Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 33
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَا : صرف (تو) حَرَّمَ : حرام کیا رَبِّيَ : میرا رب الْفَوَاحِشَ : بےحیائی مَا : جو ظَهَرَ : ظاہر ہیں مِنْهَا : ان سے وَمَا : اور جو بَطَنَ : پوشیدہ وَالْاِثْمَ : اور گناہ وَالْبَغْيَ : اور سرکشی بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق کو وَاَنْ : اور یہ کہ تُشْرِكُوْا : تم شریک کرو بِاللّٰهِ : اللہ کے ساتھ مَا : جو۔ جس لَمْ يُنَزِّلْ : نہیں نازل کی بِهٖ : اس کی سُلْطٰنًا : کوئی سند وَّاَنْ : اور یہ کہ تَقُوْلُوْا : تم کہو (لگاؤ) عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
(اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے کہ میرے رب نے تو حرام کی ہیں ‘ بےحیائیاں خواہ کھلی ہوں ‘ خواہ پوشیدہ اور حق تلفی اور ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو ‘ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو ‘ جس کا تم علم نہیں رکھتے۔
ارشاد ہوتا ہے : قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِ اللہ ِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (الاعراف : 33) ”(اے پیغمبر ! ) کہہ دیجئے کہ میرے رب نے تو حرام کی ہیں ‘ بےحیائیاں خواہ کھلی ہوں ‘ خواہ پوشیدہ اور حق تلفی اور ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام ٹھہرایا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرو ‘ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو ‘ جس کا تم علم نہیں رکھتے “۔ اللہ کی حرام ٹھہرائی ہوئی اصل چیزیں اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان سے یہ کہئے کہ تم عجیب نادان واقع ہوئے ہو کہ جن چیزوں کو اللہ نے حلال اور طیب پیدا فرمایا تھا اور جو اس نے اپنے بندوں کے لیے حلال کی تھیں ان کو تو تم نے اپنی نادانی اور حماقت سے حرام قرار دے دیا لیکن جو چیزیں میرے رب نے حرام کی ہیں تمہیں نہ تو ان کے بارے میں کوئی علم ہے کہ وہ کیا ہیں اور اگر تمہیں کچھ علم ہے بھی تو تم نے اپنے عمل سے ان حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال بنا رکھا ہے اس سے بڑی تعجب کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو چیزیں حلال ہیں تم ان کو حرام کردیتے ہو اور جو حرام ہیں ان کو تم حلال کردیتے ہو پھر آپ نے ان محرمات میں سے چند چیزیں بیان فرمائیں۔ سب سے پہلی چیزیہ کہ میرے رب نے تمام بےحیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے۔ فواحش فاحشہ کی جمع ہے۔ فاحشہ ہر اس بےحیائی کو کہتے ہیں جسے ہر وہ شخص برا سمجھے اور اس سے گھن کھائے جس کی فطرت سلیم ہو اور جس کا فطری احساس زندہ ہو کیونکہ جب فطرت مردہ ہوجاتی ہے اور احساس مرجاتا ہے یا فطرت بگڑ جاتی ہے تو ایسے آدمی کو سامنے کی بات بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اسے آپ ہزار سمجھایئے وہ کبھی سمجھ کے نہیں دے گا۔ آپ یوں محسوس کریں گے کہ آپ ایک دیوار سے مخاطب ہیں بلکہ بعض دفعہ اس کے رویے اور اس کی باتوں سے آپ سٹپٹا کے رہ جائیں گے کہ جن باتوں کو ایک معمولی آدمی اپنی فطری بصیرت سے بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے ایک بڑے سے بڑا تعلیم یافتہ دانشور جس کی فطرت تعلیم اور ماحول نے بگاڑ دی ہے کبھی نہیں سمجھتا۔ وہ اس کے خلاف ایسے ایسے دلائل لائے گا کہ آپ حیرانی میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ ان دونوں جشن بہاراں اور بسنت کو ایک تہوار کے طور پر بھی حکومتی سرپرستی میں منایا جا رہا ہے۔ ارباب حل و عقد اور دسترخوانی قبیلے کے دانشور اس کے حق میں وہ وہ دلیلیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے لا رہے ہیں کہ ہر درد رکھنے والا شخص دل تھام کے رہ جاتا ہے اور آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جس قوم کے لیڈ اور فیڈ کرنے والے لوگ اس سطح تک گرجائیں اس قوم کی راہنمائی کا فریضہ کون انجام دے گا اور اس ملک کے مقدر کا کیا بنے گا ؟ چنددن پہلے کی بات ہے میرے اہل خانہ نے مجھ سے کہا کہ گزشتہ دو سال ہمارے پڑوسیوں نے بسنت کا تہوار نہیں منایا اس لیے کہ سوئے اتفاق سے دونوں سالوں میں انھیں کوئی نہ کوئی موت کا صدمہ پیش آتا رہا اس لیے انھوں نے اس خوشی کے موقع کو منانا مناسب نہیں سمجھا۔ میں اس بات پر بہت دیر تک سوچتا رہا کہ ان کے گھروں میں ایک موت واقعہ ہوئی تو انھوں نے بسنت منانے سے انکار کردیا اور ہم یہ جو جشن بہاراں اور بسنت منا رہے ہیں کیا اس قوم کا ان دنوں کوئی نہیں مرا۔ یہ جو فلسطین میں روزانہ جنازے اٹھتے ہیں ‘ مقبوضہ کشمیر میں ہر روز عزتیں پامال ہوتی ہیں اور کئی نوجوانوں کو خون میں نہلایا جاتا ہے اور ہزاروں ان کے قیدی جیلوں میں سسک سسک کر مر رہے ہیں اور ہم نے اپنے پڑوس میں جس طرح مسلمانوں کے خون کو ارزاں کیا ہے اور خود اپنے ملک میں جس طرح راتوں کے اندھیرے میں عزتیں پامال کی جا رہی ہیں اور ملک کی آزادی ایک سوالیہ نشان بن کے رہ گئی ہے کیا ان میں سے کوئی غم بھی ہمارے سوچنے کے لیے کافی نہیں ہے ؟ اس کے باوجود ہمارے چھوٹے بڑے سمجھ سوچ سے عاری ہوتے جا رہے ہیں اور کوئی دلیل کی بات سننے کا روادار نہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری فطرتیں بگڑ گئی ہوں۔ آج ہی کے اخباروں میں دیکھ لیجیے کہ صرف لاہور میں جو مالی نقصانات ہوئے ان کو تو جانے دیجئے دس افراد موت کی بھینٹ چڑھے اور تین سو آدمی زخمی ہوئے۔ اندازہ فرمایئے ! یہ اتنی بڑی قربانی کس عظیم مقصد کے لیے دی گئی ہے اور دو راتیں جس طرح ہلڑ بازی میں گزری ہیں اور اس میں جس طرح ڈوپٹے ہوا میں لہراتے رہے اور آنچل نہ جانے کس کس سے ہم آغوش ہوتے رہے اور خصوصی تقریبات میں جس طرح نائونوش کی محفلیں گرم ہوئیں اور جس طرح شرم و حیا کا جنازہ نکلا ہے۔ کیا کوئی سوچنے کی زحمت نہیں کرے گا کہ کیا مسلمانوں کے چلن یہی ہوتے ہیں۔ کہیں ہم اللہ کے عذاب کو دعوت تو نہیں دے رہے ؟ اگر ان تمام باتوں کے باوجود بھی ہم جشن بہاراں اور بسنت پر اصرار جاری رکھتے ہیں تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ہم اللہ کی غلامی سے نکل کر نجانے کس کس طاغوت کی غلامی میں مبتلا ہو رہے ہیں اور غلامی کا طوق پہن لینے کے بعد پھر سوچنے سمجھنے کی قوتیں کام نہیں کیا کرتیں۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا ؎ تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتے ہے قوموں کا ضمیر اللہ نے جو بےحیائی کی باتیں حرام قرار دی ہیں اور جس کو ہر مسلمان کا زندہ ضمیر پہچانتا ہے ان کے ساتھ یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ وہ صرف کھلی کھلی بےحیائیاں ہی حرام نہیں ہیں بلکہ جو پوشیدہ اور درپردہ بےحیائیاں ہیں وہ بھی حرام ہیں مراد اس سے یہ ہے کہ کھلی بےحیائی تو وہ ہوتی ہے جس کو ہر دیکھنے والی نگاہ دیکھتی اور سننے والے کان سنتے ہیں لیکن بعض بےحیائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا احساس صرف ان کا ارتکاب کرنے والا ہی رکھتا ہے۔ مثلاً آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ” آنکھ بھی زنا کرتی ہے “ آنکھ کا زنا کیا ہے نا محرم کو دیکھنا اور پھر بار بار دیکھنے کی کوشش کرنا اور اس سے ایک لذت لینا اور پھر دل اور دماغ کا زنا یہ ہے کہ منصوبہ بندی کرنے لگنا کہ بار بار دیکھنے کے مواقع کیسے پیدا ہوسکتے ہیں اور کس طرح اس بات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے اور کونسی صورت ہو کہ ملاقات کا اہتمام ہو سکے تاکہ یہ برائی اپنے منطقی انجام کو پہنچے یہ پورا پر اسس جو برائی کی تکمیل تک جاری رہتا ہے اسے سوائے کرنے والے کے اور کوئی نہیں جانتا۔ دوسروں کو کیا خبر کہ نگاہیں کس کے تعاقب میں ہیں اور دل و دماغ میں کون بسا ہوا ہے اور کس گناہ کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے یہ وہ خفیہ اور پوشیدہ بےحیائی ہے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ کوئی برائی ہو یا نیکی اس کا اصل سررشتہ اور اس کی جڑ وہ آنکھوں یا کانوں میں نہیں ہوتی وہ دماغ اور دل میں ہوتی ہے جب تک کوئی برائی دل میں اپنا مسکن نہیں بنا لیتی اس وقت تک اس کے اثرات متعدی نہیں ہوتے۔ اگر آنکھوں میں کوئی لہر پید اہوتی بھی ہے تو چند لمحوں کے بعد غائب ہوجاتی ہے لیکن اگر اس برائی کی جڑیں دل میں اتر جاتی ہیں تو پھر اندیشے پیدا ہونے لگتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ کوئی شخص کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور پھر اس سے تائب ہوجاتا ہے لیکن اس برائی کا احساس اس کے دل سے نکلنے نہیں پاتا چناچہ باہر کے عوامل دل کے اس احساس کو توانا کرتے رہتے ہیں پھر ایک وقت آتا ہے جب یہ اظہار کی صورت بھی پیدا کرلیتا ہے تو اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوشیدہ بےحیائی وہ ہے جو دل میں جگہ بنا لے یا دل میں باقی رہے بیشک باہر سے اس کے رشتے کٹ گئے ہوں۔ اللہ نے اسے بھی حرام قرار دیا ہے کہ جب تک تم دل کی پاکیزگی کا سامان نہیں کرو گے اس وقت تک بےحیائی سے بچ نہیں سکو گے۔ دوسری چیز جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ ہے اثم۔ اس کا معنی ہے کوتاہی آثمہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تیز چل سکتی ہو مگر جان بوجھ کر سست چلے۔ اسی سے اس لفظ میں گناہ کا مفہوم پیدا ہوا ہے یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری میں قدرت و استطاعت کے باوجود کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو پہنچنے میں جان بوجھ کر قصور دکھانا۔ بعض احکام ایسے ہیں جن کے بجا لانے کی آدمی میں ہمت نہیں ہوتی یا کسی عارضے کے باعث ہمت باقی نہیں رہتی اس میں کوتاہی ہوجانا یہ تو ایک عذر ہے لیکن جس حکم کی تعمیل کی آدمی میں ہمت ہو اور اس کے اسباب بھی میسر ہوں پھر آدمی اس میں کوتاہی کرے یہ گناہ ہے۔ کبھی یہ گناہ چھوٹا ہوتا ہے اور کبھی بڑا مثلاً گناہ کی ایک صورت تو یہ ہے کہ پڑوس میں کوئی شخص بیمار تھا میں نے اس کی تیمار داری نہیں کی اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ جان بہ لب تھا مجھ سے کہا گیا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے آپ گاڑی نکالیئے اسے ہسپتال لیکر جانا ہے میں نے کوئی بہانہ کردیا اور وہ شخص مرگیا یہ وہ گناہ ہے جو پہلے گناہ سے بہت بڑا ہے۔ اسی پر آپ قیاس کرتے چلے جایئے کہ یہ سارے گناہ کوتاہی عمل کا نتیجہ ہیں لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے یکساں نہیں اس لیے ان کو گناہ صغیرہ اور گناہ کبیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تیسری چیز جس کو حرام کیا گیا ہے وہ ہے اَلْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ اس کا معنی ہے تعدی اور سرکشی۔ یعنی اللہ نے ایک مومن کی زندگی میں حدود کھینچ دی ہیں کہ تم ان حدود سے آگے نہیں بڑھ سکتے وہ خالق کائنات کا ممنوعہ علاقہ ہے مثلاً تم ہر چیز کھا سکتے ہو مگر حرام چیز نہیں کھا سکتے یہ تمہارے کھانے پینے کے ذوق کی آخری حد ہے اس سے آگے نہ بڑھنا۔ یہی حال تمام احکام شریعت کا ہے کوئی آدمی یا کوئی قوم اگر حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حد سے تجاوز کر رہی ہے۔ انھوں نے ایمان لا کر اللہ کی اطاعت اور بندگی کا عہد کیا تھا وہ نافرمانی کی صورت میں اس عہد کو توڑ کر حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی قوم صرف محرمات شرعیہ کا ارتکاب ہی نہ کرے بلکہ قانون سازی کرتے ہوئے سراسر اللہ کے قانون اور احکام کو نظر انداز کر دے یا پالیسی بناتے ہوئے اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے قطعاً اس بات کی پرواہ نہ کرے کہ اس بارے میں اللہ کے احکام کیا ہیں ؟ یہ سرکشی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بغی کا ارتکاب کرنے والا کبھی تو محض ایک بےعملی کا ارتکاب کرتا ہے اور کبھی وہ بغاوت کا ارتکاب کرتا ہے جب وہ بندگی کی حد سے نکل کے اللہ کے ملک میں خود مختارانہ رویہ اختیار کرتا ہے یا خدا کی خدائی میں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجانے لگتا ہے اور اسی طرح وہ شخص بھی جو بندگان خدا کے حقوق پر دست درازی کرنے لگتا ہے۔ البَغْیَ کے ساتھ جو بَغَیْرِ الْحَقِّ کی قید لگائی گئی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی تعدی اور سرکشی حق بھی ہوتی ہے بلکہ یہ قید صرف اس جرم کی شناعت اور گھنائونے پن کو نمایاں کرنے کے لیے ہے جیسا قرآن پاک میں یہود کے جرائم کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نبیوں کو بغیر الحق قتل کرتے تھے حالانکہ کسی نبی کو قتل کرنا حق نہیں ہوسکتا۔ مراد یہ ہے کہ وہ ایک بہت برے فعل کا ارتکاب کرتے تھے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی اور اللہ کے مقابلے میں اپنی بندگی کی حدود سے تجاوز یہ بَغَیْرِ الْحَقِّ کے سوا اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا یعنی ایک بندے کا دوسرے بندے سے معاملہ چاہے کتنا بھی غلط ہو اس بات کا بہرحال امکان رہتا ہے کہ شاید اس میں حق کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو لیکن جہاں تک اللہ کے مقابلے میں سرکشی اور تعدی کا تعلق ہے اس میں تو ایسے کسی امکان کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا اس لیے اسے بَغَیْرِ الْحَقِّ سے تعبیر کیا گیا۔ چوتھی چیز جو اس آیت کریمہ میں حرام قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک ٹھہرائو۔ شریک ٹھہرانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی ذات اس کی صفات اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں کسی دوسرے کو شریک کردیا جائے یعنی یہ سمجھا جائے کہ جیسی اللہ کی ذات ہے ویسا کوئی اور بھی ہے یا جیسے اس کی خصوصی صفات ہیں ایسی ہی صفات کسی اور میں بھی ہیں یا جیسے اس کے حقوق اس کے بندوں پر ہیں ایسے ہی کسی اور کے حقوق بھی ہیں اور یا جیسے وہ اختیارات رکھتا ہے ایسے ہی اختیارات کسی اور کو بھی حاصل ہیں۔ ان میں سے کوئی بات بھی اختیار کی جائے وہ اللہ کے ساتھ شرک ہے۔ اللہ کی ذات میں شرک تو بہت کم ہوا ہے البتہ باقی تینوں طرح کے شرک ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ امت مسلمہ جو توحید کی قیامت تک کے لیے علمبردار بنائی گئی ہے اس کا بھی حال یہ ہے کہ اللہ کا یہ حق کہ وہ اپنے بندوں پر مطلق العنان حاکم ہے اور غیر مشروط اطاعت اس کا حق ہے اسی طرح اختیارات اور قدرتوں میں اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ جس طرح اس کے سوا کسی اور کو سجدہ روا نہیں اسی طرح اس کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت اور کسی اور کی محبت سے دل کو آباد کرنا اور کسی اور کی قدرت کو بےپناہ سمجھ کر مرعوب ہوجانا اور بجائے اس کو سہاراجاننے کے کسی اور قوت کو اپنا سہارا سمجھ لینا اور بجائے اس کے قانون کو اپنا قانون بنانے کے کسی اور وضعی قانون کو اپنا قانون بنانا اور اپنے ملک میں اس کو نافذ کردینا یہ شرک کی چند در چند صورتیں ہیں جس کا آج بھی پورے عالم اسلام میں ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے امت مسلمہ تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ ساتھ ہی اس کے یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو جس کی اللہ نے کوئی سند اور کوئی دلیل نہیں اتاری۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جہاں تک اللہ کو ماننے کا تعلق ہے وہ تو عقل و فطرت کا ایک بدیہی تقاضہ ہے اور مشرک بھی اللہ کو مانتا ہے لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اللہ کا کوئی شریک بھی ہے تو اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور دلیل بھی ایسی جو برہان یعنی ایک حجت قاطع کی حیثیت رکھتی ہو۔ اس لیے کہ خدا کی خدائی میں یوں ہی کسی کو جوڑ دینا سارے نظام عقل و فطرت اور پورے نظام عدل و قسط کو درہم برہم کردینا ہے۔ اتنی بڑی بات بغیر اس کے مان لینے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ اللہ نے اس کی کوئی نقلی ‘ عقلی یا فطری دلیل اتاری ہو۔ پانچویں چیز جو حرام کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جو تم نہیں جانتے ہو یعنی تم اپنی مرضی سے حلت و حرمت کا فیصلہ کرنے لگو اور اپنی خواہشوں کی پیروی میں بدعتیں ایجاد کر ڈالو اور ہو سکے تو پوری نئی شریعت تصنیف کر ڈالو لیکن دعویٰ یہ کرو کہ یہ سب کچھ ہمیں خدا نے حکم دیا ہے حالانکہ تم اللہ کی جانب سے ایسا کوئی علم نہیں رکھتے کیونکہ مشرکین مکہ کے پاس کسی شریعت کا علم محفوظ نہیں تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ لوگ مانتے تھے لیکن ان پر جو صحیفے نازل ہوئے ان میں سے کچھ بھی ان کے پاس موجود نہیں تھا اس کے باوجود یہ جتنے مشرکانہ اعمال کرتے تھے سب کی نسبت اللہ کی طرف کرتے تھے جس طرح گزشتہ رکوع میں ہم نے پڑھا ہے کہ وہ اپنی تمام بداعمالیوں کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے تو یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر ان سے کہو کہ اللہ نے جو چزیں تم پر حرام کی ہیں ان میں سے یہ ایک بات بھی ہے کہ تم اللہ پر اس طرح جھوٹ باندھنے لگو اور جھوٹی باتیں اس کی طرف منسوب کرنے لگو۔ اگلی آیت کریمہ میں وارننگ دی جا رہی ہے کہ آج جبکہ اللہ کے آخری نبی تم میں آچکے ہیں اور قرآن کریم نازل ہو رہا ہے اور ایک ایک بات تم پر کھول کھول کر بیان کی جا رہی ہے لیکن تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر سوچ لو کہ تمہارا انجام آخر کیا ہوگا ؟
Top