Ruh-ul-Quran - Al-Anfaal : 2
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ
اِنَّمَا : درحقیقت الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جائے اللہ وَجِلَتْ : ڈر جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِذَا : اور جب تُلِيَتْ : پڑھی جائیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُهٗ : ان کی آیات زَادَتْهُمْ : وہ زیادہ کریں اِيْمَانًا : ایمان وَّ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : وہ اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
بلاشبہ مومن وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل دہل جائیں اور جب اس کی آیتیں ان کو سنائی جائیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کریں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔
اِنَّمَاالْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًاوَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ ۔ ج الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَرَبِّھِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ۔ ج (الانفال : 2 تا 4) بلاشبہ مومن وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل دہل جائیں اور جب اس کی آیتیں ان کو سنائی جائیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کریں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔ جو نماز قائم کریں اور اس مال میں سے جو ہم نے انھیں بخشا ہے خرچ کریں۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجے اور مغفرت اور باعزت روزی ہے۔ قانونی زبان میں ہر وہ شخص مومن ہے جو ان باتوں کا زبان سے اقرار کرتا ہے جن کا ماننا ایمان لانے کے لیے ضروری ہے۔ جب تک کوئی آدمی ایمانیات میں سے کسی بات کا انکار نہیں کرتا قانونی زبان میں اسے مومن ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقی معنوں میں مومن صرف زبانی اقرار سے نہیں بنتا اس کے لیے دل ونگاہ کا مومن ہونا بھی ضروری ہے۔ پہلی صفت خشیت الہٰی اس لیے پیش نظر آیات کریمہ میں حقیقی مومن کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں جن میں پہلی صفت ” خشیتِ الہٰی “ ہے جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل اٹھتے ہیں، دلوں میں کپکپی طاری ہوجاتی ہے، کھالیں ان کی پھڑپھڑانے لگتی ہیں، جسم سکڑنے لگتا ہے، رنگ اڑجاتا ہے، اللہ کی کبریائی اس کی قدرتوں کی بےپناہی اور اس کی جلالتِ قدر کا تصور کرکے دل پگھلنے لگتا ہے۔ کبھی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور کبھی دل کے احساسات آہوں کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔ راتوں کی نیند اچاٹ ہونے لگتی ہے اور آہ سحر گا ہی زندگی کا معمول بن جاتی ہے۔ جب بھی کوئی معاملہ کسی بھی مومن کے سامنے آتا ہے تو وہ فوراً سوچنے لگتا ہے کہ اس سے متعلق میرے اللہ کا حکم کیا ہے اور اگر کسی گوشے سے اس کی مخالفت سر اٹھاتی ہے تو اس کا دل چیخ اٹھتا ہے کہ خداوندِ ذوالجلال کی مخالفت بھی کی جاسکتی ہے ؟ جس کے جلال سے زمین کانپتی اور سمندر پایاب ہوجاتے ہیں جس کے غضب سے قوموں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے۔ جس کی برہمی سے انسانوں پر پتھر برستے ہیں۔ کیا اس کی نافرمانی اس آدمی سے ممکن ہے جسے واقعی اللہ کی کبریائی کا شعور حاصل ہے ؟ آدمی گناہ پر دلیر اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اللہ سے غافل ہوتا ہے اور اس کے دل میں اللہ کے سوا غیر اللہ کی حکومت یا محبت ہوتی ہے۔ لیکن وہ شخص جسے اللہ کی کبریائی کا صحیح تصور حاصل ہے۔ وہ تو اپنے رب کی بڑائی، عظمت اور شان کا تصور کرکے کانپنے لگتا ہے۔ حضرتِ حسن ( رض) کو کسی نے دیکھا کہ جب وہ نماز کے لیے وضو کرنے لگتے ہیں تو ان کا رنگ اڑنے لگتا ہے اور جب وہ وضو کرکے نماز کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو رنگ ان کا پیلا پڑجاتا ہے۔ پوچھا کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ فرمایا : جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اپنے رب کے سامنے پیشی کے لیے جارہا ہوں تو اس کی عظمت کا تصور کرکے میر ادل بےقابو ہوجاتا ہے اور میں سہم سہم جاتا ہوں۔ دوسری صفت ایمان میں ترقی ایسے شخص کے سامنے جب قرآن کریم کی آیات اور اللہ کے احکام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو چونکہ اس کا دل اللہ کے تصور اور اس کی محبت سے آباد ہوچکا ہے اور اس کی نافرمانی کے خوف سے دہل اٹھتا ہے تو وہ ان احکام کو سن کر لپکتا ہوا اس کی طرف بڑھتا ہے اور اس میں دوسری صفت پیدا ہوجاتی ہے، وہ ہے ” ایمان میں ترقی “ ، یعنی اس کے دل کی وہ کیفیت جو ایمان کا نتیجہ ہے اس میں پہلے سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایمان اگر ایک پودا ہے تو اس کے احکام اس کے برگ وبار ہیں۔ ایمان کا پودا جب برگ وبار نکالنے لگتا ہے تو اس کا مالک اور اس کا کاشتکار یقینا خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور وہ اپنی فصل کو لہلہاتا ہوا دیکھ کر شاد ہوجاتا ہے۔ اللہ کی آیات کی حیثیت اللہ کے پیغاموں کی ہے۔ جو دل اللہ کی محبت سے سرشار ہے وہ جب اس کی آیات کو سنتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ میرے محبوب کا پیغام میرے نام آیا ہے۔ دنیا میں کون سا ایسا محب ہے جو محبوب کے پیغام کو پاکر خوشی سے دیوانہ نہیں ہوجاتا۔ ایک عاشق صادق کے لیے محبوب کا تصور ہی فرحت بخش ہوتا ہے اسی تصور کے سہارے اس کی زندگی گزرتی ہے۔ محبوب کا معمولی التفات اس کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دیتا ہے اور اگر کہیں محبوب کا کوئی سندیسہ یا کوئی محبت نامہ اسے وصول ہوجائے تو کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا کہ اس کی وارفتگی کا عالم کیا ہوگا۔ یہی کیفیت اس مومن کی ہے جو صرف اپنے اللہ سے لولگا چکاہو۔ تیسری صفت توکل علی اللہ اللہ کی محبت تصور جاناں کی مانند نہیں کہ عاشق اس تصور کو لیے بیٹھا رہے بلکہ اس کی محبت زندگی کا ایک پیغام ہے۔ زندگی کا ایک ضابطہ ہے، باطل کے خلاف ایک کشمکش ہے، ہر غلط بات کے خلاف ایک جہاد ہے، ایک ایسا جہاد جس میں زندگی کے تمام وسائل جھونکنے پڑتے ہیں۔ ایک ایسی کشمکش جس میں بعض دفعہ ہر سہارا ٹوٹنے لگتا ہے، ارادے جواب دینے لگتے ہیں، ایسے موقعہ پر بھی مومن کبھی ہراساں اور سراسیمہ نہیں ہوتاکیون کہ وہ اپنے رب کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ باقی ذرائع اور وسائل میری ضرورت ہیں مجھے انھیں فراہم کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کبھی وسائل جواب دے جائیں یا نایاب ہوجائیں اور مقصد برابر پکار رہا ہو تو پھر ایک مومن کے لیے اللہ پر بھروسہ ایک ایسی قوت بن جاتا ہے جس کی موجودگی میں وہ کبھی مضمحل نہیں ہوتا۔ اگر کوئی بدوی برہنہ تلوار لے کر آنحضرت ﷺ سے پوچھتا ہے کہ بتا اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ تو اللہ پر بھروسے کا یہ سب سے عظیم پیکر اور اسوہ حسنہ بڑے اطمینان سے فرماتا ہے ” ش “۔ بدوی اس سے اس قدر مرعوب ہوتا ہے کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر جاتی ہے۔ ایک مومن بلاوجہ کبھی خطرات میں داخل نہیں ہوتا، لیکن جب خطرات میں داخل ہونا اعلائے کلمۃ الحق کے لیے ضروری ہوجائے یا اللہ اور اس کے دین کی عزت و حرمت کی بقا کے لیے ضرورت بن جائے تو پھر وہ بےخطر اس آگ میں کود جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے اور مجھے صرف اسی پر بھروسہ کرنا ہے کیونکہ : کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بےتیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کافر وسائلِ جنگ پر بھروسہ کرتا ہے اور مومن اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ وسائل کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن ان پر بھروسہ نہیں کرتا۔ وسائل ہوں تو بھی اس کا بھروسہ اللہ ہی پر ہوتا ہے۔ چوتھی صفت اقامتِ صلوٰۃ وہ مومن جس کے ایمان کا اللہ کے یہاں اعتبار ہے اس کی ایک صفت ” اقامتِ صلوٰۃ “ بھی ہے۔ یہ مستقل ایک صفت بھی ہے اور باقی صفات کا مقدمہ اور تمہید بھی۔ مومن کی جو صفت بھی مندرجہ بالا صفات میں سے وجود میں آتی ہے اس کا دارومدار اقامتِ صلوٰۃ پر ہے۔ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد صرف نماز پڑھنا نہیں بلکہ نماز کی اقامت ہے۔ اقامت کے لفظی معنی ” کسی چیزکو سیدھا کرنے “ کے ہوتے ہیں۔ مراد اس سے یہ ہے کہ نماز پورے آداب و شرائط کے ساتھ اس طرح بجا لائی جائے جس طرح نبی کریم ﷺ ادا فرماتے تھے۔ آپ کے عمل سے ہمیں نماز کے جن آداب و شرائط کا علم ہوا ہے ان کی پابندی کے بغیر اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم وجود میں نہیں آتا۔ اسی طرح قرآن وسنت میں نماز کے جو فوائد، آثار اور برکات ذکر فرمائی گئی ہیں اگر نماز کی پابندی سے ان کا ظہور نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ میں کمی ہے۔ فقہی نقطہ نگاہ سے تو اوقاتِ مخصوصہ میں چند مخصوص اعمال کا بجا لانا نماز کہلاتا ہے اور ایسا کرنے والا نمازی کہلائے گا لیکن حقیقی نماز جس کی اقامت کا حکم دیا گیا ہے اس کا تحقق اسی وقت ہوگا جب اس کے آثار اور فوائد نظر آئیں گے۔ مثلاً قرآن کریم کہتا ہے : ان الصلٰوۃ تنھٰی عن الفحشاء و المنکر (بیشک نماز بےحیائی اور ہر گناہ سے روکتی ہے۔ ) اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور ساتھ بےحیائی اور منکرات کا ارتکاب بھی کرتا ہے تو اس نے اقامتِ صلوٰۃ نہیں کی محض نماز کی مشق کی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں فرمایا گیا۔ اقم الصلٰوۃ لذکری (میری یاد کے لیے نماز قائم کرو) اگر کوئی شخص نمازی ہونے کے باوجود اللہ کی یاد سے غافل ہے وہ جب گناہ کرنے لگتا ہے اسے اللہ کی یاد نہیں آتی۔ جب وہ ظلم کرنے لگتا ہے تو اللہ کے خوف سے اس کا ہاتھ نہیں کانپتا، جب وہ بےحیائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے اللہ سے شرم نہیں آتی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نماز محض فارمیلیٹی ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حقیقی نماز وہ ہے جو قرآن کریم کے بیان کردہ آثار و نتائج کی حامل ہو، یہی وہ نماز ہے جسے ” رأس الصفات “ کہا گیا ہے۔ پانچ وقت ایسی نماز کی ادائیگی نمازی میں ان صفات کو پیدا کرتی ہے جو ایمان کا تقاضا ہیں اور اس سے وہ اسلامی زندگی وجود میں آتی ہے جیسی زندگی ایک مومن کی ہونی چاہیے۔ بعض اہل علم کے نزدیک اقامتِ صلوٰۃ، نظام صلوٰۃ کو قائم کرنے کا نام ہے کیونکہ کسی چیز کا قائم ہونا بہ ہمہ وجوہ قائم ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم جب کہتے ہیں عدالت قائم ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے عدالت کی عمارت بن گئی، ججز کا تقرر ہوگیا، مدعی اور مدعا علیہ پیش ہونے لگے، مقدمات کے فیصلے ہونے لگے، لوگوں کو انصاف ملنے لگا، غرضیکہ وہ تمام امور وجود میں آگئے جو عدالت کے لیے ضروری ہیں۔ ایسے ہی اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم ہے مسجدوں کی تعمیر، ائمہ کا تقرر، لوگوں کو نماز کی ترغیب اور اس کی پابندی، نماز کے آداب وسنن کی تعلیم اور ایک ایسی تحریک جو نماز کی فرضیت اور افادیت دلوں میں اتار دے۔ اس پورے پر اسس کو اقامتِ صلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پانچویں صفت انفاق فی سبیل اللہ پانچویں صفت انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ انسان کی بہت سی کمزوریاں جس طرح نفسانی تقاضوں سے وجود میں آتی ہیں اسی طرح مال و دولت کی حد سے بڑھی ہوئی محبت بھی انسان کے سیرت و کردار میں بہت سے مفاسد کا سبب بنتی ہے۔ مال انسان پر اثر انداز ہونے والی چیزوں میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک ایسی ضرورت بھی ہے جس کے بغیر زندگی کی گاڑی نہیں چلتی۔ لیکن ساتھ ہی ایک ابتلاء بھی ہے جو قدم قدم پر کبھی بخل پر اکساتا ہے اور کبھی تبذیر پر آمادہ کرتا ہے۔ اسی کے نتیجے میں کتنے منکرات کو راستہ ملتا ہے اور اگر اس کی جہت درست کردی جائے اور اس کے بارے میں تصورات پاکیزہ کردیئے جائیں تو یہ نیکی کی بہت بڑی قوت بن جاتا ہے۔ اسی سے خدمت خلق ممکن ہوتی ہے اور اسی سے غلبہ دین کو مدد ملتی ہے۔ اس لیے ایک مومن کی صفت کے طور پر اس کو خصوصی طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ ایک مومن مال و دولت میں سے جو کچھ اپنے پاس رکھتا ہے اسے وہ اللہ کی دین سمجھتا ہے۔ اسے اللہ کی امانت سمجھ کر اس کے حق کی ادائیگی کی فکر کرتا ہے۔ اپنی ضرورتوں سے جو کچھ بچتا ہے اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرکے اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے سیرت و کردار میں جلاپیدا ہوتی اور اللہ کے دین کو سربلندی ملتی ہے۔ ان پانچ صفات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جنھیں سچے اور حقیقی مومن قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ محض ایمان کا دعویٰ کسی کو حقیقی مومن نہیں بنا دیتا۔ مؤ رخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت حسن بصری ( رح) سے پوچھا کہ اے ابو سعید ! کیا آپ مومن ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ بھائی ایمان دو قسم کے ہیں تمہارے سوال کا اگر مطلب یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، جنت و دوزخ، قیامت اور حساب کتاب پر ایمان رکھتا ہوں تو جواب یہ ہے کہ بیشک میں مومن ہوں اور اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ مومن کامل ہوں جس کا ذکر سورة الانفال کی آیات میں ہے تو مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں ان میں داخل ہوں یانھیں۔ یہی وہ حقیقی مومن ہیں جنھیں اللہ کے یہاں تقرب حاصل ہے اور جن پر ہمیشہ اللہ کی نوازشات کی بارش برستی ہے۔ اپنے خصوصی کرم کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان حقیقی مومنوں کے لیے تین قسم کے انعامات ہیں۔ 1: درجاتِ عالیہ… 2: مغفرت… 3: عمدہ رزق۔ (تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اس سے پہلی آیات میں سچے مومنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں۔ وہ تین قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق قلب اور باطن کے ساتھ ہے۔ جیسے ایمان، خوفِ خدا، توکل علی اللہ۔ دوسرے وہ جن کا تعلق جسمانی اعمال سے ہے، جیسے نماز وغیرہ۔ تیسرے وہ جن کا تعلق انسان کے مال سے ہے، جیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔ ان تینوں قسموں کے بالمقابل تین انعاموں کا ذکر آیا ہے۔” درجاتِ عالیہ “ ، قلبی اور باطنی صفات کے مقابلہ میں اور ” مغفرت “ ان اعمال کے مقابلہ میں جو انسان کے ظاہر بدن سے متعلق ہیں، جیسے نماز، روزہ وغیرہ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نماز گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور ” رزقِ کریم “ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مقابلہ میں کہ جو کچھ خرچ کیا اس سے بہت بہتر اور بہت زیادہ اس کو آخرت میں ملے گا۔ ) (ماخوذ از معارف القرآن)
Top