Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 33
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
قُلْ
: فرما دیں
اِنَّمَا
: صرف (تو)
حَرَّمَ
: حرام کیا
رَبِّيَ
: میرا رب
الْفَوَاحِشَ
: بےحیائی
مَا
: جو
ظَهَرَ
: ظاہر ہیں
مِنْهَا
: ان سے
وَمَا
: اور جو
بَطَنَ
: پوشیدہ
وَالْاِثْمَ
: اور گناہ
وَالْبَغْيَ
: اور سرکشی
بِغَيْرِ الْحَقِّ
: ناحق کو
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تُشْرِكُوْا
: تم شریک کرو
بِاللّٰهِ
: اللہ کے ساتھ
مَا
: جو۔ جس
لَمْ يُنَزِّلْ
: نہیں نازل کی
بِهٖ
: اس کی
سُلْطٰنًا
: کوئی سند
وَّاَنْ
: اور یہ کہ
تَقُوْلُوْا
: تم کہو (لگاؤ)
عَلَي
: پر
اللّٰهِ
: اللہ
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
(اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے کہ میرے رب نے تو حرام کی ہیں ‘ بےحیائیاں خواہ کھلی ہوں ‘ خواہ پوشیدہ اور حق تلفی اور ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو ‘ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو ‘ جس کا تم علم نہیں رکھتے۔
ارشاد ہوتا ہے : قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِ اللہ ِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (الاعراف : 33) ”(اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے کہ میرے رب نے تو حرام کی ہیں ‘ بےحیائیاں خواہ کھلی ہوں ‘ خواہ پوشیدہ اور حق تلفی اور ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو ‘ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو ‘ جس کا تم علم نہیں رکھتے “۔ اللہ کی حرام ٹھہرائی ہوئی اصل چیزیں اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان سے یہ کہئے کہ تم عجیب نادان واقع ہوئے ہو کہ جن چیزوں کو اللہ نے حلال اور طیب پیدا فرمایا تھا اور جو اس نے اپنے بندوں کے لیے حلال کی تھیں ان کو تو تم نے اپنی نادانی اور حماقت سے حرام قرار دے دیا لیکن جو چیزیں میرے رب نے حرام کی ہیں تمہیں نہ تو ان کے بارے میں کوئی علم ہے کہ وہ کیا ہیں اور اگر تمہیں کچھ علم ہے بھی تو تم نے اپنے عمل سے ان حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال بنا رکھا ہے اس سے بڑی تعجب کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو چیزیں حلال ہیں تم ان کو حرام کردیتے ہو اور جو حرام ہیں ان کو تم حلال کردیتے ہو پھر آپ نے ان محرمات میں سے چند چیزیں بیان فرمائیں۔ سب سے پہلی چیزیہ کہ میرے رب نے تمام بےحیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے۔ فواحش فاحشہ کی جمع ہے۔ فاحشہ ہر اس بےحیائی کو کہتے ہیں جسے ہر وہ شخص برا سمجھے اور اس سے گھن کھائے جس کی فطرت سلیم ہو اور جس کا فطری احساس زندہ ہو کیونکہ جب فطرت مردہ ہوجاتی ہے اور احساس مرجاتا ہے یا فطرت بگڑ جاتی ہے تو ایسے آدمی کو سامنے کی بات بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اسے آپ ہزار سمجھایئے وہ کبھی سمجھ کے نہیں دے گا۔ آپ یوں محسوس کریں گے کہ آپ ایک دیوار سے مخاطب ہیں بلکہ بعض دفعہ اس کے رویے اور اس کی باتوں سے آپ سٹپٹا کے رہ جائیں گے کہ جن باتوں کو ایک معمولی آدمی اپنی فطری بصیرت سے بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے ایک بڑے سے بڑا تعلیم یافتہ دانشور جس کی فطرت تعلیم اور ماحول نے بگاڑ دی ہے کبھی نہیں سمجھتا۔ وہ اس کے خلاف ایسے ایسے دلائل لائے گا کہ آپ حیرانی میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ ان دونوں جشن بہاراں اور بسنت کو ایک تہوار کے طور پر بھی حکومتی سرپرستی میں منایا جا رہا ہے۔ ارباب حل و عقد اور دسترخوانی قبیلے کے دانشور اس کے حق میں وہ وہ دلیلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے لا رہے ہیں کہ ہر درد رکھنے والا شخص دل تھام کے رہ جاتا ہے اور آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جس قوم کے لیڈ اور فیڈ کرنے والے لوگ اس سطح تک گرجائیں اس قوم کی راہنمائی کا فریضہ کون انجام دے گا اور اس ملک کے مقدر کا کیا بنے گا ؟ چنددن پہلے کی بات ہے میرے اہل خانہ نے مجھ سے کہا کہ گزشتہ دو سال ہمارے پڑوسیوں نے بسنت کا تہوار نہیں منایا اس لیے کہ سوئے اتفاق سے دونوں سالوں میں انھیں کوئی نہ کوئی موت کا صدمہ پیش آتا رہا اس لیے انھوں نے اس خوشی کے موقع کو منانا مناسب نہیں سمجھا۔ میں اس بات پر بہت دیر تک سوچتا رہا کہ ان کے گھروں میں ایک موت واقعہ ہوئی تو انھوں نے بسنت منانے سے انکار کردیا اور ہم یہ جو جشن بہاراں اور بسنت منا رہے ہیں کیا اس قوم کا ان دنوں کوئی نہیں مرا۔ یہ جو فلسطین میں روزانہ جنازے اٹھتے ہیں ‘ مقبوضہ کشمیر میں ہر روز عزتیں پامال ہوتی ہیں اور کئی نوجوانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے اور ہزاروں ان کے قیدی جیلوں میں سسک سسک کر مر رہے ہیں اور ہم نے اپنے پڑوس میں جس طرح مسلمانوں کے خون کو ارزاں کیا ہے اور خود اپنے ملک میں جس طرح راتوں کے اندھیرے میں عزتیں پامال کی جا رہی ہیں اور ملک کی آزادی ایک سوالیہ نشان بن کے رہ گئی ہے کیا ان میں سے کوئی غم بھی ہمارے سوچنے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ اس کے باوجود ہمارے چھوٹے بڑے سمجھ سوچ سے عاری ہوتے جا رہے ہیں اور کوئی دلیل کی بات سننے کا روادار نہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری فطرتیں بگڑ گئی ہوں۔ آج ہی کے اخباروں میں دیکھ لیجیے کہ صرف لاہور میں جو مالی نقصانات ہوئے ان کو تو جانے دیجئے دس افراد موت کی بھینٹ چڑھے اور تین سو آدمی زخمی ہوئے۔ اندازہ فرمایئے ! یہ اتنی بڑی قربانی کس عظیم مقصد کے لیے دی گئی ہے اور دو راتیں جس طرح ہلڑ بازی میں گزری ہیں اور اس میں جس طرح ڈوپٹے ہوا میں لہراتے رہے اور آنچل نہ جانے کس کس سے ہم آغوش ہوتے رہے اور خصوصی تقریبات میں جس طرح نائونوش کی محفلیں گرم ہوئیں اور جس طرح شرم و حیا کا جنازہ نکلا ہے۔ کیا کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرے گا کہ کیا مسلمانوں کے چلن یہی ہوتے ہیں۔ کہیں ہم اللہ کے عذاب کو دعوت تو نہیں دے رہے ؟ اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی ہم جشن بہاراں اور بسنت پر اصرار جاری رکھتے ہیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ہم اللہ کی غلامی سے نکل کر نجانے کس کس طاغوت کی غلامی میں مبتلا ہو رہے ہیں اور غلامی کا طوق پہن لینے کے بعد پھر سوچنے سمجھنے کی قوتیں کام نہیں کیا کرتیں۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا ؎ تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتے ہے قوموں کا ضمیر اللہ نے جو بےحیائی کی باتیں حرام قرار دی ہیں اور جس کو ہر مسلمان کا زندہ ضمیر پہچانتا ہے ان کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ صرف کھلی کھلی بےحیائیاں ہی حرام نہیں ہیں بلکہ جو پوشیدہ اور درپردہ بےحیائیاں ہیں وہ بھی حرام ہیں مراد اس سے یہ ہے کہ کھلی بےحیائی تو وہ ہوتی ہے جس کو ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھتی اور سننے والے کان سنتے ہیں لیکن بعض بےحیائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا احساس صرف ان کا ارتکاب کرنے والا ہی رکھتا ہے۔ مثلاً آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ” آنکھ بھی زنا کرتی ہے “ آنکھ کا زنا کیا ہے نا محرم کو دیکھنا اور پھر بار بار دیکھنے کی کوشش کرنا اور اس سے ایک لذت لینا اور پھر دل اور دماغ کا زنا یہ ہے کہ منصوبہ بندی کرنے لگنا کہ بار بار دیکھنے کے مواقع کیسے پیدا ہوسکتے ہیں اور کس طرح اس بات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے اور کونسی صورت ہو کہ ملاقات کا اہتمام ہو سکے تاکہ یہ برائی اپنے منطقی انجام کو پہنچے یہ پورا پر اسس جو برائی کی تکمیل تک جاری رہتا ہے اسے سوائے کرنے والے کے اور کوئی نہیں جانتا۔ دوسروں کو کیا خبر کہ نگاہیں کس کے تعاقب میں ہیں اور دل و دماغ میں کون بسا ہوا ہے اور کس گناہ کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے یہ وہ خفیہ اور پوشیدہ بےحیائی ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ کوئی برائی ہو یا نیکی اس کا اصل سررشتہ اور اس کی جڑ وہ آنکھوں یا کانوں میں نہیں ہوتی وہ دماغ اور دل میں ہوتی ہے جب تک کوئی برائی دل میں اپنا مسکن نہیں بنا لیتی اس وقت تک اس کے اثرات متعدی نہیں ہوتے۔ اگر آنکھوں میں کوئی لہر پید اہوتی بھی ہے تو چند لمحوں کے بعد غائب ہوجاتی ہے لیکن اگر اس برائی کی جڑیں دل میں اتر جاتی ہیں تو پھر اندیشے پیدا ہونے لگتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی شخص کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس سے تائب ہوجاتا ہے لیکن اس برائی کا احساس اس کے دل سے نکلنے نہیں پاتا چناچہ باہر کے عوامل دل کے اس احساس کو توانا کرتے رہتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ اظہار کی صورت بھی پیدا کرلیتا ہے تو اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوشیدہ بےحیائی وہ ہے جو دل میں جگہ بنا لے یا دل میں باقی رہے بیشک باہر سے اس کے رشتے کٹ گئے ہوں۔ اللہ نے اسے بھی حرام قرار دیا ہے کہ جب تک تم دل کی پاکیزگی کا سامان نہیں کرو گے اس وقت تک بےحیائی سے بچ نہیں سکو گے۔ دوسری چیز جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ ہے اثم۔ اس کا معنی ہے کوتاہی آثمہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تیز چل سکتی ہو مگر جان بوجھ کر سست چلے۔ اسی سے اس لفظ میں گناہ کا مفہوم پیدا ہوا ہے یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں قدرت و استطاعت کے باوجود کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو پہنچنے میں جان بوجھ کر قصور دکھانا۔ بعض احکام ایسے ہیں جن کے بجا لانے کی آدمی میں ہمت نہیں ہوتی یا کسی عارضے کے باعث ہمت باقی نہیں رہتی اس میں کوتاہی ہوجانا یہ تو ایک عذر ہے لیکن جس حکم کی تعمیل کی آدمی میں ہمت ہو اور اس کے اسباب بھی میسر ہوں پھر آدمی اس میں کوتاہی کرے یہ گناہ ہے۔ کبھی یہ گناہ چھوٹا ہوتا ہے اور کبھی بڑا مثلاً گناہ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ پڑوس میں کوئی شخص بیمار تھا میں نے اس کی تیمار داری نہیں کی اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ جان بہ لب تھا مجھ سے کہا گیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے آپ گاڑی نکالیئے اسے ہسپتال لیکر جانا ہے میں نے کوئی بہانہ کردیا اور وہ شخص مرگیا یہ وہ گناہ ہے جو پہلے گناہ سے بہت بڑا ہے۔ اسی پر آپ قیاس کرتے چلے جایئے کہ یہ سارے گناہ کوتاہی عمل کا نتیجہ ہیں لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے یکساں نہیں اس لیے ان کو گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تیسری چیز جس کو حرام کیا گیا ہے وہ ہے اَلْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ اس کا معنی ہے تعدی اور سرکشی۔ یعنی اللہ نے ایک مومن کی زندگی میں حدود کھینچ دی ہیں کہ تم ان حدود سے آگے نہیں بڑھ سکتے وہ خالق کائنات کا ممنوعہ علاقہ ہے مثلاً تم ہر چیز کھا سکتے ہو مگر حرام چیز نہیں کھا سکتے یہ تمہارے کھانے پینے کے ذوق کی آخری حد ہے اس سے آگے نہ بڑھنا۔ یہی حال تمام احکام شریعت کا ہے کوئی آدمی یا کوئی قوم اگر حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ انھوں نے ایمان لا کر اللہ کی اطاعت اور بندگی کا عہد کیا تھا وہ نافرمانی کی صورت میں اس عہد کو توڑ کر حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی قوم صرف محرمات شرعیہ کا ارتکاب ہی نہ کرے بلکہ قانون سازی کرتے ہوئے سراسر اللہ کے قانون اور احکام کو نظر انداز کر دے یا پالیسی بناتے ہوئے اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے قطعاً اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ اس بارے میں اللہ کے احکام کیا ہیں ؟ یہ سرکشی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بغی کا ارتکاب کرنے والا کبھی تو محض ایک بےعملی کا ارتکاب کرتا ہے اور کبھی وہ بغاوت کا ارتکاب کرتا ہے جب وہ بندگی کی حد سے نکل کے اللہ کے ملک میں خود مختارانہ رویہ اختیار کرتا ہے یا خدا کی خدائی میں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجانے لگتا ہے اور اسی طرح وہ شخص بھی جو بندگان خدا کے حقوق پر دست درازی کرنے لگتا ہے۔ البَغْیَ کے ساتھ جو بَغَیْرِ الْحَقِّ کی قید لگائی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی تعدی اور سرکشی حق بھی ہوتی ہے بلکہ یہ قید صرف اس جرم کی شناعت اور گھنائونے پن کو نمایاں کرنے کے لیے ہے جیسا قرآن پاک میں یہود کے جرائم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نبیوں کو بغیر الحق قتل کرتے تھے حالانکہ کسی نبی کو قتل کرنا حق نہیں ہوسکتا۔ مراد یہ ہے کہ وہ ایک بہت برے فعل کا ارتکاب کرتے تھے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی اور اللہ کے مقابلے میں اپنی بندگی کی حدود سے تجاوز یہ بَغَیْرِ الْحَقِّ کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا یعنی ایک بندے کا دوسرے بندے سے معاملہ چاہے کتنا بھی غلط ہو اس بات کا بہرحال امکان رہتا ہے کہ شاید اس میں حق کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو لیکن جہاں تک اللہ کے مقابلے میں سرکشی اور تعدی کا تعلق ہے اس میں تو ایسے کسی امکان کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا اس لیے اسے بَغَیْرِ الْحَقِّ سے تعبیر کیا گیا۔ چوتھی چیز جو اس آیت کریمہ میں حرام قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک ٹھہرائو۔ شریک ٹھہرانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی ذات اس کی صفات اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں کسی دوسرے کو شریک کردیا جائے یعنی یہ سمجھا جائے کہ جیسی اللہ کی ذات ہے ویسا کوئی اور بھی ہے یا جیسے اس کی خصوصی صفات ہیں ایسی ہی صفات کسی اور میں بھی ہیں یا جیسے اس کے حقوق اس کے بندوں پر ہیں ایسے ہی کسی اور کے حقوق بھی ہیں اور یا جیسے وہ اختیارات رکھتا ہے ایسے ہی اختیارات کسی اور کو بھی حاصل ہیں۔ ان میں سے کوئی بات بھی اختیار کی جائے وہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ اللہ کی ذات میں شرک تو بہت کم ہوا ہے البتہ باقی تینوں طرح کے شرک ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ امت مسلمہ جو توحید کی قیامت تک کے لیے علمبردار بنائی گئی ہے اس کا بھی حال یہ ہے کہ اللہ کا یہ حق کہ وہ اپنے بندوں پر مطلق العنان حاکم ہے اور غیر مشروط اطاعت اس کا حق ہے اسی طرح اختیارات اور قدرتوں میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ جس طرح اس کے سوا کسی اور کو سجدہ روا نہیں اسی طرح اس کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت اور کسی اور کی محبت سے دل کو آباد کرنا اور کسی اور کی قدرت کو بےپناہ سمجھ کر مرعوب ہوجانا اور بجائے اس کو سہاراجاننے کے کسی اور قوت کو اپنا سہارا سمجھ لینا اور بجائے اس کے قانون کو اپنا قانون بنانے کے کسی اور وضعی قانون کو اپنا قانون بنانا اور اپنے ملک میں اس کو نافذ کردینا یہ شرک کی چند در چند صورتیں ہیں جس کا آج بھی پورے عالم اسلام میں ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے امت مسلمہ تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ ساتھ ہی اس کے یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو جس کی اللہ نے کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں اتاری۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جہاں تک اللہ کو ماننے کا تعلق ہے وہ تو عقل و فطرت کا ایک بدیہی تقاضہ ہے اور مشرک بھی اللہ کو مانتا ہے لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ کا کوئی شریک بھی ہے تو اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور دلیل بھی ایسی جو برہان یعنی ایک حجت قاطع کی حیثیت رکھتی ہو۔ اس لیے کہ خدا کی خدائی میں یوں ہی کسی کو جوڑ دینا سارے نظام عقل و فطرت اور پورے نظام عدل و قسط کو درہم برہم کردینا ہے۔ اتنی بڑی بات بغیر اس کے مان لینے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اللہ نے اس کی کوئی نقلی ‘ عقلی یا فطری دلیل اتاری ہو۔ پانچویں چیز جو حرام کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جو تم نہیں جانتے ہو یعنی تم اپنی مرضی سے حلت و حرمت کا فیصلہ کرنے لگو اور اپنی خواہشوں کی پیروی میں بدعتیں ایجاد کر ڈالو اور ہو سکے تو پوری نئی شریعت تصنیف کر ڈالو لیکن دعویٰ یہ کرو کہ یہ سب کچھ ہمیں خدا نے حکم دیا ہے حالانکہ تم اللہ کی جانب سے ایسا کوئی علم نہیں رکھتے کیونکہ مشرکین مکہ کے پاس کسی شریعت کا علم محفوظ نہیں تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ لوگ مانتے تھے لیکن ان پر جو صحیفے نازل ہوئے ان میں سے کچھ بھی ان کے پاس موجود نہیں تھا اس کے باوجود یہ جتنے مشرکانہ اعمال کرتے تھے سب کی نسبت اللہ کی طرف کرتے تھے جس طرح گزشتہ رکوع میں ہم نے پڑھا ہے کہ وہ اپنی تمام بداعمالیوں کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے تو یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر ان سے کہو کہ اللہ نے جو چزیں تم پر حرام کی ہیں ان میں سے یہ ایک بات بھی ہے کہ تم اللہ پر اس طرح جھوٹ باندھنے لگو اور جھوٹی باتیں اس کی طرف منسوب کرنے لگو۔ اگلی آیت کریمہ میں وارننگ دی جا رہی ہے کہ آج جبکہ اللہ کے آخری نبی تم میں آچکے ہیں اور قرآن کریم نازل ہو رہا ہے اور ایک ایک بات تم پر کھول کھول کر بیان کی جا رہی ہے لیکن تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر سوچ لو کہ تمہارا انجام آخر کیا ہوگا ؟
Top