Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 34
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلِكُلِّ اُمَّةٍ : اور ہر امت کے لیے اَجَلٌ : ایک مدت مقرر فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آئے گا اَجَلُهُمْ : ان کا مقررہ وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : آگے بڑھ سکیں گے
ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے۔ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ۔ (الاعراف : 24) ” ہر قوم کے لیے مہلت کی ایک مدت مقرر ہے۔ پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہوتی “۔ اس رکوع کا آغاز مشرکینِ مکہ پر عتاب سے ہوا ہے ان سے برہمی کے انداز میں ایک سوال کیا گیا ہے کہ اس سوال کے جواب پر تمہاری پوری زندگی کا مدار ہے اور پھر ان کی کوتاہیوں اور بداعمالیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے صحیح راستہ ان پر واضح کیا گیا ہے اب انھیں آخری وارننگ دی جا رہی ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ جس طرح تم اب تک اللہ کی گرفت سے بچے ہوئے ہو اسی طرح بچے رہو گے۔ یہ فی الحقیقت تمہیں ایک مہلت عمل دی گئی ہے لیکن قوموں کو دی جانے والی مہلت ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی جس طرح افراد کے لیے زندگی کی ایک مدت مقرر ہے انھیں بہرصورت اس مدت کے بعد موت کا شکار ہونا ہے اسی طرح قوموں کے لیے بھی مہلت عمل کی ایک مدت مقرر ہے جب قومیں اپنی اس مدت تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر قدرت انھیں مٹا دیتی ہے اور ان کی جگہ دوسری قومیں لائی جاتی ہیں اور انھیں اس دارالامتحان میں امتحان کے لیے بٹھا دیا جاتا ہے۔ رہی یہ بات کہ قوموں کے لیے مقررہ مہلت عمل کیا ہے تو اس کا تعین مہینوں اور سالوں سے نہیں ہوتا جس طرح ہر فرد کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ سالوں کے اعتبار سے ایک عمر گزارتا ہے لیکن قومیں بعض دفعہ صدیوں تک بھی زندہ رہتی ہیں ان کا دارومدار ان کی ایمانی اور اخلاقی زندگی پر ہوتا ہے ان کے لیے ایک اخلاقی حد مقرر کردی جاتی ہے جس کا علم سراسر اللہ کو ہوتا ہے جب تک وہ اپنی بداعمالیوں کے باعث اس اخلاقی حد سے نیچے نہیں گرتیں اس وقت تک انھیں اس میدان عمل سے واپس نہیں بلایا جاتا اور انھیں برابر موقع دیا جاتا ہے کہ اب بھی سنبھلنا چاہو تو سنبھل جاؤ۔ کبھی سمجھانے والے ان کی طرف بھیجے جاتے ہیں ‘ کبھی مختلف حوادث کی صورت میں انھیں تنبیہات کی جاتی ہیں ‘ کبھی باہر کی قومیں ان پر چڑھ دوڑتی ہیں اور اس طرح ان کو سنبھلنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن جب وہ تنزل کے گڑھے میں گرتی چلی جاتی ہیں اور ان کے خیر کے سوتے آہستہ آہستہ خشک ہونے لگتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب ان پر نازل ہوتا ہے اور وہ تباہ کردی جاتی ہیں اس لیے کسی بھی قوم کو اگر یہ اندازہ کرنا ہو کہ میری مہلت عمل باقی ہے یا قریب الاختتام ہے تو اسے اپنی ایمانی اور اخلاقی حالت کا جائزہ لینا چاہیے۔ قرآن کریم نے مختلف قوموں کی مثالیں دے کر ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد دی ہے البتہ ایک بات بار بار واضح کی گئی ہے کہ کوئی قوم بھی حادثاتی طور پر نہیں مرتی کیونکہ یہ کائنات اللہ کے زیر نگرانی محو سفر ہے یہاں از خود کوئی حادثہ نہیں ہوتا۔ جب بھی کوئی قوم اللہ کی گرفت میں آتی ہے تو اللہ فرماتا ہے کہ ہم اسے اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑتے ہیں اس لیے جس قوم کو اپنی زندگی اور اپنی بہتری مقصود ہو اسے اپنی اخلاقی حالت کے بارے میں غیر جانبدارانہ جائزہ لینا چاہیے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں قوم کی اخلاقی حالت کس سطح پر ہے۔ قوم کے حکمران ‘ انتظامیہ ‘ سیاست دان ‘ تعلیم یافتہ طبقہ ‘ مذہبی علماء ‘ تاجر ‘ کاشتکار ‘ ملوں اور کارخانوں کے مزدور اور تعلیمی اداروں سے متعلق لوگ ایک ایک شعبہ زندگی کو گہری نظر سے دیکھا جائے ‘ ان میں اخلاقی توانائی باقی ہے یا دم توڑ رہی ہے اس سے اندازہ لگانے میں دشواری نہیں ہوتی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یہاں بھی مشرکین مکہ سے صاف فرمایا جا جا رہا ہے کہ تم ہمیشہ باقی نہیں رہو گے ہر قوم کی طرح تمہاری بھی ایک مہلت عمل ہے اور ہم نے اس کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے تم اگر یہ چاہتے ہو کہ وہ مدت تمہاری دراز ہوتی جائے تو پھر اچھی طرح اپنا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ اللہ کا نبی تمہیں حق کی طرف بلا رہا ہے اس کی بات کو قبول کرو اور اس کی پیروی کرتے ہوئے اپنی زندگی بچا لو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو یاد رکھو جب وہ مقررہ مدت یعنی اجل آجائے گی تو پھر نہ وہ آگے ہوگی نہ پیچھے ہوگی یعنی پھر تمہیں ایک لمحہ بھی سنبھلنے کے لیے نہیں ملے گا اور یہ بات تم سے کوئی پہلی دفعہ نہیں کہی جا رہی جب ہم نے تمہارے والدین یعنی حضرت آدم اور حضرت حوا (علیہما السلام) کو دنیا میں بھیجا تھا تو ہم نے یہی بات ان سے بھی کہی تھی آج پھر تم سے کہہ رہے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس پر عمل کرنے سے تم ایک آبرو مندانہ زندگی گزار سکتے ہو
Top