Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ١ؕ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
قُلْ
: فرما دیں
مَنْ
: کس
حَرَّمَ
: حرام کیا
زِيْنَةَ اللّٰهِ
: اللہ کی زینت
الَّتِيْٓ
: جو کہ
اَخْرَجَ
: اس نے نکالی
لِعِبَادِهٖ
: اپنے بندوں کے لیے
وَالطَّيِّبٰتِ
: اور پاک
مِنَ
: سے
الرِّزْقِ
: رزق
قُلْ
: فرمادیں
هِىَ
: یہ
لِلَّذِيْنَ
: ان لوگوں کے لیے جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
فِي الْحَيٰوةِ
: زندگی میں
الدُّنْيَا
: دنیا
خَالِصَةً
: خالص طور پر
يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ
: قیامت کے دن
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
نُفَصِّلُ
: ہم کھول کر بیان کرتے ہیں
الْاٰيٰتِ
: آیتیں
لِقَوْمٍ
: گروہ کے لیے
يَّعْلَمُوْنَ
: وہ جانتے ہیں
(اے پیغمبر ! ) ان سے کہئے کہ اللہ کی اس زینت کو جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے ‘ کس نے حرام ٹھہرایا اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو ؟ کہہ دو کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہے اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کر رہے ‘ ہیں ان لوگوں کے لیے ‘ جو علم رکھنے والے ہیں۔
مشرکینِ عرب نے بالعموم اور مشرکینِ مکہ نے بالخصوص عبادت کے تصور اور عبادت کی ادائیگی کے حوالے سے جو خلط مبحث پیدا کر رکھا تھا اور جو انھوں نے اپنی طرف سے عجیب و غریب قسم کی بدعات ایجاد کرلی تھیں اور جسے وہ منسوب بھی اللہ کی طرف کرتے تھے۔ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس پر سخت گرفت فرماتے ہوئے نہایت محکم تنقید فرمائی ہے لیکن اگلی آنے والی آیات میں ایک دوسرے پہلو سے عتاب کے انداز میں اسی بحث کی تکمیل فرمائی گئی ہے۔ گویا کے ان آیات کی حیثیت تتمہ اور استدراک کی ہے اور پھر عتاب کے ساتھ ساتھ ایک محکم دلیل ارشاد فرمائی گئی ہے اور انہی کے رویے کو ان کے سامنے اس طرح واضح کیا گیا ہے جس سے ہر اس آدمی کو شرم محسوس کرنی چاہیے جس کے اندر کچھ نہ کچھ اخلاقی حس اور شعور کی رمق باقی ہو۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (الاعراف : 23) ”(اے پیغمبر ! ) ان سے کہئے کہ اللہ کی اس زینت کو جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے ‘ کس نے حرام ٹھہرایا اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو ؟ کہہ دو کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہے اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کر رہے ‘ ہیں ان لوگوں کے لیے ‘ جو علم رکھنے والے ہیں “۔ اللہ کی نعمتوں پر پابندی اللہ کے سوا کوئی نہیں لگاسکتا غور فرمایئے ! اس آیت کریمہ کے پہلے جملے میں مشرکین سے ایک سوال کیا جا رہا ہے لیکن اس کا انداز عتاب کا ہے گویا نہایت برہمی سے ان سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ تم نے حج اور طواف کے دوران لباس کو جس طرح اپنے اوپر ممنوع قرار دے لیا ہے اور اللہ کی پاکیزہ نعمتوں کو تم نے دنیا داری جان کر حتی الامکان اس سے جو گریز کی عادت بنا لی ہے اور تم یہ سمجھتے ہو کہ لباس جو انسان کے لیے ایک زینت ہے اسے اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہوئے پہننا اس لیے حرام ہے کہ یہ تو ایک عاشقانہ عبادت ہے اس میں کسی طرح بھی انسانی جسم پر دنیا کی آلائش نہیں ہونی چاہیے اور اسی طرح تم امکانی حد تک کھانے سے بچتے ہو یہ سمجھ کر کہ عبادت میں کم سے کم کھانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ دنیا کی ان چیزوں کا اثر انسان پر کم سے کم پڑے۔ بتائو تمہارے لیے ان چیزوں کو حرام کس نے کیا ؟ اللہ نے بہرصورت ان چیزوں کو حرام نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے یا تو ان چیزوں کو خود حرام کیا ہے اور یا تمہارے نام نہاد دیوتائوں اور معبودوں نے کیا ہوگا۔ کوئی سی صورت بھی ہو اللہ کی پیدا کردہ نعمتوں کو حلال یا حرام کرنے کا حق نہ تمہیں ہے اور نہ انھیں جن کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے کیونکہ کسی بھی نعمت میں تبدیلی یا پابندی کا حق صرف اسے ہوسکتا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور جس نے اسے تمہیں بخشا ہے اور جو ان نعمتوں کو محض عطا و بخشش کے طور پر حاصل کر کے فائدہ اٹھا رہا ہے اسے تو بہرحال اس کا حق نہیں دیا جاسکتا تو پھر تم نے ایک ایسی چیز جس کا حق سراسر اللہ کی ذات کو تھا اسے تم نے ازخود کیسے اختیار کرلیا اس میں غور کیجیے پہلے جملے میں سوال کی صورت میں عتاب کیا جا رہا ہے اور دوسرے جملے میں اس کی دلیل بیان فرمائی جا رہی ہے کہ ان ساری نعمتوں کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ جن کے لیے یہ نعمتیں پیدا کی گئی ہیں انہی کو ان کے استعمال سے روکا جا رہا ہے اور مزید عجیب بات یہ ہے کہ جس نے ان نعمتوں کو پیدا کیا ہے اس سے بالا بالا ہی یہ حرکتیں ہو رہی ہیں۔ اس سے بڑا جرم قانونی اور اخلاقی دونوں حوالوں سے کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ بادشاہ کی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے خود بادشاہ بننے کی کوشش کی جائے یا اس کے نام پر جعلی احکامات جاری کیے جائیں یہ دونوں صورتیں صرف دھوکہ دہی کی واردات نہیں بلکہ ایک باغیانہ روش کی عکاسی کرتی ہیں اس لیے مشرکین سے پوچھا جا رہا ہے کہ اس کا جواب دو کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی اور اگر آج تم اس کا جواب نہیں دیتے ہو تو کل کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ تمہارے پاس نہ آج اس کا کوئی جواب ہے نہ کل کو ہوگا پھر سوچ لو اس کا انجام کیا ہوگا۔ اس کے بعد مزید فرمایا کہ نادانو جن نعمتوں پر تم پابندی لگا رہے ہو اور انھیں اپنے اوپر ممنوع قرار دے رہے ہو تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ اللہ نے ان نعمتوں کو اپنے بندوں ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اب ایسے لوگ یا ایسے مذہب کے حاملین جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں اور اس کے عطا کردہ لباس کو اللہ کی عبادت کرتے ہوئے استعمال کرنا دنیا داری اور گناہ ہے اور وہ اس کو مایا کا جال قرار دے کر اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ نہ صرف اللہ کے دین سے باغی ہیں بلکہ وہ فطرت سے بھی بغاوت کا ارتکاب کر رہے ہیں کیونکہ اچھے سے اچھا لباس اور بہتر سے بہتر نعمت کا حصول یہ تو انسان کی فطرت کا اقتضا ہے جو مذہب اس پر پابندی لگاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف اللہ کے دین سے بلکہ اپنی فطرت سے بھی جنگ کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے ایک فطری مذہب ہونے کے جہاں اور بہت سارے دلائل ہیں ان میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کے فطری تقاضوں کو صحیح راستے پر ڈالا اور اس کو صحیح طریقے سے ارتقاء پذیر ہونے کا موقع دیا ہے اور ہرگز اس پر کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی جس سے اس کی فطری صلاحیتوں کو نقصان پہنچتا ہو اور جہاں تک اسلام کے نظام اخلاق و معاشرت کا تعلق ہے دنیا کی ان تمام پاکیزہ نعمتوں کو اس طرح اس میں سمو دیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قوت کا سامان بن گئی ہیں یہ صحیح ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے طریقے پر چلنے والے اللہ کے نیک بندوں نے دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے کبھی جی نہیں لگایا انھوں نے ہمیشہ اس کو ضروریات کا درجہ دیا ‘ دل کو ان کی محبت سے ہمیشہ آزاد رکھا اور زندگی کی ساری توجہ اور ساری قوتیں انھوں نے مقاصد زندگی پر صرف کیں اور اپنی زندگی کو ہمیشہ سادگی کا نمونہ بنائے رکھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ نے ان کو خوشحالی عطا فرمائی تو انھوں نے اللہ کی نعمت کے شکر کے طور پر اچھا کھایا اور پہنا اور کبھی محض اس لیے ان سے اعراض نہیں برتا کہ یہ چیزیں روحانیت کے ارتقاء میں رکاوٹ بنتی ہیں البتہ یہ کوشش ضرور کی کہ ان چیزوں کو نہ مقاصد زندگی بننے دیا جائے اور نہ یہ عزت کا معیار اور علامت ٹھہریں تاکہ غریبوں کو سر اٹھا کر اسی طرح چلنے کا موقع نصیب رہے جس طرح اہل دولت و ثروت چلتے ہیں جب غربا یہ دیکھیں کہ ہمارا سربراہ مملکت اور ہمارا حکمران نہایت سادہ کھاتا اور پہنتا ہے تو پھر وہ کبھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے لیکن انھوں نے کبھی کبھی اچھا کھایا بھی اور پہنا بھی تاکہ لوگ اس سے غلط تأثر لے کر وہ راستہ اختیار نہ کرلیں جس کا شکار غلط مذاہب ہوئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیشہ سادہ لباس پہنا۔ کبھی ایسا بھی دیکھا گیا کہ آپ کے لباس میں پیوند لگے ہوئے ہیں اور ہمیشہ روکھا پھیکا کھایا اور بہت کم ایسا ہوا کہ آپ نے دو وقت کھانا تناول فرمایا ہو لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ اللہ نے اگر عطا کیا تو آپ نے قیمتی لباس بھی پہنا اور گوشت بھی کھایا۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت ﷺ کو چودھویں رات کے چاند کی روشنی میں مسجد نبوی کے صحن میں قیمتی یمنی حلہ پہنے ہوئے تشریف فرما دیکھا تو آپ کے حسن کے جوبن کا عالم یہ تھا کہ چاند کی روشنی آپ کے چہرے کی روشنی کے سامنے مدہم پڑگئی تھی۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ سے ملنے گھر پر حاضر ہوا ‘ آپ باہر تشریف لائے تو جو چادر آپ کے جسم مبارک پر تھی اس کی قیمت کم از کم ایک ہزار درہم تھی۔ اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر اللہ عطا کرے تو یہ اس کی نعمتیں ہیں ‘ نعمت سمجھ کر اظہار شکر کے لیے انھیں استعمال کرنا چاہیے۔ چناچہ ہمارے وہ بڑے لوگ جنھیں ہم اپنی دینی زندگی میں راہنما اور مقتدا کا درجہ دیتے ہیں ان میں امام ابوحنیفہ ( رح) کا نام بہت وقیع ہے۔ اللہ نے انھیں علم و عمل کے ساتھ ساتھ خوشحالی سے بھی نوازا تھا۔ پورے ملک میں آپ کی تجارت پھیلی ہوئی تھی ‘ کروڑوں کا کاروبار تھا اور اسی کے شکر کے طور پر آپ کا حال یہ تھا کہ بعض دفعہ آپ کی اوڑھی ہوئی چادر کی قیمت چار سو گنی تک پہنچتی تھی لیکن اس خوشحالی اور دولت کا اثر آپ کے دل پر نہیں تھا۔ راتوں کی عبادت ‘ علمی معمولات ‘ فقراء کی سرپرستی ‘ اہل علم کی درپردہ اعانت ‘ اہل دنیا سے گریز ‘ مقتدر لوگوں کے سامنے استغنا اور خودداری اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ اس لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ یہ نعمتیں اس لیے نہیں دی گئیں کہ تم اس کو دنیا یا دنیاداری کی علامت سمجھ کر اسے گندگی سمجھو بلکہ اسے اللہ کی نعمت جان کر اللہ کی ہدایت کے مطابق انھیں استعمال کرو اور اس پر اس کا شکر بجا لائومزید فرمایا کہ اے پیغمبر ان سے یہ بات کہہ دو کہ امر واقعہ یہ ہے کہ جن نعمتوں کو تم دنیا داری سمجھ کر یا آلائش دنیا جان کر روحانی ارتقاء کے خلاف سمجھتے ہو وہ تو اصلاً اللہ نے صاحب ایمان لوگوں کے لیے ہی عطا فرمائی ہیں۔ کافروں کو تو صرف ان میں شامل فرمایا گیا ہے کیونکہ زندگی گزارنے کے لیے انھیں ان نعمتوں کی بھی ضرورت ہے اگر انھیں غذائی ضرورتیں فراہم نہ کی جاتیں اور زندگی کے اور اسباب مہیا نہ کیے جاتے تو آخر وہ دنیا میں زندہ کیسے رہتے اور جس امتحان میں انھیں ڈالا گیا ہے وہ اس امتحان کا سامنا کیسے کرتے۔ البتہ ! یہ بات ضرور سمجھنے کی ہے کہ دنیا میں بعض دفعہ کافروں کو مسلمانوں سے زیادہ نعمتیں کیوں دی جاتی ہیں جبکہ یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ نعمتیں حقیقت میں تو مسلمانوں اور مومنوں ہی کا حصہ ہیں ‘ کافر تو محض ان کی وجہ سے یہ نعمتیں پا رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ نعمتیں مومنوں ہی کا حصہ ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہے اس لیے کہ دنیا کی ہر نعمت اللہ کی عطا و بخشش ہے وہی ان نعمتوں کا خالق ہے اور وہی ان کا عطا کرنے والا ہے اور دنیا کا قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی عطا کرنے والا ہمیشہ اپنے وفاداروں کے علاوہ کسی اور پر اپنی بخششوں کی بارش نہیں کیا کرتاکیون کہ نمک صرف نمک حلالوں کا حصہ ہوتا ہے جو نمک حرام ہوتے ہیں وہ نعمتوں کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہاں پھر کافروں کو کیوں دیا جا رہا ہے بلکہ بعض دفعہ مسلمانوں سے زیادہ دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کا موجودہ انتظام آزمائش اور مہلت کے اصول پر چل رہا ہے۔ یہاں نعمتیں اس لیے نہیں دی جاتیں کہ وہ کسی کا حق ہیں بلکہ اس لیے دی جاتی ہیں تاکہ آزمائش کی جائے کہ جس کو دیا جا رہا ہے وہ اس پر شکر ادا کرتا ہے یا کفرانِ نعمت کرتا ہے۔ کافروں کو زیادہ سے زیادہ عطا فرما کر زیادہ سے زیادہ امتحان کا سامان کیا جاتا ہے اس لیے کہ کسی کو زیادہ ملنا اس کے زیادہ امتحان کی دلیل ہوتی ہے جسے چھوٹا منصب دیا جاتا ہے اس کی آزمائش بھی چھوٹی ہوتی ہے اور جسے بڑا منصب دیا جاتا ہے اور بڑے مرتبے سے نوازا جاتا ہے اس کی آزمائش بھی اسی تناسب سے ہوتی ہے یہی وہ عطا و بخشش ہے جس کے حوالے سے قیامت میں کافروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اللہ کی بیشمار نعمتیں استعمال کیں ‘ بتائو ان نعمتوں کے دینے والے کا حق کیا ادا کیا اسی پر وہ پکڑے جائیں گے اور اسی حوالے سے ان کی سزا میں کمی بیشی ہوگی۔ مزید یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمانوں کو بالعموم کافروں سے کم دینا ایک طرف ان پر اللہ کا یہ احسان ہے اور دوسری طرف ان کے لیے دو گونہ آزمائش ہے۔ احسان ان معنوں میں ہے کہ جسے جتنی نعمتیں ملیں گی اتنا ہی زیادہ اسے حساب دینا ہوگا اور جس کو کم نعمتیں ملیں گی اس کا حساب بھی مختصر ہوگا۔ مسلمانوں سے اللہ چونکہ ہلکا حساب لینا چاہتا ہے اور ان پر اللہ کو آسانی مطلوب ہے اس لیے وہ انھیں کسی بڑی مشقت میں ڈالنا پسند نہیں کرتا البتہ یہ اپنی اپنی ہمت ہے کہ بعض ڈوبنے والے پایاب پانی میں بھی ڈوب جاتے ہیں اور دو گونہ آزمائش اس طرح سے ہے کہ کسی کو نعمت کا کم ملنا یہ بھی ایک آزمائش ہے کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کبھی کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کبھی کسی سے چھین کر آزماتا ہے جسے دیتا ہے اس کے بارے میں تو یہ دیکھتا ہے کہ یہ شکر ادا کرتا ہے یا نہیں اور جسے نہیں دیتا یا کم دیتا ہے اس کی یہ آزمائش کرتا ہے کہ وہ صبر کرتا ہے یا نہیں ؟ کیا وہ اللہ کے بارے میں شکایت کا دفتر کھول کر تو نہیں بیٹھ جاتا اور دوسری آزمائش یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ سکھایا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت وہ دنیا اور دولت دنیا نہیں بلکہ ایمان اور حسن عمل ہے جسے اللہ نے ایمان کی دولت دے دی اور اپنے راستے پر چلنے کی توفیق بخشی ‘ بیشک اسے دنیا کم ملی ہو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ نے اس پر نظر کرم فرمائی ہے اور اسے وہ چیز عطا فرمائی ہے جو اسکی نگاہوں میں سب سے گراں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک آدمی گناہوں کا بہت بڑا ذخیرہ لے کر اللہ کے سامنے پیش ہوگا اور وہ یہ دیکھ کر سہم سہم جائے گا کہ یا اللہ اب میرا کیا بنے گا کہ اچانک اس کے ترازو کے پلڑے میں ایک عمل لا کر رکھا جائے گا جس کے نتیجے میں گناہوں کا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا۔ یہ شخص حیران ہو کر دیکھے گا کہ میرے پاس ان گناہوں کے مقابلے میں کوئی ایسا عمل نہیں تھا جس سے میرا عمل کا پلڑا جھک سکتا یہ کیا چیز ہے جس نے مجھے مالا مال کردیا ہے تو اسے بتایا جائے گا کہ یہ وہ کلمہ طیبہ ہے جسے پڑھ کر تم ایمان لائے تھے۔ اس سے آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ اللہ کی نگاہ میں ایمان اور حسن عمل کتنی بڑی دولت ہے اگر ایک مسلمان یا امت مسلمہ اس بڑی دولت کو رکھتے ہوئے بھی ان لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھے جو ایمان و عمل کے لحاظ سے بیشک مفلس ہوں لیکن دولت کی ان کے یہاں ریل پیل ہو اور انھیں دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر بھر آئے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ایمان و عمل جیسی نعمت کا حق نہیں پہچانا۔ حالانکہ دنیا اور دین کا اور ایمان اور دولت دنیا کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔ ایمان اسے ملتا ہے جس پر اللہ کی خصوصی نگاہ ہوتی ہے اور دنیا تو ہر ایک کو مل جاتی ہے جو اس کے لیے کوشش کرتا ہے یا جسے آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے اس لیے حضور نے فرمایا تھا کہ ” اگر پوری دنیا کی قدر و قیمت اللہ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ کسی کافر کو کبھی پانی کا گھونٹ تک نہ دیتا “۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کی ساری پیدا کردہ نعمتیں حقیقت میں تو اہل ایمان ہی کا حصہ ہیں البتہ کافروں کو محض آزمائش کے لیے اس میں شامل کرلیا گیا ہے اور جہاں تک آخرت کا تعلق ہے اس میں تو یہ ساری نعمتیں اہل ایمان ہی کا مقدر ہوں گی۔ آخرت میں کافر کو سوائے نار جہنم کے اور کچھ نہیں ملے گا کیونکہ دنیا میں انھوں نے جو رفاہی کام کیے تھے رزق کی صورت میں اس کا بدلہ ان کو دے دیا گیا لیکن اس کی بےبہا نعمتوں کا چونکہ انھوں نے حق ادا نہیں کیا اور اللہ کی ابدی حیثیت کو انھوں نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اس لیے انھیں ہمیشہ کے عذاب کی سزا دی جائے گی اور اہل ایمان نے چونکہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی اور انھوں نے دنیا کی زندگی آخرت کی تیاری اور اس کے حصول میں صرف کردی اس لیے اللہ کی ساری نعمتیں قیامت میں ان کا حصہ ہوں گی۔ آیت کے آخر حصے میں فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارا تم پر بےپایاں احسان ہے کہ ہم تم پر اپنے احکام اور اپنی آیات کی حکمتیں کس قدر تفصیل سے بیان کر رہے ہیں۔ ان گزشتہ آیات ہی کو دیکھ لیجیے کہ جن باتوں میں اس دور کا انسان بری طرح الجھا ہوا تھا اللہ نے کس طرح مسلمانوں کے لیے ان کو آسان فرما دیا اور ایسی حکمتیں جن سے قوموں کی قومیں خالی ہوچکی تھیں۔ بےساختہ ان کی چابیاں مسلمانوں کو عطا کردی گئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا کہ علم و حکمت کا یہ سرمایہ صرف ان لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے جو علم رکھتے ہیں یا وہ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یعلمون فعل اور ارادہ فعل دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ یہاں دونوں مراد ہوں کہ جو جانتے ہیں وہی ان حکمتوں کے قدردان ہوں گے اور یا یہ نعمتیں ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوں گی جو جاننا چاہیں گے اور جو علم کے پیاسے ہوں گے۔ اگلی آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کے رویے کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں اس طرح شرم دلائی جا رہی ہے جس سے ایک بےساختہ دلیل کی صورت بھی پیدا ہوگئی ہے اور ایک بےساختہ تأثر بھی اس سے ابھر رہا ہے۔
Top