Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ : فرما دیں مَنْ : کس حَرَّمَ : حرام کیا زِيْنَةَ اللّٰهِ : اللہ کی زینت الَّتِيْٓ : جو کہ اَخْرَجَ : اس نے نکالی لِعِبَادِهٖ : اپنے بندوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتِ : اور پاک مِنَ : سے الرِّزْقِ : رزق قُلْ : فرمادیں هِىَ : یہ لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي الْحَيٰوةِ : زندگی میں الدُّنْيَا : دنیا خَالِصَةً : خالص طور پر يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن كَذٰلِكَ : اسی طرح نُفَصِّلُ : ہم کھول کر بیان کرتے ہیں الْاٰيٰتِ : آیتیں لِقَوْمٍ : گروہ کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : وہ جانتے ہیں
(اے پیغمبر ! ) ان سے کہئے کہ اللہ کی اس زینت کو جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے ‘ کس نے حرام ٹھہرایا اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو ؟ کہہ دو کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہے اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کر رہے ‘ ہیں ان لوگوں کے لیے ‘ جو علم رکھنے والے ہیں۔
مشرکینِ عرب نے بالعموم اور مشرکینِ مکہ نے بالخصوص عبادت کے تصور اور عبادت کی ادائیگی کے حوالے سے جو خلط مبحث پیدا کر رکھا تھا اور جو انھوں نے اپنی طرف سے عجیب و غریب قسم کی بدعات ایجاد کرلی تھیں اور جسے وہ منسوب بھی اللہ کی طرف کرتے تھے۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس پر سخت گرفت فرماتے ہوئے نہایت محکم تنقید فرمائی ہے لیکن اگلی آنے والی آیات میں ایک دوسرے پہلو سے عتاب کے انداز میں اسی بحث کی تکمیل فرمائی گئی ہے۔ گویا کے ان آیات کی حیثیت تتمہ اور استدراک کی ہے اور پھر عتاب کے ساتھ ساتھ ایک محکم دلیل ارشاد فرمائی گئی ہے اور انہی کے رویے کو ان کے سامنے اس طرح واضح کیا گیا ہے جس سے ہر اس آدمی کو شرم محسوس کرنی چاہیے جس کے اندر کچھ نہ کچھ اخلاقی حس اور شعور کی رمق باقی ہو۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (الاعراف : 23) ”(اے پیغمبر ! ) ان سے کہئے کہ اللہ کی اس زینت کو جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے ‘ کس نے حرام ٹھہرایا اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو ؟ کہہ دو کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہے اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کر رہے ‘ ہیں ان لوگوں کے لیے ‘ جو علم رکھنے والے ہیں “۔ اللہ کی نعمتوں پر پابندی اللہ کے سوا کوئی نہیں لگاسکتا غور فرمایئے ! اس آیت کریمہ کے پہلے جملے میں مشرکین سے ایک سوال کیا جا رہا ہے لیکن اس کا انداز عتاب کا ہے گویا نہایت برہمی سے ان سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ تم نے حج اور طواف کے دوران لباس کو جس طرح اپنے اوپر ممنوع قرار دے لیا ہے اور اللہ کی پاکیزہ نعمتوں کو تم نے دنیا داری جان کر حتی الامکان اس سے جو گریز کی عادت بنا لی ہے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ لباس جو انسان کے لیے ایک زینت ہے اسے اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہوئے پہننا اس لیے حرام ہے کہ یہ تو ایک عاشقانہ عبادت ہے اس میں کسی طرح بھی انسانی جسم پر دنیا کی آلائش نہیں ہونی چاہیے اور اسی طرح تم امکانی حد تک کھانے سے بچتے ہو یہ سمجھ کر کہ عبادت میں کم سے کم کھانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دنیا کی ان چیزوں کا اثر انسان پر کم سے کم پڑے۔ بتائو تمہارے لیے ان چیزوں کو حرام کس نے کیا ؟ اللہ نے بہرصورت ان چیزوں کو حرام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے یا تو ان چیزوں کو خود حرام کیا ہے اور یا تمہارے نام نہاد دیوتائوں اور معبودوں نے کیا ہوگا۔ کوئی سی صورت بھی ہو اللہ کی پیدا کردہ نعمتوں کو حلال یا حرام کرنے کا حق نہ تمہیں ہے اور نہ انھیں جن کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے کیونکہ کسی بھی نعمت میں تبدیلی یا پابندی کا حق صرف اسے ہوسکتا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور جس نے اسے تمہیں بخشا ہے اور جو ان نعمتوں کو محض عطا و بخشش کے طور پر حاصل کر کے فائدہ اٹھا رہا ہے اسے تو بہرحال اس کا حق نہیں دیا جاسکتا تو پھر تم نے ایک ایسی چیز جس کا حق سراسر اللہ کی ذات کو تھا اسے تم نے ازخود کیسے اختیار کرلیا اس میں غور کیجیے پہلے جملے میں سوال کی صورت میں عتاب کیا جا رہا ہے اور دوسرے جملے میں اس کی دلیل بیان فرمائی جا رہی ہے کہ ان ساری نعمتوں کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جن کے لیے یہ نعمتیں پیدا کی گئی ہیں انہی کو ان کے استعمال سے روکا جا رہا ہے اور مزید عجیب بات یہ ہے کہ جس نے ان نعمتوں کو پیدا کیا ہے اس سے بالا بالا ہی یہ حرکتیں ہو رہی ہیں۔ اس سے بڑا جرم قانونی اور اخلاقی دونوں حوالوں سے کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ بادشاہ کی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے خود بادشاہ بننے کی کوشش کی جائے یا اس کے نام پر جعلی احکامات جاری کیے جائیں یہ دونوں صورتیں صرف دھوکہ دہی کی واردات نہیں بلکہ ایک باغیانہ روش کی عکاسی کرتی ہیں اس لیے مشرکین سے پوچھا جا رہا ہے کہ اس کا جواب دو کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی اور اگر آج تم اس کا جواب نہیں دیتے ہو تو کل کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ تمہارے پاس نہ آج اس کا کوئی جواب ہے نہ کل کو ہوگا پھر سوچ لو اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس کے بعد مزید فرمایا کہ نادانو جن نعمتوں پر تم پابندی لگا رہے ہو اور انھیں اپنے اوپر ممنوع قرار دے رہے ہو تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ اللہ نے ان نعمتوں کو اپنے بندوں ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب ایسے لوگ یا ایسے مذہب کے حاملین جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں اور اس کے عطا کردہ لباس کو اللہ کی عبادت کرتے ہوئے استعمال کرنا دنیا داری اور گناہ ہے اور وہ اس کو مایا کا جال قرار دے کر اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ نہ صرف اللہ کے دین سے باغی ہیں بلکہ وہ فطرت سے بھی بغاوت کا ارتکاب کر رہے ہیں کیونکہ اچھے سے اچھا لباس اور بہتر سے بہتر نعمت کا حصول یہ تو انسان کی فطرت کا اقتضا ہے جو مذہب اس پر پابندی لگاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف اللہ کے دین سے بلکہ اپنی فطرت سے بھی جنگ کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ایک فطری مذہب ہونے کے جہاں اور بہت سارے دلائل ہیں ان میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کے فطری تقاضوں کو صحیح راستے پر ڈالا اور اس کو صحیح طریقے سے ارتقاء پذیر ہونے کا موقع دیا ہے اور ہرگز اس پر کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی جس سے اس کی فطری صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہو اور جہاں تک اسلام کے نظام اخلاق و معاشرت کا تعلق ہے دنیا کی ان تمام پاکیزہ نعمتوں کو اس طرح اس میں سمو دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قوت کا سامان بن گئی ہیں یہ صحیح ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے طریقے پر چلنے والے اللہ کے نیک بندوں نے دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے کبھی جی نہیں لگایا انھوں نے ہمیشہ اس کو ضروریات کا درجہ دیا ‘ دل کو ان کی محبت سے ہمیشہ آزاد رکھا اور زندگی کی ساری توجہ اور ساری قوتیں انھوں نے مقاصد زندگی پر صرف کیں اور اپنی زندگی کو ہمیشہ سادگی کا نمونہ بنائے رکھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ نے ان کو خوشحالی عطا فرمائی تو انھوں نے اللہ کی نعمت کے شکر کے طور پر اچھا کھایا اور پہنا اور کبھی محض اس لیے ان سے اعراض نہیں برتا کہ یہ چیزیں روحانیت کے ارتقاء میں رکاوٹ بنتی ہیں البتہ یہ کوشش ضرور کی کہ ان چیزوں کو نہ مقاصد زندگی بننے دیا جائے اور نہ یہ عزت کا معیار اور علامت ٹھہریں تاکہ غریبوں کو سر اٹھا کر اسی طرح چلنے کا موقع نصیب رہے جس طرح اہل دولت و ثروت چلتے ہیں جب غربا یہ دیکھیں کہ ہمارا سربراہ مملکت اور ہمارا حکمران نہایت سادہ کھاتا اور پہنتا ہے تو پھر وہ کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے لیکن انھوں نے کبھی کبھی اچھا کھایا بھی اور پہنا بھی تاکہ لوگ اس سے غلط تأثر لے کر وہ راستہ اختیار نہ کرلیں جس کا شکار غلط مذاہب ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ سادہ لباس پہنا۔ کبھی ایسا بھی دیکھا گیا کہ آپ کے لباس میں پیوند لگے ہوئے ہیں اور ہمیشہ روکھا پھیکا کھایا اور بہت کم ایسا ہوا کہ آپ نے دو وقت کھانا تناول فرمایا ہو لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ اللہ نے اگر عطا کیا تو آپ نے قیمتی لباس بھی پہنا اور گوشت بھی کھایا۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کو چودھویں رات کے چاند کی روشنی میں مسجد نبوی کے صحن میں قیمتی یمنی حلہ پہنے ہوئے تشریف فرما دیکھا تو آپ کے حسن کے جوبن کا عالم یہ تھا کہ چاند کی روشنی آپ کے چہرے کی روشنی کے سامنے مدہم پڑگئی تھی۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ سے ملنے گھر پر حاضر ہوا ‘ آپ باہر تشریف لائے تو جو چادر آپ کے جسم مبارک پر تھی اس کی قیمت کم از کم ایک ہزار درہم تھی۔ اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اللہ عطا کرے تو یہ اس کی نعمتیں ہیں ‘ نعمت سمجھ کر اظہار شکر کے لیے انھیں استعمال کرنا چاہیے۔ چناچہ ہمارے وہ بڑے لوگ جنھیں ہم اپنی دینی زندگی میں راہنما اور مقتدا کا درجہ دیتے ہیں ان میں امام ابوحنیفہ ( رح) کا نام بہت وقیع ہے۔ اللہ نے انھیں علم و عمل کے ساتھ ساتھ خوشحالی سے بھی نوازا تھا۔ پورے ملک میں آپ کی تجارت پھیلی ہوئی تھی ‘ کروڑوں کا کاروبار تھا اور اسی کے شکر کے طور پر آپ کا حال یہ تھا کہ بعض دفعہ آپ کی اوڑھی ہوئی چادر کی قیمت چار سو گنی تک پہنچتی تھی لیکن اس خوشحالی اور دولت کا اثر آپ کے دل پر نہیں تھا۔ راتوں کی عبادت ‘ علمی معمولات ‘ فقراء کی سرپرستی ‘ اہل علم کی درپردہ اعانت ‘ اہل دنیا سے گریز ‘ مقتدر لوگوں کے سامنے استغنا اور خودداری اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ نعمتیں اس لیے نہیں دی گئیں کہ تم اس کو دنیا یا دنیاداری کی علامت سمجھ کر اسے گندگی سمجھو بلکہ اسے اللہ کی نعمت جان کر اللہ کی ہدایت کے مطابق انھیں استعمال کرو اور اس پر اس کا شکر بجا لائومزید فرمایا کہ اے پیغمبر ان سے یہ بات کہہ دو کہ امر واقعہ یہ ہے کہ جن نعمتوں کو تم دنیا داری سمجھ کر یا آلائش دنیا جان کر روحانی ارتقاء کے خلاف سمجھتے ہو وہ تو اصلاً اللہ نے صاحب ایمان لوگوں کے لیے ہی عطا فرمائی ہیں۔ کافروں کو تو صرف ان میں شامل فرمایا گیا ہے کیونکہ زندگی گزارنے کے لیے انھیں ان نعمتوں کی بھی ضرورت ہے اگر انھیں غذائی ضرورتیں فراہم نہ کی جاتیں اور زندگی کے اور اسباب مہیا نہ کیے جاتے تو آخر وہ دنیا میں زندہ کیسے رہتے اور جس امتحان میں انھیں ڈالا گیا ہے وہ اس امتحان کا سامنا کیسے کرتے۔ البتہ ! یہ بات ضرور سمجھنے کی ہے کہ دنیا میں بعض دفعہ کافروں کو مسلمانوں سے زیادہ نعمتیں کیوں دی جاتی ہیں جبکہ یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ نعمتیں حقیقت میں تو مسلمانوں اور مومنوں ہی کا حصہ ہیں ‘ کافر تو محض ان کی وجہ سے یہ نعمتیں پا رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ نعمتیں مومنوں ہی کا حصہ ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہے اس لیے کہ دنیا کی ہر نعمت اللہ کی عطا و بخشش ہے وہی ان نعمتوں کا خالق ہے اور وہی ان کا عطا کرنے والا ہے اور دنیا کا قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی عطا کرنے والا ہمیشہ اپنے وفاداروں کے علاوہ کسی اور پر اپنی بخششوں کی بارش نہیں کیا کرتاکیون کہ نمک صرف نمک حلالوں کا حصہ ہوتا ہے جو نمک حرام ہوتے ہیں وہ نعمتوں کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہاں پھر کافروں کو کیوں دیا جا رہا ہے بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں سے زیادہ دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا موجودہ انتظام آزمائش اور مہلت کے اصول پر چل رہا ہے۔ یہاں نعمتیں اس لیے نہیں دی جاتیں کہ وہ کسی کا حق ہیں بلکہ اس لیے دی جاتی ہیں تاکہ آزمائش کی جائے کہ جس کو دیا جا رہا ہے وہ اس پر شکر ادا کرتا ہے یا کفرانِ نعمت کرتا ہے۔ کافروں کو زیادہ سے زیادہ عطا فرما کر زیادہ سے زیادہ امتحان کا سامان کیا جاتا ہے اس لیے کہ کسی کو زیادہ ملنا اس کے زیادہ امتحان کی دلیل ہوتی ہے جسے چھوٹا منصب دیا جاتا ہے اس کی آزمائش بھی چھوٹی ہوتی ہے اور جسے بڑا منصب دیا جاتا ہے اور بڑے مرتبے سے نوازا جاتا ہے اس کی آزمائش بھی اسی تناسب سے ہوتی ہے یہی وہ عطا و بخشش ہے جس کے حوالے سے قیامت میں کافروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اللہ کی بیشمار نعمتیں استعمال کیں ‘ بتائو ان نعمتوں کے دینے والے کا حق کیا ادا کیا اسی پر وہ پکڑے جائیں گے اور اسی حوالے سے ان کی سزا میں کمی بیشی ہوگی۔ مزید یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمانوں کو بالعموم کافروں سے کم دینا ایک طرف ان پر اللہ کا یہ احسان ہے اور دوسری طرف ان کے لیے دو گونہ آزمائش ہے۔ احسان ان معنوں میں ہے کہ جسے جتنی نعمتیں ملیں گی اتنا ہی زیادہ اسے حساب دینا ہوگا اور جس کو کم نعمتیں ملیں گی اس کا حساب بھی مختصر ہوگا۔ مسلمانوں سے اللہ چونکہ ہلکا حساب لینا چاہتا ہے اور ان پر اللہ کو آسانی مطلوب ہے اس لیے وہ انھیں کسی بڑی مشقت میں ڈالنا پسند نہیں کرتا البتہ یہ اپنی اپنی ہمت ہے کہ بعض ڈوبنے والے پایاب پانی میں بھی ڈوب جاتے ہیں اور دو گونہ آزمائش اس طرح سے ہے کہ کسی کو نعمت کا کم ملنا یہ بھی ایک آزمائش ہے کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کبھی کسی سے چھین کر آزماتا ہے جسے دیتا ہے اس کے بارے میں تو یہ دیکھتا ہے کہ یہ شکر ادا کرتا ہے یا نہیں اور جسے نہیں دیتا یا کم دیتا ہے اس کی یہ آزمائش کرتا ہے کہ وہ صبر کرتا ہے یا نہیں ؟ کیا وہ اللہ کے بارے میں شکایت کا دفتر کھول کر تو نہیں بیٹھ جاتا اور دوسری آزمائش یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت وہ دنیا اور دولت دنیا نہیں بلکہ ایمان اور حسن عمل ہے جسے اللہ نے ایمان کی دولت دے دی اور اپنے راستے پر چلنے کی توفیق بخشی ‘ بیشک اسے دنیا کم ملی ہو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ نے اس پر نظر کرم فرمائی ہے اور اسے وہ چیز عطا فرمائی ہے جو اسکی نگاہوں میں سب سے گراں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک آدمی گناہوں کا بہت بڑا ذخیرہ لے کر اللہ کے سامنے پیش ہوگا اور وہ یہ دیکھ کر سہم سہم جائے گا کہ یا اللہ اب میرا کیا بنے گا کہ اچانک اس کے ترازو کے پلڑے میں ایک عمل لا کر رکھا جائے گا جس کے نتیجے میں گناہوں کا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا۔ یہ شخص حیران ہو کر دیکھے گا کہ میرے پاس ان گناہوں کے مقابلے میں کوئی ایسا عمل نہیں تھا جس سے میرا عمل کا پلڑا جھک سکتا یہ کیا چیز ہے جس نے مجھے مالا مال کردیا ہے تو اسے بتایا جائے گا کہ یہ وہ کلمہ طیبہ ہے جسے پڑھ کر تم ایمان لائے تھے۔ اس سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ اللہ کی نگاہ میں ایمان اور حسن عمل کتنی بڑی دولت ہے اگر ایک مسلمان یا امت مسلمہ اس بڑی دولت کو رکھتے ہوئے بھی ان لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھے جو ایمان و عمل کے لحاظ سے بیشک مفلس ہوں لیکن دولت کی ان کے یہاں ریل پیل ہو اور انھیں دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر بھر آئے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ایمان و عمل جیسی نعمت کا حق نہیں پہچانا۔ حالانکہ دنیا اور دین کا اور ایمان اور دولت دنیا کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔ ایمان اسے ملتا ہے جس پر اللہ کی خصوصی نگاہ ہوتی ہے اور دنیا تو ہر ایک کو مل جاتی ہے جو اس کے لیے کوشش کرتا ہے یا جسے آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے اس لیے حضور نے فرمایا تھا کہ ” اگر پوری دنیا کی قدر و قیمت اللہ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو کبھی پانی کا گھونٹ تک نہ دیتا “۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی ساری پیدا کردہ نعمتیں حقیقت میں تو اہل ایمان ہی کا حصہ ہیں البتہ کافروں کو محض آزمائش کے لیے اس میں شامل کرلیا گیا ہے اور جہاں تک آخرت کا تعلق ہے اس میں تو یہ ساری نعمتیں اہل ایمان ہی کا مقدر ہوں گی۔ آخرت میں کافر کو سوائے نار جہنم کے اور کچھ نہیں ملے گا کیونکہ دنیا میں انھوں نے جو رفاہی کام کیے تھے رزق کی صورت میں اس کا بدلہ ان کو دے دیا گیا لیکن اس کی بےبہا نعمتوں کا چونکہ انھوں نے حق ادا نہیں کیا اور اللہ کی ابدی حیثیت کو انھوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اس لیے انھیں ہمیشہ کے عذاب کی سزا دی جائے گی اور اہل ایمان نے چونکہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی اور انھوں نے دنیا کی زندگی آخرت کی تیاری اور اس کے حصول میں صرف کردی اس لیے اللہ کی ساری نعمتیں قیامت میں ان کا حصہ ہوں گی۔ آیت کے آخر حصے میں فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارا تم پر بےپایاں احسان ہے کہ ہم تم پر اپنے احکام اور اپنی آیات کی حکمتیں کس قدر تفصیل سے بیان کر رہے ہیں۔ ان گزشتہ آیات ہی کو دیکھ لیجیے کہ جن باتوں میں اس دور کا انسان بری طرح الجھا ہوا تھا اللہ نے کس طرح مسلمانوں کے لیے ان کو آسان فرما دیا اور ایسی حکمتیں جن سے قوموں کی قومیں خالی ہوچکی تھیں۔ بےساختہ ان کی چابیاں مسلمانوں کو عطا کردی گئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا کہ علم و حکمت کا یہ سرمایہ صرف ان لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے جو علم رکھتے ہیں یا وہ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یعلمون فعل اور ارادہ فعل دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ یہاں دونوں مراد ہوں کہ جو جانتے ہیں وہی ان حکمتوں کے قدردان ہوں گے اور یا یہ نعمتیں ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوں گی جو جاننا چاہیں گے اور جو علم کے پیاسے ہوں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کے رویے کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں اس طرح شرم دلائی جا رہی ہے جس سے ایک بےساختہ دلیل کی صورت بھی پیدا ہوگئی ہے اور ایک بےساختہ تأثر بھی اس سے ابھر رہا ہے۔
Top