Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 1
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ١ؕ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ١۪ وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے
الْاَنْفَالِ
: غنیمت
قُلِ
: کہ دیں
الْاَنْفَالُ
: غنیمت
لِلّٰهِ
: اللہ کیلئے
وَالرَّسُوْلِ
: اور رسول
فَاتَّقُوا
: پس ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاَصْلِحُوْا
: اور درست کرو
ذَاتَ
: اپنے تئیں
بَيْنِكُمْ
: آپس میں
وَاَطِيْعُوا
: اور اطاعت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَرَسُوْلَهٗٓ
: اور اس کا رسول
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
وہ تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے ! انفال اللہ اور رسول کے لیے ہے، پس تم اللہ سے ڈرو اور باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔
اور اس وقت کو یاد کرو جس وقت اللہ تم سے وعدہ کرتا تھا کہ دو جماعتوں میں سے ایک یقینا تمہارے لیے ہے اور تم چاہتے تھے کہ جس میں کانٹا نہ لگے وہ تم کو ملے اور اللہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلمات سے حق کو حق ثابت کردے اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے تاکہ وہ حق کو حق ثابت کرے اور باطل کو باطل ثابت کرے اگرچہ ناراض ہوں گناہ گار۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی کہ میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کروں گا جن کے پرے کے بعد پرے نمودار ہوں گے۔ اور نہیں کیا اللہ نے (فرشتوں کی خبر دینے کو) مگر خوشخبری تاکہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو اللہ ہی کے پاس سے آتی ہے، بیشک اللہ زورآور حکمت والا ہے۔ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ ص وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ ۔ (الانفال : 1) (وہ تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے ! انفال اللہ اور رسول کے لیے ہے، پس تم اللہ سے ڈرو اور باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔ ) انفال کا مفہوم انفال ،” نفل “ کی جمع ہے۔ عربی زبان میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع اور ماتحت کی طرف سے ہو تو اس سے مراد وہ رضاکارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اور ملازم اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تطوعاً بجا لاتا ہے اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد وہ عطیہ اور انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ قرآن وسنت کی اصطلاح میں نفل اور انفال مال غنیمت کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو کفار سے بوقت جہاد حاصل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے مال غنیمت کے لیے تین الفاظ استعمال کیے ہیں۔ انفال، غنیمت، فئے۔ غنیمت عموماً اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ و جہاد کے ذریعے مخالف فریق سے حاصل ہو اور فئے اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ و قتال کے کفار سے ملے، خواہ وہ چھوڑ کر بھاگ جائیں یا رضامندی سے دینا قبول کرلیں اور نفل اور انفال کا لفظ جیسا کہ عرض کیا گیا اس انعام کے لیے بولا جاتا ہے جو امیرجہاد کسی خاص مجاہد کو اس کی کار گزاری کے صلہ میں علاوہ غنیمت کے حصہ کے بطور انعام عطاکرے اور کبھی یہ لفظ مطلقاً مال غنیمت پر بھی بولا جاتا ہے اور اس آیت کریمہ میں مال غنیمت ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سوال کی نوعیت اس آیت میں جو سوال کیا گیا ہے اس سلسلے میں حضرت عبادہ ( رض) نے جو وضاحت فرمائی اسے مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور مستدرک وغیرہ میں اس طرح روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت اصحابِ بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جس کا واقعہ یہ تھا کہ مال غنیمت کی تقسیم کے باعث مسلمانوں میں کچھ اختلاف پیدا ہوگیا۔ صورت یہ پیش آئی کہ مسلمان سب غزہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے دونوں فریق میں گھمسان کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی۔ تو اب مسلمان لشکر کے تین حصے ہوگئے۔ کچھ لوگوں نے دشمن کا تعاقب کیا تاکہ دشمن واپس نہ آسکے۔ کچھ لوگ کفار کے چھوڑے ہوئے اموالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے اور کچھ لوگ رسول کریم ﷺ کے گرد اس لیے جمع رہے کہ کسی طرف سے چھپا ہوا دشمن آنحضرت ﷺ پر حملہ نہ کردے۔ جب جنگ ختم ہوگئی اور رات کو ہر شخص اپنے ٹھکانے پر پہنچاتوجن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھا وہ کہنے لگے کہ یہ مال تو ہم نے جمع کیا ہے اس لیے اس میں ہمارے سوا کسی کا حصہ نہیں، جو لوگ دشمن کے تعاقب میں گئے تھے انھوں نے کہا کہ تم لوگ ہم سے زیادہ اس کے حقدار نہیں ہو کیونکہ ہم ہی نے دشمن کو پسپا کیا اور تمہارے لیے موقع فراہم کیا کہ تم بےفکر ہو کر مال غنیمت جمع کرلو اور جو لوگ آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ کے گرد جمع رہے انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے تو ہم بھی مال غنیمت جمع کرنے میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے لیکن آنحضرت ﷺ کی حفاظت جو جہاد کا سب سے اہم کام تھا ہم اس میں مشغول رہے، اس لیے ہم بھی اس کے مستحق ہیں۔ مسلمانوں جیسی بلند اخلاق قوم میں مال غنیمت کے حوالے سے اختلاف پیدا ہونا بظاہر عجیب سا معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ اسلام لانے کے بعد مسلمانوں کو پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اور اسلام میں اب تک جنگ اور مال غنیمت کے بارے میں احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ ایسی صورتحال میں مسلمانوں کے ذہن میں صرف وہی تصورات تھے جو اسلام سے پہلے عربوں میں رائج تھے۔ قدیم زمانے سے طریقہ یہ چلا آرہا تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ عربوں کی اسی روایت کے مطابق جن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھا وہ جائز طور پر اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھنے لگے اور جب دوسرے لوگوں نے اپنا استحقاق جتلایا تو انھیں ناگوار گزرا اور ان کا انکار باقی مسلمانوں کے لیے دل گرفتگی کا باعث بنا۔ چونکہ یہ آنحضرت ﷺ کے تربیت یافتہ اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ تھے اس لیے یہ اختلاف صرف زبانوں تک محدود رہا اس سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ورنہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ افواج میں مال غنیمت کے اختلافات ہمیشہ نازک صورت اختیار کرجاتے ہیں۔ خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے اور اکثرایسا ہوتا ہے کہ جیتی ہوئی بازی ہار دی جاتی ہے۔ لیکن اس موقعہ پر مسلمانوں نے صرف یہ کیا کہ نبی ِ کریم ﷺ سے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں پوچھا۔ چناچہ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس کا آغازہی اس طرح ہوا کہ یہ لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قرآن کریم نے اگرچہ مسلمانوں کے اس طرز عمل پر اصلاحی انداز میں تنقید فرمائی ہے۔ لیکن یہ بات امر واقعہ ہے کہ مسلمانوں کو اس سے پہلے اس حوالے سے کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔ جنگی تہذیب کی ابھی تک بنیاد نہیں رکھی گئی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات ابھی تک اصلاحی احکام کے انتظار میں تھے۔ ایسی صورتحال میں یہ انسانی کمزوری ہے کہ انسان پرانے رسم و رواج کے طریقے پر چل پڑتا ہے چناچہ مسلمانوں میں بھی یہ اختلاف اسی سبب سے ہوا۔ جو اب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس میں ایک تو مسلمانوں کو ان کی اصل حیثیت یا ددلائی گئی ہے اور دوسری یہ بات کہ اسلام جنگ اور اس سے متعلقہ امور میں جو اصلاح کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی مقصدی حیثیت جہاں تک مسلمانوں کو ان کی مقصدی حیثیت یا ددلانے کا سوال ہے اس کی طرف اشارہ سوال کے انداز اور جواب کے اسلوب میں مضمر ہے کہ تم نے مال غنیمت کے بارے میں سوال اٹھاکر یہ تاثر دیا ہے کہ گویا تم جنگ اس لیے لڑتے ہو تاکہ تمہیں مال غنیمت ہاتھ آئے حالانکہ مسلمانوں کی کفار سے جنگ صرف جنگ نہیں بلکہ جہاد ہے۔ جس کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق اور اللہ کی رضا کا حصول ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کی خاطر تمہیں اٹھایا گیا ہے۔ دنیا کو مقصد بنا کر شب وروز کی محنت، جان ماری اور پھر اس سلسلے میں ہر طرح کی صعوبتوں کا برداشت کرنا، دوسروں کے حقوق چھیننا، دوسروں کی محرومیوں پر اپنی کامیابیوں کے قلعے استوار کرنا، دنیا بھر کی قوموں کا رات دن کا معمول ہے اگر تمہارا مطلوب ومقصودبھی دنیا ہوتا تو پھر بطور ایک امت کے تمہیں برپا کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟ یہ دنیا مختلف اقوام کی آماجگاہ ہے یہاں قدم قدم پر آویزشیں ہیں۔ ظلم اور فساد ہے، انسانوں کے حقوق کی تباہ کاری ہے۔ تمہارا کام اس کھیل میں شریک ہونا نہیں بلکہ اللہ کی زمین پر انسانوں کو نئی زندگی نئے دستور العمل، نئے اہداف اور نئی منزلوں سے آگاہ کرنا ہے۔ حق و باطل کی آویزش کی پہلی بنیاد ہی یہ ہے کہ اس میں صرف اللہ کے نام اور اس کے دین کی سربلندی سامنے ہوتی ہے، ایک مسلمان اسی کے لیے محنت کرتا، جان کھپاتا، زخمی ہوتا، حتی کہ اس راستے میں قربان ہوجاتا ہے۔ اس کے مقاصد اور اہداف میں دور دور تک دنیا طلبی اور سامانِ دنیا کے حصول کا کوئی تصور نہیں کیونکہ مسلمانوں کے لیے جاں سپاری اور سرفروشی کا اصل انعام تو آخرت میں ملے گا۔ جس میں جنت کی نعمتیں ان کے انتظار میں ہیں۔ البتہ ! کبھی کبھی فتح و کامرانی کی صورت میں بھی یہ انعام ملتا ہے اور فتح کی صورت میں مال غنیمت کا ہاتھ آجانا اصل مقصد سے ایک زائد بات ہے۔ جس کی طرف یہاں انفال کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ مال غنیمت تمہارا حق نہیں کیونکہ حق وہ ہوتا ہے جس کی خاطر جنگ لڑی جاتی ہے اور تمہاری لڑائیاں اور جنگیں تو اس مقصد کے لیے نہیں ہیں۔ رہی یہ بات کہ تمہیں جنگ میں کامیابی کی صورت میں مال غنیمت ملنا چاہیے تو یہ اللہ کا وہ انعام ہے جو وہ اپنی رضا کے ساتھ ساتھ عطا فرماتا ہے۔ لیکن اس کی خواہش تمہارے دل و دماغ میں دور تک نہیں ہونی چاہیے کیونکہ : شہادت ہے مقصود و مطلوبِ مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی اس لیے تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ مال غنیمت چونکہ تمہارا حق نہیں اس لیے تمہیں اس کے مطالبے کا بھی حق نہیں۔ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا حق اور ان کی ملکیت ہے۔ اللہ کا چونکہ نمائندہ اللہ کا رسول ہوتا ہے اس لیے وہی اللہ کے حق کا استعمال کرتا ہے۔ اس لیے یہ مال غنیمت اللہ کے رسول کی تحویل میں ہوگا۔ جیسے وہ چاہے گا ویسے اس میں تصرف کرے گا۔ یہاں مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا گیا۔ اس کی وضاحت آگے چل کر فرمائی گئی۔ یہاں مقصود چونکہ تصورات کی اصلاح ہے کیونکہ تصورات ہی اعمال کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس لیے بات کو یہیں تک محدود رکھا گیا۔ البتہ ! یہ بات کہ مسلمانوں کا مال غنیمت پر اختلاف کرنا اور پھر دلوں کا اس سے متأثر ہونا چونکہ مسلمانوں کی شان کے لائق نہیں اس لیے ایسی ہدایات کا دینا ضروری ہے جس سے آئندہ یہ سوال پیدا نہ ہونے پائے اور اگر پیدا ہو تو اس کے برے اثرات دلوں تک نہ پہنچیں۔ اس کے بعد تین ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔ 1: تقویٰ…2: اصلاح ذات البین… 3: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔ ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اگر تم واقعی مومن ہو اور تمہارے مومن ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ جنگ بدر میں تم اپنے ایمان کو پوری طرح ثابت کرچکے ہو، البتہ ! اسے مزید جلا دینے اور اس کی روشنی کو مزید تیز کرنے کے لیے ان تین باتوں کی ضرورت ہے۔ 1…تقویٰ تقویٰ دل کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ جس میں نیکی کی طرف میلان اور برائی سے نفرت بڑھ جاتی ہے۔ ایک مومن کے دل کے احساسات اتنے مصفا ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی رضا کی طلب اس کی زندگی بن جاتی ہے اور اللہ کی نافرمانی اسے موت محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس کا دل اللہ کی محبت سے بیدار ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے معمولی غفلت اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ جس طرح مچھلی پانی سے باہر تڑپتی ہے اور پانی سے اسے آسودگی ملتی ہے اسی طرح اللہ کی یاد اس کے احکام کی اطاعت، اس کے دین کی سربلندی کے لیے کاوشیں، اس کے بندوں کی خدمت اور عاجزی اور فروتنی اس کی آسودگی کا سامان بن جاتی ہیں۔ دنیا اس کی ضرورت ضرور ہوتی ہے لیکن وہ اس کی خاطر کبھی دل کی پاکیزگی کو میلا نہیں ہونے دیتا۔ دعائے نیم شبی اور فغانِ سحر گا ہی اس کے دل کی پکار بن جاتی ہیں۔ 2…اصلاح ذات البین باہمی تعلقات کی درستی اور معاملات کی خوش اطواری جس طرح انفردی زندگی کا حسن ہے اسی طرح مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی ضرورت ہے۔ سورة نساء میں پروردگار نے تقویٰ اور رحمی رشتوں کو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی بنیاد ٹھہرایا ہے۔ رحمی رشتے ہوں یا صہری رشتے، معاشرتی روابط ہوں یا معاشی معاہدے، ملکی ضوابط ہوں یا قومی روابط، یہ سب چیزیں اجتماعی زندگی کی استواری کا باعث ہیں۔ ان میں جہاں بھی کسی خرابی سے دراڑیں پڑتی ہیں وہیں اجتماعی زندگی میں شکست وریخت شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ کے تقویٰ سے جس طرح مسجدیں آباد ہوتی ہیں اسی طرح گھر اور تعلقات کے تمام ادارے بھی مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ جس کے احساسات پاکیزہ نہیں اور اس کے دل میں اللہ کا خوف نہیں وہ تعلقات کی نزاکتوں کو بھی کبھی ملحوظ نہیں رکھ سکتا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ تقویٰ تو دل کی کیفیت کا نام ہے اور باہمی تعلقات دیکھا جانے والا تجربہ ہے جس سے صحیح اندازہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی تقویٰ کی کس منزل میں ہے نمازوں میں خشوع و خضوع کے جاننے کا کوئی پیمانہ نہیں لیکن تعلقات اور معاملات میں قدم قد م پر ایسے پیمانے موجود ہیں جس سے انسان کا اللہ سے اور اس کے بندوں سے تعلق کا امتحان ہوتا ہے اور مزید یہ کہ مسلمان ایک مجاہد امت ہے جو دنیا کی اصلاح کے لیے اٹھی ہے۔ اسے قدم قدم پر مخالفتوں سے واسطہ پڑے گا۔ مخالفین اس کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ اگر اس امت کے افراد میں باہمی محبت اور مؤدت نہیں ہوگی اور ان کے آپس کے تعلقات میں اخلاص اور گہرائی نہیں ہوگی تو یہ دشمن کے مقابلے میں کبھی سیسہ پلائی دیوار نہیں بن سکتے۔ اس لیے پہلے ہی معرکے میں باہمی تعلقات میں ہلکی سی خراش دیکھ کر پروردگار نے اس کے مستقل ازالے کے لیے یہ ہدایت نازل فرمائی اور اسی کا نتیجہ ہوا کہ میدانِ جہاد میں ایسے وفاشعار مسلمانوں کو بھی دیکھا گیا جنھوں نے موت کی جانکنی میں بھی دوسرے کو پہلے پانی پلانے کے لیے پیاس کے ہاتھوں جان دے دی۔ ایسے حیرت انگیز واقعات انہی لوگوں میں پیش آتے ہیں جو اللہ کے ان احکامات کو قلب ونظر میں بسا چکے ہوں۔ 3…اطاعتِ خدا اور رسول۔ زندگی کے تمام معاملات میں خوش اسلوبی اور بندوں کے اللہ سے تعلقات میں گہرائی اور خوش اطواری صرف ایک ہی صورت سے پیدا ہوتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے مختلف طریقے انسانوں نے ایجاد کیے ہیں لیکن وہ افراط وتفریط سے خالی نہیں ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی کو ہموار راستوں پر گزارنے کے لیے مختلف آداب اختیار کیے گئے ہیں۔ لیکن وہ بھی آلودگیوں سے بےگانہ نہیں۔ صحیح زندگی کا صحیح معیار صرف اللہ کے رسول کی زندگی ہے۔ اسی زندگی میں اللہ کے احکام کی اطاعت کا نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسوہ حسنہ اللہ کے رسول کی ذات ہے اور اگر اللہ کے رسول جیسی زندگی اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کا نمونہ بھی ذات رسالتِ مآب ہے۔ ایک ہی ذات میں اللہ اور رسول کی اطاعت جمع ہوجاتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ زندگی کا کوئی معاملہ ہو عبادت سے متعلق ہو یا معاملات سے، جنگ کے بارے میں ہو یا مال غنیمت سے متعلق، تمہارے لیے ایک ہی بارگاہ ہے جہاں سے تمہیں صحیح راہنمائی ملے گی وہ ہے اللہ کا رسول۔ مال غنیمت کے بارے میں تفصیلی جواب تو بعد میں آئے گا اس وقت تو ضروری بات یہ ہے کہ اپنے احساسات اور تصورات کو ان تین حوالوں سے پاکیزہ بنالو۔ جب ہر طرح کے معاملے میں اللہ کے رسول کی ذات نمونہ قرار پائے گی تو پھر کبھی آپس کے اختلافات پیدا نہیں ہوں گے اور کبھی شیطان کو گمراہ کرنے کا موقعہ نہیں ملے گا۔ ایمان کی لازمی شرط اللہ اور رسول کی اطاعت ہے اور اس کا ہدف تقویٰ اور آپس کے معاملات کی پاکیزگی ہے۔ اگر تم مومن ہو تو اپنے ایمان کو ان بنیادی احکام کا پابند بنائو اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا جائزہ لیتے رہو کہ تمہارے اندر مومن کا وہ سراپا پیدا ہوسکا ہے یا نہیں جس کی تصویر اگلی آیت کریمہ میں کھینچی گئی ہے۔
Top