Tafheem-ul-Quran (En) - At-Tawba : 15
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے ہو تو وہ تمہیں کسوٹی عطا کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں جھاڑ دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوْا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْعَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللّٰہُ ذُوْالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔ ( الانفال : 29 ) (اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو تو وہ تمہیں کسوٹی عطا کرے گا اور تم سے تمہاری برائیاں جھاڑ دے گا اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ ) گزشتہ رکوع کی آخری دو آیات میں دونصیحتیں فرمائی گئی ہیں اور پھر تمام برائیوں اور بیماریوں کا حقیقی سبب بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے اکثر اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں جو بالآخر عقیدے کی خرابی پر منتج ہوتے ہیں۔ جو دو نصیحتیں فرمائی گئی ہیں ان میں سے پہلی یہ ہے کہ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت نہ کرو یعنی تم نے اللہ اور رسول کے ساتھ جو ایمان کی صورت میں عہدوپیمان کیا ہے اگر تم نے اس میں کچھ بھی کمزوری دکھائی اور اس کے تقاضوں کے خلاف کوئی کام کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کررہے ہو اور یہ بات ایسی ہے کہ جسے ہم پورے دین کی بنیاد کہہ سکتے ہیں۔ دوسری جو نصیحت فرمائی وہ یہ ہے کہ مسلمانوتم اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو یعنی تمہارے مالی معاملات، عدالتی معاملات، تجارتی معاملات، قومی معاملات، اور بین الاقوامی معاملات کی بنیاد تمہارا آپس کا عہدوپیمان اور تمہارے باہمی معاہدے ہیں۔ جب بھی ایفائے عہد اور ایفائے معاہدہ میں نیت کی خرابی پیدا ہوتی ہے تو وہیں خیانت کا ارتکاب شروع ہوجاتا ہے اور پوری اجتماعی زندگی اس کے نتیجے میں تلپٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ان دونصیحتوں کے بعد تمام ایمانی، اخلاقی اور معاملاتی خرابیوں کے پیدا ہونے کے جو دوسبب ہیں انھیں واضح طور پر متعین کرکے بیان فرمایا گیا ہے کہ تم جب بھی کبھی اللہ اور رسول کے تعلق میں کمزوری کا شکار ہوتے ہو یا باہمی معاملات کی کسی بھی جہت میں خیانت کا ارتکاب کرتے ہو تو اس کے سبب صرف دو ہوتے ہیں ایک مال و دولت کی محبت اور دوسرا اولاد کی محبت۔ یہ دونوں محبتیں فطری ہیں لیکن جب یہ حد سے گزر جاتی ہیں تو پھر یہ کسی انتہا پر بھی رکتی نہیں اور اس کے نتیجے میں اسلامی خوبیاں تو ایک طرف رہیں انسانی خوبیاں بھی رخصت ہوجاتی ہیں۔ آدمی دولت کے حصول کو زندگی کا مقصد بنالیتا ہے اور اولاد کو بہتر سے بہتر مستقبل دینے کے لیے اپنے ایمان اخلاق اور عزت وآبرو کو بھی دائو پر لگا دیتا ہے۔ ان بنیادی بیماریوں اور کمزوریوں سے بچنے کے لیے پیش نظر آیت کریمہ میں ایک علاج تجویز کیا گیا ہے۔ یہ علاج ایسا ہے جس سے ایک طرف برائیاں ختم ہوتی ہیں اور برائیوں کے اسباب دور ہوتے ہیں تو دوسری طرف اللہ کی طرف سے ایک ایسا انعام ملتا ہے جس سے پوری زندگی راہ صواب پر چل نکلتی ہے۔ تقویٰ تمام کمزوریوں کا علاج اور فرقان کی شرط اولیں ہے اس آیت میں جو علاج تجویز کیا گیا ہے اس کا نام ہے ” تقویٰ “۔ قرآن کریم نے تقویٰ پر جتنا زور دیا ہے کسی اور چیز پر اتنازور نہیں دیا۔ معلوم ہوتا ہے تقویٰ پورے دین کی اساس، اس کی روح اور اس کا سَت ہے۔ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ بیشتر آیات کے اول یا آخر میں تقویٰ کا حکم دیا ہے۔ تمام عبادات حتی کہ عدل و احسان کا مقصد اس نے تقویٰ کا حصول بتایا ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ بڑی سے بڑی نیکی بھی تقویٰ کی روح سے اگر خالی ہو تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ جنت کی جتنی نعمتیں ہیں انھیں بالعموم اہل تقویٰ کے لیے مخصوص فرمایا ہے۔ تقویٰ کا معنی تو ہے ” ڈرنا اور بچنا “۔ لیکن اصطلاحِ قرآنی میں یہ دل کی ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں نیکی کی گہری طلب اور تڑپ ہو اور برائی سے انتہائی نفرت۔ نیکی کی طرف دل اس طرح لپکتا جائے جیسے پیاسا ٹھنڈے پانی کی طرف لپکتا ہے اور بدی سے اس طرح وحشت اور خوف محسوس ہو جیسے آدمی دہکتے انگاروں سے بچتا ہے۔ آدمی کے اندر یہ احساس روز بروز پختہ ہوتا جاتا ہے کہ میں ہر وقت اپنے اللہ کے سامنے ہوں میرا کوئی عمل اس سے مخفی نہیں۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے میں اللہ کے حضور پیش کیا جاؤں گا۔ جیسے جیسے یہ احساس یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا ہے ویسے ویسے آدمی کی زندگی پاکیزہ ہوتی جاتی ہے۔ وہ ہر قدم سوچ کر اٹھاتا ہے، منہ سے کوئی لفظ بولنے سے پہلے اسے تول کر دیکھتا ہے، اس کی سوچ پر جواب دہی کا پہرہ رہتا ہے۔ کسی دوسرے شخص سے معاملہ کرتے ہوئے وہ اس شخص کو سامنے نہیں رکھتا بلکہ اللہ کو سامنے رکھتا ہے۔ ایسے شخص سے بہت مشکل ہے کہ وہ امانت میں خیانت کا ارتکاب کرے یا مال کی محبت اللہ کی محبت پر غالب آجائے یا اولاد کی محبت اللہ کے حضور جواب دہی سے بےنیاز کر دے۔ دل و دماغ کے ان احساسات کے نتیجے میں دل کے اندر ایک قوت پیدا ہوتی ہے جسے قوت تمیز یا ضمیر کی قوت کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا نور طلوع ہوتا ہے جس کی روشنی میں آدمی بند راستوں میں دیکھنے پر بھی قادر ہوجاتا ہے۔ زندگی کی الجھنیں اور اڑچنیں اولاً تو پیدا نہیں ہوتیں اور اگر کبھی پیدا ہوجائیں تو قدرت قدم قدم پر دستگیری کرتی ہے۔ قرآن کریم نے اس قوت کو ” فرقان “ کہا ہے۔ فرقان کا معنی ہوتا ہے ” حق و باطل اور غلط اور صحیح میں فرق کرنے والا “ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک تو یہ کہ دل کی ایسی بیداری اور ضمیر کی ایسی روشنی جو زندگی کے ہر معاملے میں صحیح راہنمائی کرے۔ جب لوگ یہ محسوس کریں کہ ہم قومی معاملات میں ایک بند گلی میں داخل ہوگئے ہیں جس میں نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تو جسے اللہ نے فرقان عطا فرمایا ہے وہ اس بند گلی میں بھی نکلنے کا راستہ دیکھ لے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً (جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اسے نکلنے کا راستہ عطا فرماتا ہے۔ ) اس لحاظ سے یہ ایک نور ہے جو تاریک راستوں کو روشن کرتا اور الجھی ہوئی گتھیوں کو حل کرتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ فرقان ایک کسوٹی ہے۔ کسوٹی کا کام کھرے اور کھوٹے کو الگ کرکے بتانا ہے۔ ایک مومن کے اندر ایک ایسی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ زندگی کے معاملات میں ہر مرحلے پر کسوٹی کی طرح اس کو بتاتی ہے کہ تمہارے لیے کھرا کیا ہے اور کھوٹا کیا ہے، صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، چناچہ ایک مومن اپنی اس خداداد صلاحیت کی وجہ سے زندگی کے معاملات میں غلطی کرنے سے محفوظ رہتا ہے۔ ان دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے صاحب ایمان لوگ جب امت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں تو پھر ان کے اجتماعی فیصلے، باطل قوتوں سے ان کا تصادم اور مفسد طاقتوں سے ان کی لڑائی، بجائے خودفرقان بن جاتی ہے۔ ان کا وجود باقی امتوں کے لیے فرقان ہوتا ہے۔ ان کے کارنامے تاریخ کے لیے فرقان بن جاتے ہیں۔ ان کی جنگیں حق و باطل میں فرقان ہوتی ہیں۔ تاریخ ہمیشہ ان کے وجود اور ان کے کارناموں سے استدلال کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے کہ یہی کچھ فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم نے اپنے اندر تقویٰ کی صلاحیت پیدا کرلی تو ہم تمہارے اندر ایک ایسا نور روشن کردیں گے جو کسوٹی کا کام دے گا اور تمہاری حیثیت دوسری قوموں کے لیے ایک مثال بن جائے گی اور تمہارے کارنامے حق و باطل کی تمیز میں منارہ نور بن جائیں گے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اولاً تو تم سے کو تاہیاں ہوں گی نہیں اور اگر کہیں بشری تقاضوں سے کچھ فروگزاشتیں ہو ہی گئیں تو اللہ تعالیٰ ایسی فروگزاشتوں کو جھاڑ دے گا اور معاف کردے گا کیونکہ اللہ بڑے فضل والا ہے لیکن اس کے فضل کے حصول کے لیے دل و دماغ میں تقویٰ کی فصل کاشت کرنی پڑتی ہے۔ وَ اِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ ط وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُاللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُالْمٰکِرِیْنَ ۔ (الانفال : 30 ) (اس وقت کو یاد کرو ! جب کافر تیرے خلاف تدبیر کررہے تھے تاکہ وہ تجھے قید کردیں یا تجھے قتل کردیں یا تجھے ملک بدر کردیں وہ بھی تدبیر کررہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کررہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ ) اہلِ تقویٰ پر اللہ کے انعامات ” مکر “ اردو زبان میں برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی نسبت اللہ کی طرف دیکھ کر بعض لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے۔ لیکن عربی زبان میں اس کا وہ مفہوم نہیں عربی زبان میں مکر اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی۔ کوئی آدمی اگر کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی تدبیر کرتا ہے تو وہ بھی مکر ہے ظاہر ہے کہ اسے برا ہی کہا جائے گا اور اگر دوسراشخص اس کی تدبیر کو ناکام کرنے یا اس کے برے ارادوں کو واشگاف کرنے کے لیے کوئی تدبیر عمل میں لاتا ہے تو اسے بھی ہم مکر کہتے ہیں اور یہ یقینا ایک اچھائی ہے۔ کافروں کا مکر اور تدبیر سراسر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچانے اور اسلام کا راستہ روکنے کے لیے تھی لیکن اللہ کی تدبیر ان کی تمام تدبیروں کو ناکام کرنے کے لیے تھی۔ آنحضرت ﷺ کی ہجرت تاریخ کے آئینہ میں اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ کی بھنک جیسے ہی قریش مکہ کے کانوں میں پڑی تو انھیں آنے والے خطرات کا صحیح اندازہ ہوگیا۔ وہ سمجھ گئے کہ اب تک آنحضرت کی دعوت مکہ معظمہ تک محدود تھی ہم نے اپنی طاقت اور مخالفت سے اس کے تمام راستے بند کردیئے تھے لیکن اب جبکہ اس کے اثرات مدینہ منورہ تک پہنچ گئے ہیں اور وہاں سے ایک معقول تعداد میں اشراف نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے آنحضرت ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دے دی ہے اور اسی مقصد کی خاطر مسلمان رفتہ رفتہ مکہ سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مدینہ منورہ کو دارالہجرت قرار دے چکے ہیں۔ اب بھی اگر ہم نے آنحضرت ﷺ کو مزید مہلت دینے کی غلطی کی تو نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ کسی روز اچانک آنحضرت ﷺ ہماری بیخبر ی میں مدینہ منورہ پہنچ جائیں گے اور اس طرح انھیں ایک آزاد مرکز ہاتھ آجائے گا جس کو بنیاد بنا کر ممکن ہے وہ ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں پھر ایک ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ وہ مکہ پر حملہ آور ہو کر مکہ فتح کرلیں۔ قریش ذہین لوگ تھے انھوں نے اپنی فراست سے ان تمام خطرات کا اندازہ کرلیا اور انھوں نے سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم کوئی ایسا فیصلہ کریں تاکہ یہ خطرہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو کر رہ جائے۔ چناچہ انھوں نے تمام اشرافِ قریش کو دارالندوہ میں جمع ہونے کی دعوت دی۔ دارالندوہ کی عمارت قصی ابن کلاب نے حرم کے ساتھ تعمیر کی تھی۔ آج جہاں باب الزیادات ہے کہا جاتا ہے اسی جگہ پر وہ عمارت تھی۔ جب بھی قریش کو کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا تھا تو وہ اسی عمارت میں مشاورت کے لیے جمع ہوتے تھے۔ چناچہ اب بھی وہ جمع ہوئے اور آنحضرت ﷺ اور آپ کی دعوت کے استیصال کے لیے غور وفکر شروع کیا کہ اچانک دروازے پر ایک سفید ریش بزرگ نمودار ہوا جس کی شخصیت نہایت وجیہ اور مسحور کن تھی۔ وہ سلام کہہ کر آگے بڑھا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میں نجد سے آیا ہوں اور وہاں کے ایک قبیلے کا رئیس ہوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ آپ ایک اہم معاملے کا فیصلہ کرنے والے ہیں تو میں بھی اس لیے حاضر ہوگیا ہوں کہ شائد اس سلسلے میں میں بھی کوئی مشورہ دے سکوں۔ چناچہ اشرافِ قریش نے بڑے احترام سے اس کا استقبال کیا اور اسے اپنے پہلو میں بٹھایا یہ آنے والا بزرگ درحقیقت ابلیس تھا جو انسانی شکل میں ان کی راہنمائی کے لیے آیا تھا۔ چناچہ مشاورت کا آغاز ہوا تو سب سے پہلی تجویز جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ محمد ﷺ کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر اور پائوں میں زنجیریں ڈال کر ایک مکان میں بند کردیا جائے تاآنکہ موت وہیں ان کا فیصلہ کر دے۔ ابلیس نے یہ سن کر کہا کہ یہ رائے کوئی مناسب رائے نہیں اس لیے کہ محمد ﷺ کے پیروکار جو ہجرت کرکے جاچکے ہیں انھیں جیسے ہی پتہ چلے گا کہ ان کے پیغمبر کو قید کردیا گیا ہے تو وہ طاقت فراہم کرکے کوئی بھی موقعہ غنیمت دیکھ کر حملہ کریں گے اور آپ کو چھڑا کرلے جائیں گے۔ اس لیے کوئی اور تجویز سامنے لائو۔ دوسری تجویز یہ دی گئی کہ آپ کو ملک بدر کردیا جائے، اس سے ہماری جان چھوٹ جائے گی وہ جہاں کہیں جائے گا تو وہاں کا اجنبی ماحول، اجنبی لوگ، خود ہی اس کا کام تمام کردیں گے۔ ہم تو یہاں تیرہ سال تک قرابت داری کی وجہ سے کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے سے رکے رہے لیکن اجنبی لوگوں کے لیے ایسی کوئی دشواری نہیں ہوگی اور جہاں تک اس دین کی مخالفت کا تعلق ہے ہم جانتے ہیں کہ پورے عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں جو اس دعوت کو آسانی سے قبول کرسکتا ہو بلکہ وہ اپنے مذہب کی عصبیت میں ہم سے بھی آگے ہیں تو ان کے لیے اس قصے کا ختم کرنا اور اس کے داعی کا کام تمام کردینا بڑی آسان بات ہوگی۔ لیکن ابلیس نے کہا کہ تمہاری یہ رائے بھی قابل عمل نہیں کیونکہ تم جانتے ہو کہ محمد ﷺ ایک دلآویز شخصیت کے مالک ہیں ان کی دعوت میں بلا کی تاثیر ہے وہ اپنے کردارو عمل میں بےپناہ اپیل رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کے لیے اجنبی لوگوں اور اجنبی ماحول میں بھی اپنے ہم خیال تیار کرلینا کوئی مشکل کام نہیں۔ وہ ایک مختصروقت میں ایک بڑی قوت فراہم کرکے تم پر چڑھ دوڑیں گے تو تمہارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کسی اور تدبیر پر غور کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ابوجہل نے رائے دی کہ میرا خیال یہ ہے کہ عرب کے تمام معزز قبیلوں سے ایک ایک تنومند نوجوان جو تلوار کا دھنی ہو انتخاب کیا جائے۔ تمام قبیلوں کے نوجوان مل کر آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیں جیسے ہی موقعہ ملے ایک ساتھ تلواریں ان کے جسم میں پیوست کردیں۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے اس فتنے کا سد باب ہوجائے گا۔ ہماری اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے گی اور قتل کی ذمہ داری بھی تمام قبائل پر تقسیم ہوجانے کے باعث کسی ایک قبیلے پر اس کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ بنو عبد مناف جب دیکھیں گے کہ ہم سارے قبیلوں سے جنگ نہیں کرسکتے تو وہ بھی دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کرکے معاملے کو ختم کردیں گے۔ ابلیس نے کہا یہ وہ رائے ہے جسے قابل عمل کہا جاسکتا ہے چناچہ سب نے اس رائے پر اطمینان کا اظہار کیا اور طے پایا کہ پہلی فرصت میں نوجوانوں کا انتخاب کیا جائے اور رات کو آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا جائے۔ چناچہ جس دن یہ فیصلہ ہوا اسی روز آنحضرت ﷺ کو اللہ کی جانب سے اس کی اطلاع دے دی گئی اور آپ کو ہجرت کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ اسی دن کی دوپہر کو آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرمالیں۔ حضرت عائشہ ( رض) کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ اپنے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے حضرت ابوبکر ( رض) سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سر ڈھانکے تشریف لارہے ہیں یہ ایسا وقت تھا جس میں آپ تشریف نہیں لایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر ( رض) نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔ حضرت عائشہ ( رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اجازت طلب کی۔ آپ کو اجازت دی گئی اور آپ اندر داخل ہوئے پھر حضرت ابوبکر ( رض) سے فرمایا تمہارے پاس جو لوگ ہیں انھیں ہٹادو۔ ابوبکر نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کے اہل خانہ ہی ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکر ( رض) نے یہ سنا تو نہایت بےتابی سے پوچھا کہ میں بھی معیت کی عزت سے نوازا جاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ ادھر قریش نے جن اکابر مجرمین کا انتخاب کیا ان کی تعداد گیارہ ہے۔ ان کے نام یہ ہیں۔ 1: ابوجہل بن ہشام، 2: حکم بن عاص، 3: عقبہ بن ابی معیط، 4: نضر بن حارث، 5: امیہ بن خلف، 6: زمعہ بن اسود، 7: طعیمہ بن عدی، 8: ابولہب، 9: ابی ٔ، 10: نبیہ بن الحجاج، 11: منبہ بن الحجاج ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ جب رات ذرا تاریک ہوگئی تو یہ لوگ گھات لگا نبی کریم ﷺ کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ جیسے ہی آپ باہر نکلیں تو یہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں۔ ان لوگوں کو پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہو کر رہے گی۔ ادھر آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ( رض) سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور میری یہ سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سو رہو۔ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ رسول اللہ ﷺ یہی چادر اوڑ ھ کر سویا کرتے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لے آئے مشرکین کی صفیں چیرتے ہوئے نکلے ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی۔ لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں وہ آپ کو دیکھ نہ سکے۔ اس وقت آپ یہ آیت تلاوت کررہے تھے۔ وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشینا ھم فھم لا یبصرون (ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی پس ہم نے انھیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے۔ ) اس موقعہ پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا جس کے سر پر آپ نے مٹی نہ ڈالی ہو اس کے بعد آپ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جاچھپے ادھر محاصرہ کرنے والوں کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اور انھیں آپ کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس کا انتظار کررہے ہیں ؟ انھوں نے کہا : محمد ﷺ کا۔ اس نے کہا آپ لوگ ناکام اور نامراد ہوئے۔ خدا کی قسم محمد ﷺ تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ لوگوں کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنا کام کرگئے۔ لیکن محاصرہ کرنے والوں کو یقین نہیں آیا، انھوں نے دروازے سے جھانک کر دیکھا حضرت علی ( رض) چونکہ حضور کی چادر اوڑھ کر دلیٹے ہوئے تھے انھوں نے سمجھا کہ حضور لیٹے ہوئے ہیں صبح تک انتظار کرتے رہے، جب حضرت علی ( رض) بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ آنحضرت ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کے ساتھ غار ثور جا پہنچے۔ غار کے پاس پہنچ کر ابوبکر ( رض) نے کہا اللہ کے لیے ابھی آپ غار میں داخل نہ ہوں پہلے میں داخل ہو کر دیکھے لیتا ہوں اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپ کی بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا چناچہ حضرت ابوبکر ( رض) اندر داخل ہوئے، غار کو صاف کیا ایک جانب چند سوراخ تھے انھیں اپنی چادر پھاڑ کر بند کیا لیکن دوسوراخ باقی بچے رہے۔ ان دونوں پر حضرت ابوبکر نے اپنے پائوں رکھ دیئے۔ پھر رسول اللہ سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں آپ اندر تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر ابوبکر کے پائوں میں کسی چیز نے ڈس لیا مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہ ﷺ جاگ نہ جائیں۔ لیکن ان کے آنسو رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر ٹپک گئے اور آپ کی آنکھ کھل گئی۔ آپ نے فرمایا : ابوبکر تمہیں کیا ہوا ؟ عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے۔ رسول اللہ نے اس پر لعاب دہن لگا دیا اور تکلیف جاتی رہی۔ قریش کو جیسے ہی اپنی ناکامی کا احساس ہوا انھوں نے آپ کی گرفتاری کے لیے چاروں طرف تعاقب کرنے والے دوڑا دیئے اور اعلان کیا کہ جو ان میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سواونٹوں کا گراں قدر انعام دیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ تلاش کرنے والے غار کے دھانے تک پہنچ گئے۔ حضرت انس ( رض) روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ( رض) نے فرمایا میں نبی ِکریم ﷺ کے ساتھ غار میں تھا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پائوں نظر آرہے ہیں میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا : ” ابوبکر خاموش رہو ہم دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے “۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : ماظنک یا ابا بکر باثنین اللہ ثالثھما (ابوبکر ایسے دو آدمیوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ ) مختصر یہ کہ تین دن کے بعد حضور غار سے نکلے۔ راہنما کی نگرانی میں ساحل کا راستہ اختیار کیا مختلف راستوں سے بچتے ہوئے اور اجنبی راستوں سے گزرتے ہوئے دو شنبہ 8 ربیع الاول 14 سنِ نبوی مطابق 23 ستمبر 622 ؁ عیسوی کو قبا میں وارد ہوئے۔ کفارِ قریش کی آپ کے بارے میں منصوبہ بندی اور آنحضرت کا سفرِ ہجرت دونوں کو واقعات کے آئینہ میں دیکھیں صاف نظر آتا ہے کہ قریش نے ایک مکر کیا یعنی حضور کی جان لینے کی کوشش کی اور وہ تمام ممکن کوششیں پایہ تکمیل کو پہنچا دیں جس کو دیکھتے ہوئے آپ کے زندہ رہنے کے امکانات صفر معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں ایک مکر اللہ نے کیا یعنی اللہ نے قریش کے مکر اور تدبیر کو ناکام کرنے کی تدبیر کی۔ جس کے نتیجے میں ان کی تمام یقینی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور اللہ کے نبی بخیریت تمام ان کی منصوبہ بندی کے جال کو توڑتے ہوئے اور ان کی سازشوں کو ناکام کرتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچ گئے۔ قریش اگرچہ آنحضرت کے بچ کے نکل جانے سے سخت برہم تھے لیکن ایک ان کو اطمینان بھی تھا کہ ان کے پہلو کا کانٹا نکل گیا اور وہ امید کرتے تھے کہ اجنبی ماحول میں آپ کی دعوت خود اپنی موت مرجائے گی۔ لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اب تک سورج گہن میں تھا اب وہ گہن سے نکل آیا ہے اور پوری آب وتاب سے مدینہ کے افق پر جگمگانے لگا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس کے نکل جانے سے قریش کے جسدِ قومی کی روح نکل گئی۔ اس کی ذات سے انھیں جو ایک تحفظ حاصل تھا وہ تحفظ اٹھ گیا۔ گزشتہ آیت کریمہ میں تمام کامیابیوں کی کلید تقویٰ کو ٹھہرایا گیا ہے اور یہ آیت اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ متقیوں کے امام آنحضرت ﷺ ہیں۔ ان کی زندگی سرتاپا تقویٰ سے عبارت ہے چناچہ ان کو مشکل ترین حالات میں جس طرح اللہ نے محفوظ رکھا اور کامیابیوں سے نوازا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے راستے پر چلنے والے اور اپنا تن من دھن اسی کے سپرد کردینے والے چاہے ہزاروں مشکلات میں بھی گھر جائیں اللہ کبھی ان کو بےسہارا نہیں چھوڑتا۔ وہ اس طرح ان کی مدد کرتا ہے کہ دشمن کی منصوبہ بندیاں دھری رہ جاتی ہیں۔
Top