث کا راستہ روک لیتے یا انھیں اپنے سے دور کردیتے لیکن تم اس پر قادر نہیں ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے اوپر ایک اور ذات ہے جس نے تمہیں زندگی گزارنے اور زمین پر رہنے کی آزادی بخشی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تم اس سے آزاد ہو کر زندگی گزار سکتے ہو اس کے احکام کو سمجھو ‘ قبول کرو اور اس کے مطابق زندگی گزارو۔ لیکن جب وہ قوم ان مصیبتوں کے باجود بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتی اور وہ اس کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اسے زمانے کے پھیر کا نتیجہ سمجھتی ہے تو پھر پروردگار اس سے سخت تر آزمائش میں انھیں مبتلا کردیتا ہے یہ سخت تر آزمائش بظاہر نرم دکھائی دیتی ہے لیکن اس آزمائش پر پورا اترنا چونکہ زیادہ مشکل ہے اس لیے میں اس کو سخت تر کہہ رہا ہوں وہ آزمائش یہ ہے کہ اب پروردگار بجائے مصیبتوں کے انھیں راحتوں ‘ آسانیوں ‘ نعمتوں ‘ آسائشوں ‘ عشرتوں اور مسرتوں سے گراں بار کردیتا ہے۔ ان کے کاروبار سنبھل جاتے ہیں۔ کھیتیاں سونا اگلنے لگتی ہیں بارشیں وقت پر ہونے لگتی ہیں ‘ بین الاقوامی دنیا میں ساکھ بڑھنے لگتی ہے ‘ مالی پریشانیاں کم ہونے لگتی ہیں اس تبدیلی کو دیکھ کر قوم یہ سمجھتی ہے کہ پہلے اگر پروردگار ہم سے ناراض تھا تو اب وہ راضی ہوگیا ہے یا پہلے زمانہ ہم سے بگڑا ہوا تھا تو وہ اب ہمارے موافق ہوگیا ہے اس لیے جیسے جیسے ان کی دولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے ان کے عشرت کدے آباد ہونے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کا کاروبار سنبھلتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ کی نافرمانی کے مراکز پھلنے پھولنے لگتے ہیں انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ دکھوں میں مبتلا ہو کر تو بعض دفعہ سوچنے لگتی ہے لیکن عیش و عشرت کی زندگی تو عموماً بگاڑ کا ذریعہ بنتی ہے۔ چناچہ قدرت جس قوم کو اس آزمائش میں مبتلا کرتی ہے انھیں ایک طوفان سے وابستہ کردیتی ہے۔ طوفان ان کے سر پر تلا کھڑا ہوتا ہے لیکن ان کی مستیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بنی اسرائیل بھی انھیں دونوں آزمائشوں سے بار بار گزرتے رہے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنی زندگی کو بدل سکیں۔ لیکن بنی اسرائیل کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ان آزمائشوں سے سبق سیکھنے کی بجائے وہ ہمیشہ اور بگڑتے چلے گئے اگر پروردگار نے انھیں بد حالیوں میں مبتلا کیا تو انھوں نے اللہ پر اعتراض کرنے شروع کر دئیے معلوم ہوتا ہے آج کل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں (یداللہ مغلولۃ) اور اگر انھیں خوشحالیوں سے نوازا گیا اور اس کے بدلے میں انھیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی تو پکار اٹھے : ان اللہ فقیر ونحن اغنیاء (بےشک اللہ تعالیٰ فقیر ہیں اور ہم غنی اور مال دار ہیں) یعنی نعمتیں ملیں تو انھوں نے شکر نہیں کیا اور مصیبت میں مبتلا ہوئے تو صبر نہ دکھایا حالانکہ شکر اور صبر ہی تو اسلامی زندگی ہے جسے انھوں نے اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی اجتماعی زندگی اللہ کی نافرمانی اور اس سے بغاوت کی آئینہ دار بن گئی۔ بنی اسرائیل کے زوال کا یہ سفر ایک طویل داستان ہے جس میں ہم مختلف نشیب و فراز دیکھتے ہیں اسی کا ایک پہلو جو کئی پہلوئوں کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے اگلی آیت کریمہ میں بیان کیا جا رہا ہے۔
Top