Madarik-ut-Tanzil - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠   ۧ
وَّعَلَي : اور پر الثَّلٰثَةِ : وہ تین الَّذِيْنَ : وہ جو خُلِّفُوْا : پیچھے رکھا گیا حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب ضَاقَتْ : تنگ ہوگئی عَلَيْهِمُ : ان پر الْاَرْضُ : زمین بِمَا رَحُبَتْ : باوجود کشادگی وَضَاقَتْ : اور وہ تنگ ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر اَنْفُسُھُمْ : ان کی جانیں وَظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنْ : کہ لَّا مَلْجَاَ : نہیں پناہ مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ اِلَّآ : مگر اِلَيْهِ : اس کی طرف ثُمَّ : پھر تَابَ عَلَيْهِمْ : وہ متوجہ ہوا ان پر لِيَتُوْبُوْا : تاکہ وہ توبہ کریں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ ھُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنیوالا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
اور ان تینوں پر بھی (نظرِ رحمت فرمائی) جن کا معاملہ اٹھا رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب ان پر زمین تنگ ہوگئی باوجود کشادہ ہونے کے اور تنگ ہوگئیں ان پر ان کی جانیں اور وہ سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف۔ پھر اللہ نے ان پر عنایت کی نظر کی تاکہ وہ توبہ کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہے بہت توبہ قبول فرمانے والا اور ہمیشہ رحم کرنے والا
وَّعَلَی الثَّلٰـثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ط حَتّٰیٓ اذَاضَاقَتْ عَلَیْھمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلاَّ ٓ اِلَیْہِ ط ثُمَّ تَابَ عَلَیْھِمْ لِیَتُوْبُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ ع (التوبہ : 118) (اور ان تینوں پر بھی (نظرِ رحمت فرمائی) جن کا معاملہ اٹھا رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب ان پر زمین تنگ ہوگئی باوجود کشادہ ہونے کے اور تنگ ہوگئیں ان پر ان کی جانیں اور وہ سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف۔ پھر اللہ نے ان پر عنایت کی نظر کی تاکہ وہ توبہ کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ہے بہت توبہ قبول فرمانے والا اور ہمیشہ رحم کرنے والا۔ ) تین صحابہ کون ہیں یہ ان تین مخلص صحابہ کا ذکر ہے۔ جن کے نام کعب بن مالک، مرُارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ تھے۔ یہ تینوں مخلص اور سچے مومن تھے۔ بار بار اپنے اخلاص کا ثبوت دے چکے تھے۔ کبھی ان سے ایسی کوئی کوتاہی سر زد نہیں ہوئی تھی۔ ان میں سے آخرالذکر دو اصحاب غزوہ بدر میں بھی شریک ہوچکے تھے جن کی صداقتِ ایمانی ہر شک و شبہ سے بالا تھی کعب بن مالک بھی جنگ بدر کے علاوہ ہر غزوہ میں داد شجاعت دے چکے تھے۔ لیکن غزوہ تبوک کے موقع پر یہ تینوں بزرگ سستی کا شکار ہوئے اور آنحضرت کی ہم رکابی سے محروم ہوگئے۔ یہ ایک ایسی کوتاہی تھی۔ جو قابل در گزر نہ تھی چناچہ ان کی تمام خدمات کے باوجود سخت گرفت ہوئی۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کوئی ان سے سلام کلام نہ کرئے۔ چالیس دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ پچاس دن تک ان کا یہ مقاطعہ جاری رہا اس دوران ان پر جو گز ری جس طرح انھوں نے اپنے مخلص ہونے کا ثبوت دیا اور جس کے نتیجہ میں اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اسے انھیں بزرگوں میں سے ایک بزرگ کعب بن مالک نے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے صحیح بخاری اور مسلم اور اکثر کتب حدیث نے حضرت کعب کی اس تفصیلی حدیث کو نقل کیا ہے۔ ہم تفسیر مظہری سے اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) کا بیان رسول ﷺ نے جتنے غزوات میں شرکت کی میں ان سب میں بجز غزوہ تبوک کے آپ کے ساتھ شریک رہا، البتہ غزوہ بدر کا واقعہ چونکہ اچانک پیش آیا اور رسول ﷺ نے سب کو اس میں شریک ہونے کا حکم بھی نہیں دیا تھا اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں فرمایا تھا اس میں بھی شریک نہ ہوسکا تھا اور میں لیلۃ العقبہ کی بیعت میں بھی حاضر تھا جس میں ہم نے اسلام کی حمایت و حفاظت کا معاہدہ کیا تھا اور مجھے یہ بیعت عقبہ کی حاضری غزوہ بدر کی حاضری سے بھی زیادہ محبوب ہے اگرچہ غزوہ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے اور میرا واقعہ غزوہ تبوک میں غیر حاضری کا یہ ہے کہ میں کسی وقت بھی اس وقت سے زیادہ خوش حال اور مال دار نہ تھا .......... بخدا میرے پاس کبھی اس سے پہلے دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں جو اس وقت موجود تھیں اور رسول ﷺ کی عادت شریفہ غزوات کے معاملہ میں یہ تھی کہ مدینہ سے نکلنے کے وقت اپنے ارادے کے اخفاء کے لیے ایسا کرتے تھے کہ جس سمت میں جاکر جہاد کرنا ہوتا مدینہ سے اس کے خلاف سمت کو نکلتے تھے، تاکہ منافقین مخبری کر کے فریقِ مقابل کو آگاہ نہ کردیں اور فرمایا کرتے تھے کہ جنگ میں اس طرح کا دھوکہ جائز ہے، یہاں تک کہ یہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا ( یہ جہاد کئی وجہ سے ممتاز تھا) آپ ﷺ نے سخت گرمی اور تنگ دستی کی حالت میں اس جہاد کا قصد فرمایا اور سفر بھی بڑی دور کا تھا، مقابلہ پر دشمن کی قوت اور تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے رسول ﷺ نے اس جہاد کا کھل کر اعلان کردیا تاکہ مسلمان اس جہاد کے لیے پوری تیاری کرسکیں۔ اس جہاد میں شریک ہونے والوں کی تعداد صحیح مسلم کی روایت کے مطابق دس ہزار سے زائد تھی اور حاکم کی روایت حضرت معاذ ( رض) سے یہ ہے کہ ہم اس جہاد میں رسول ﷺ کے ساتھ نکلے تو ہماری تعداد تیس ہزار سے زائد تھی، اور اس جہاد میں نکلنے والوں کی کوئی فہرست نہیں لکھی گئی تھی اس لیے جو لوگ جہاد میں جانا نہیں چاہتے تھے ان کو یہ موقع مل گیا کہ ہم نہ گئے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔ جس وقت رسول ﷺ اس جہاد کے لیے نکلے تو یہ وہ وقت تھا کہ کھجوریں پک رہی تھیں۔ باغات والے ان میں مشغول تھے۔ اسی حالت میں رسول ﷺ اور عام مسلمانوں نے سفر کی تیاری شروع کردی اور جمعرات کے روز آپ ﷺ نے اس سفر کا آغاز کیا اور سفر کے لیے آنحضرت ﷺ کو جمعرات کا دن پسند تھا خواہ سفرجہاد کا ہو یا کسی دوسرے مقصد کا میرا حال یہ تھا کہ میں روز صبح کو ارادہ کرتا کہ جہاد کی تیاری کروں مگر بغیر کسی تیاری کے واپس آجاتا، میں دل میں کہتا تھا کہ میں جہاد پر قادر ہوں مجھے نکلنا چاہیے۔ مگر یوں ہی امروز وفردا میں میرا ارادہ ٹلتا رہا۔ یہاں تک کہ رسول ﷺ اور عام مسلمان جہاد کے لیے روانہ ہوگئے پھر بھی میرے دل میں یہ آتا رہا کہ میں بھی روانہ ہوجاؤں اور کہیں راستہ میں مل جاؤں اور کاش ! کہ میں ایسا کرلیتا مگر یہ کام (افسوس کہ) نہ ہوسکا۔ رسول ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں مدینہ میں کہیں جاتا تو یہ بات مجھے غمگین کرتی تھی کہ اس وقت پورے مدینہ میں یا تو وہ لوگ نظر پڑتے تھے جو نفاق میں ڈوبے ہوئے تھے یا پھر ایسے بیمار معذور جو قطعاً سفر کے قابل نہ تھے دوسری طرف پورے راستہ میں رسول ﷺ کو میرا خیال کہیں نہیں آیا یہاں تک کہ تبوک پہنچ گئے اس وقت آپ ﷺ نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ کعب بن مالک ( رض) کو کیا ہوا، وہ کہاں ہیں ؟ بنو سلمہ کے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ رسول ﷺ واپس تشریف لارہے ہیں تو مجھے بڑی فکر ہوئی اور قریب تھا کہ میں اپنی غیر حاضری کا کوئی عذر گھبرا کر تیار کرلیتا اور ایسی باتیں پیش کردیتا جس کے ذریعہ رسول ﷺ کی ناراضگی سے نکل جاتا اور اس کے لیے اپنے اہل اور دوستوں سے بھی مدد لے لیتا۔ میرے دل میں یہ خیالات اور وسوسے گھومتے رہے۔ یہاں تک کہ جب یہ خبر ملی کہ حضور ﷺ تشریف لے آئے ہیں تو خیالات فاسدہ میرے دل سے مٹ گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں آپ ﷺ کی ناراضگی سے کسی ایسی بنیاد پر نہیں نکل سکتا جس میں جھوٹ ہو۔ چناچہ میں نے بالکل سچ بولنے کا عزم کرلیا کہ مجھے صرف سچ ہی نجات دلا سکتا ہے۔ رسول ﷺ واپس تشریف لائے تو ( حسب عادت) چاشت کے وقت یعنی صبح کو آفتاب کچھ بلند ہونے کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے اور عادت شریفہ یہی تھی کہ سفر سے واپسی کا عموماً یہی وقت ہوا کرتا تھا اور عادت یہ تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے۔ دو رکعتیں پڑہتے۔ پھر حضرت فاطمہ کے پاس جاتے اس کے بعد ازواج مطہرات سے ملتے تھے۔ اسی عادت کے مطابق آپ ﷺ اول مسجد میں تشریف لے گئے۔ دو رکعت ادا کی پھر مسجد میں بیٹھ گئے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو غزوہ تبوک میں نہ جانے والے منافقین جن کی تعداد اسی سے کچھ اوپر تھی خدمت میں حاضر ہو کر جھوٹے غذر پیش کر کے اس پر جھوٹی قسمیں کھانے لگے۔ رسول ﷺ نے ان کے ظاہری قول وقرار اور قسموں کو قبول کرلیا اور ان کو بیعت کرلیا ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کے باطنی حالات کو اللہ کے سپ د کیا۔ اسی حال میں بھی حاضر خدمت ہوگیا اور چلتے چلتے سامنے جاکر بیٹھ گیا جب میں نے سلام کیا تو رسول ﷺ نے ایسا تبسم فرمایا جیسے ناراض آدمی کبھی کیا کرتاے اور بعض روایات میں ہے کہ رسول ﷺ نے اپنا رخ پھیرلیا تو میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ آپ مجھ سے چہرہ مبارک کیوں پھیرتے ہیں خدا کی قسم ! میں نے نفاق نہیں کیا نہ دین کے معاملہ میں کسی شبہ وشک میں مبتلا ہوا۔ نہ اس میں کوئی تبدیلی کی آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر جہاد میں کیوں نہیں گئے ؟ کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی ؟ میں نے عرض کیا بیشک یا رسول اللہ ﷺ اگر میں آپ ﷺ کے سوا دنیا کے کسی دوسرے آدمی کے سامنے بیٹھتا تو مجھے یقین ہے کہ میں کوئی عذز گھڑ کر اس کی ناراضگی سے بچ جاتا کیونکہ مجھے جدال اور بات بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ لیکن قسم ہے اللہ کی کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر میں نے آپ ﷺ سے کوئی جھوٹی بات کہی جس سے آپ ﷺ وقتی طور پر راضی ہوجائیں تو کچھ دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقتِ حال آپ ﷺ پر کھول کر مجھ سے ناراض کردیں گے اور اگر میں نے سچی بات بتلا دی جس سے بالفعل آپ مجھ پر ناراض ہوں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے۔ صحیح بات یہ ہی کہ جہاد سے غائب رہنے میں میرا کوئی غذر نہیں تھا میں کسی وقت بھی مالی اور جسمانی طور پر اتنا قوی اور پیسے والا نہیں ہوا تھا جتنا اس وقت تھا۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے سچ بولا ہے پھر فرمایا کہ اچھا جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فرمادیں میں یہاں سے اٹھ کرچلا تو بنی سلمہ کے چند آدمی میرے پیچھے لگے اور کہنے لگے کہ اس سے پہلے تو ہمارے علم میں تم نے کوئی گناہ نہیں کیا یہ تم نے کیا بےوقوفی کی اس وقت کوئی عذر پیش کردیتے جیسا دوسرے متخلفین نے پیش کیا اور تمہارے گناہ کی معافی کے لیے رسول ﷺ کا استغفار کرنا کافی ہوجاتا۔ بخدا یہ لوگ مجھے بار بار ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آگیا کہ میں لوٹ جاؤں اور پھر جا کر عرض کروں کہ میں نے جو بات پہلے کہی تھی وہ غلط تھی۔ میرا عذر صحیح موجود تھا۔ مگر پھر میں نے دل میں کہا کہ میں ایک گناہ کے دو گناہ نہ بنائوں۔ ایک گناہ تو تخلف کا سرزد ہوچکا ہے دوسرا گناہ جھوٹ بولنے کا کر گذ روں پھر میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ متخلفین میں کوئی اور بھی میرے ساتھ ہے جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہو ان لوگوں نے بتلایا کہ دو آدمی اور ہیں جنھوں نے تمہاری طرح اقرار جرم کرلیا اور ان کو بھی وہی جواب دیا گیا جو تمہیں کہا گیا ہے ( کہ اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو) میں نے پوچھا کہ وہ دو کون ہیں انھوں نے بتلایا کہ ایک مرارہ ابن ربیع العمری دوسرے ہلال بن امیہ واقفی ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ ان میں سے پہلے ( یعنی مرارہ) کے تخلف کا تو سبب یہ ہوا کہ ان کا ایک باغ تھا جس کا پھل اس وقت پک رہا تھا تو انھوں نے اپنے دل میں کہا کہ تم نے اس سے پہلے بہت سے غزوات میں حصہ لیا ہے اگر اس سال جہاد میں نہ جاؤ تو کیا جرم ہے۔ اس کے بعد جب انھیں اپنے گناہ پر تنبہ ہوا تو انھوں نے اللہ سے عہد کرلیا کہ یہ باغ میں نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ اور دوسرے بزرگ حضرت ہلال بن امیہ کا یہ واقعہ ہوا کہ ان کے اہل و عیال عرصہ سے متفرق تھے اس موقع پر سب جمع ہوگئے تو یہ خیال کیا کہ اس سال جہاد میں نہ جاؤں اپنی اہل و عیال میں بسر کروں۔ ان کو بھی جب اپنے گناہ کا خیال آیا تو انھوں نے یہ عہد کیا کہ اب میں اپنے اہل و عیال سے علیحدگی اختیار کرلوں گا۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے ایسے دو بزرگوں کا ذکر کیا جو غزوہ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں تو میں نے کہا کہ بس میرے لیے انہی دونوں بزرگوں کا عمل قابل تقلید ہے۔ یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا گیا۔ ادھر رسول ﷺ نے صحابہ کرام کو ہم تینوں کے ساتھ کلام کرنے سے منع فرمادیا اس وقت ہم تو سب مسلمانوں سے بدستور محبت کرتے تھے مگر ان سب کا رخ ہم سے پھر گیا تھا۔ ابن ابی شیبہ ( رض) کی روایت میں ہے کہ اب ہمارا حال یہ ہوگیا کہ ہم لوگوں کے پاس جاتے تو کوئی ہم سے کلام نہ کرتا نہ سلام کرتا نہ سلام کا جواب دیتا۔ مسند عبد الرزاق میں ہے کہ اس وقت ہماری دنیا بالکل بد ل گئی ایسا معلوم ہونے لگا کہ نہ وہ لوگ ہیں جو پہلے تھے نہ ہمارے باغ اور مکان وہ ہیں جو پہلے تھے سب اجنبی نظر آنے لگے مجھے سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اس حال میں مرگیا تو رسول ﷺ میرے جنا زہ کی نماز نہ پڑہیں گے یاخدانخواستہ اس عرصہ میں حضور ﷺ کی وفات ہوگئی تو میں عمربھر اسی طرح سب لوگوں میں ذلیل و خوار پھرتا رہوں گا اس کی وجہ سے میرے لیے ساری زمین بیگانہ ویرانہ نظر آنے لگی۔ اسی حال میں ہم پر پچاس راتیں گذر گئیں اس زمانہ میں میرے دونوں ساتھی ( مرارہ اور ہلال) تو شکستہ دل ہو کر گھر میں بیٹھ رہے اور ات دن روتے تھے لیکن میں جوان آدمی تھا باہرنکلتا اور چلتا پھرتا تھا اور نماز میں سب مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا اور بازار میں پھرتا تھا مگر نہ کوئی مجھ سے کلام کرتا نہ میرے سلام کا جواب دیتا رسول ﷺ کی مجلس میں نماز کے بعد حاضر ہوتا اور سلام کرتا تو یہ دیکھا کرتا تھا کہ رسول ﷺ کے لب مبارک کو جواب سلام کے لیے حرکت ہوئی یا نہیں پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑہتا تو نظر چرا کر آپ کی طرف دیکھتا تو معلوم ہو تاکہ جب میں نماز میں مشغول ہوجاتا ہوں تو آپ ﷺ میری طرف دیکھتے ہیں اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا ہوں تو رخ پھیر لیتے ہیں۔ جب لوگوں کی یہ بیوفائی دراز ہوئی تو ایک روز میں اپنے چچازاد بھائی حضرت قتادہ ( رض) کے پاس گیا جو میرے سب سے زیادہ دوست تھے میں ان کے باغ میں دیوار پھاند کر داخل ہوا اور ان کو سلام کیا خدا کی قسم انھوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے پوچھا کہ اے قتادہ کیا تم نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ اس پر بھی قتادہ نے سکوت کیا کوئی جواب نہیں دیاجب میں نے بار بار یہ سوال دہرایا تو تیسری یا چوتھی مرتبہ میں انھوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ جانتا ہے اور اس کا رسول ﷺ میں رو پڑا اور اسی طرح دیوار پھاند کر باغ سے باہر آگیا اسی زمانہ میں ایک روز میں مدینہ کے بازار میں چل رہا تھا کہ اچانک ملک ِشام کا ایک نبطی شخص جو غلہ فروخت کرنے کے لیے شام سے مدینہ میں آیا تھا اس کو دیکھا کہ لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ کیا کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتاسکتا ہے ؟ لوگوں نے مجھے دیکھ کر میری طرف اشارہ کیا وہ آدمی میرے پاس آگیا اور مجھے شاہ غسان کا ایک خط دیاجو ایک ریشمی رومال پر لکھا ہوا تھا جس کا مضمون یہ تھا : ” اما بعد ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ کے نبی نے آپ سے بیوفائی کی اور آپ کو دور کر رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت اور ہلاکت کی جگہ میں نہیں رکھا ہے۔ تم اگر ہمارے یہاں آنا پسند کرو تو آجاؤ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ “ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ ایک اور امتحان اور آزمائش آئی کہ اہل کفر کو مجھ سے اس کی طمع اور توقع ہوگئی (کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں) میں یہ خط لے کر آگے بڑھا ایک دکان پر تنور لگا ہوا تھا اس میں جھونک دیا۔ حضرت کعب ( رض) فرماتے ہیں کہ جب پچاس میں سے چالیس راتیں گذر چکی تھیں تو اچانک دیکھا کہ آپ ﷺ کے ایک قاصد خزیمہ بن ثابت میرے پاس آرہے ہیں آکر یہ کہا کہ آپ ﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلو میں نے پوچھا کہ کیا طلاق دیدوں انھوں نے بتلایا کہ نہیں عملاً اس سے الگ رہو قریب نہ جاؤ اسی طرح کا حکم میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی پہنچا میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے میں چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ نہ فرما دیں۔ ہلال بن امیہ کی اہلیہ خولہ بنت عاصم یہ حکم سن کر رسول ﷺ کی خدمت حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہلال بن امیہ ایک بوڑھے ضعیف آدمی ہیں اور کوئی ان کا خادم نہیں ابن ابی شیبہ ( رض) کی روایت یہ بھی ہے کہ وہ ضعیف البصر بھی ہیں کیا آپ یہ پسند نہیں فرمائیں گے کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں فرمایا کہ خدمت کر نیکی ممانعت نہیں البتہ وہ تمہارے پاس نہ جائیں انھوں نے عرض کیا کہ وہ تو بڑھاپے کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں کہ ان میں کوئی حرکت ہی نہیں اور واللہ ان پر تو مسلسل گریہ طاری ہے رات دن روتے رہتے ہیں۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) فرماتے ہیں مجھے بھی میرے بعض متعلقین نے مشورہ دیا کہ تم بھی آنحضرت ﷺ سے بیوی کو ساتھ رکھنے کی اجازت لے لو جیسا کہ آپ نے حضرت ہلال ( رض) کو اجازت دیدی ہے میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ معلوم نہیں رسول ﷺ کیا جواب دیں اس کے علاوہ میں جوان آدمی ہوں ( بیوی کو ساتھ رکھنا احتیاط کے خلاف ہے) چناچہ اسی حال پر میں نے دس راتیں گذاریں یہاں تک کہ پچاس راتیں مکمل ہوگئیں۔ مند عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ اس وقت ہماری توبہ رسول ﷺ پر ایک تہائی رات گزر نے کے وقت نازل ہوئی۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ ( رض) جو اس وقت حاضر تھیں انھوں نے عرض کیا اجازت ہو تو حضرت کعب بن مالک ( رض) کو اسی وقت اس کی خبر کردی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا ہوتوابھی لوگوں کا ہجوم ہوجائے گا، رات کی نیند مشکل ہوجائے گی۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) فرماتے ہیں کہ پچاسویں رات کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور حالت وہ تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے کہ مجھ پر میری جان اور زمین باوجود وسعت کے تنگ ہوچکی تھی۔ اچانک میں نے سلع پہاڑ کے اوپر سے کسی چلانیوالے آدمی کی آواز سنی جو بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک بشارت ہو۔ محمد بن عمرو کی روایت میں ہے کہ یہ بلند آواز سے کہنے والے ابوبکر تھے جنھوں نے جبل سلع پر چڑھ کر یہ آواز دی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت کعب بن مالک ( رض) کی توبہ قبول فرمالی بشارت ہو اور عقبہ کی روایت میں یہ ہے کہ یہ خوشخبری کعب کو سنانے کے لیے دو آدمی دوڑے ان میں سے ایک آگے بڑھ گیا تو جو پیچھے رہ گیا تھا اس نے یہ کیا کہ سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دیدی اور کہا جاتا ہے کہ یہ دوڑنے والے دو بزرگ حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم ( رض) تھے۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) فرماتے ہیں کہ یہ آواز سن کر میں سجدے میں گرگیا اور انتہائی فرحت سے رونے لگا اور مجھے معلوم ہوگیا کہ اب کشادگی آگئی رسول ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ کرام کو ہماری توبہ قبول ہو نیکی خبر دی تھی۔ اب سب طرف سے لوگ ہم تینوں کو مبارکباد دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ بعض لوگ گھوڑے پر سوار ہو کر میرے پاس پہنچے مگر پہاڑ سے آواز دینے والے کی آواز سب سے پہلے پہنچ گئی۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) کہتے ہیں کہ میں رسول ﷺ کی خدمت میں حاضری کے لیے نکلا تو لوگ جوق در جوق مجھے مبارکباد دینے کے لیے آرہے تھے کعب فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہیں آپ کے گرد صحابہ کرام کا مجمع ہے مجھے دیکھ کر سب سے پہلے طلحہ بن عبید اللہ کھڑے ہو کر میری طرف لپکے اور مجھ سے مصافحہ کر کے قبول توبہ پر مبارکباد دی۔ حضرت طلحہ ( رض) کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولتا جب میں نے رسول ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ کا چہرہ مبارک خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا آپ نے فرمایا کہ اے کعب بشارت ہو تمہیں ایسے مبارک دن کی جو تمہاری عمر میں پیدائش سے لے کر اب تک سب سے زیادہ بہتر دن ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ حکم اللہ تعالیٰ کا ہی ہے۔ تم نے سچ بولا تھا اللہ تعالیٰ نے تمہاری سچائی کو ظاہر فرمادیا۔ جب میں آپ کے سامنے بیٹھا تو عرض کیا یارسول ﷺ میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سب مال و متاع سے نکل جاؤں کہ سب کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں آپ نے فرمایا نہیں کچھ مال اپنی ضرورت کے لیے رہنے دو یہ بہتر ہے میں نے عرض کیا کہ اچھا آدھا مال صدقہ کردوں آپ نے اس سے بھی انکار فرمایا میں نے پھر ایک تہائی مال کی اجازت مانگی۔ تو آپ نے اس کو قبول فرمالیا میں نے عرض کیا یا رسول ﷺ مجھے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے اس لیے میں عہد کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کبھی سچ کے سوا کوئی کلمہ نہیں بولوں گا پھر فرمایا کہ جب سے میں نے رسول ﷺ سے یہ سچ بولنے کا عہد کیا تھا الحمد اللہ کہ آج تک کوئی کلمہ جھوٹ کا میری زبان پر نہیں آیا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھیں گے۔ کعب ( رض) فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اسلام کے بعد اس سے بڑی نعمت مجھے نہیں ملی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سچ بولا جھوٹ سے پرہیز کیا کیونکہ اگر میں جھوٹ بولتا تو اسی طرح ہلاکت میں پڑجاتا جس طرح دوسرے جھوٹی قسمیں کھانیوالے ہلاک ہوئے جن کے بارے میں یہ نازل ہوا۔ سیحلفون با اللہ الکم اذا انفلبتم الیھم سے لے کر فان اللہ لا یرضی عن القوم الفسقین تک بعض حضرات نے فرمایا کہ ان تینوں حضرات سے مقاطعہ کا پچاس دن تک جاری رہنا شاید اس حکمت پر مبنی تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے غزوہ تبوک میں پچاس دن ہی صرف ہوئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک ( رض) کی زبان سے ہم نے تفصیل سے وہ واقعات سنے ہیں۔ جو ان تین بزرگوں کی توبہ کے حوالے سے پیش آئے۔ اس میں ہمارے لیے نصیحت اور عبرت کے متعدد اسباق ہیں۔ جیسے جیسے ان واقعات پر غور کیا جاتا ہے ویسے ویسے نئی نئی باتیں ذہنی افق پر روشن ہونے لگتی ہیں جن میں سے ہم چند ایک کا تذکرہ کریں گئے۔ حصول نصیحت و عبرت کے مواقع 1 غور فرمائے یہ تینوں بزرگ جنھیں پچاس دنوں تک مقاطعہ کی سزا دی گئی اور انھیں اسلامی معاشرہ سے کاٹ کر رکھ دیا گیا اپنے گذشتہ اعمال اور قر بانیوں کی ایک روشن تاریخ رکھتے تھے۔ ان کا نامہ عمل ہر طرح کی اجتماعی کوتاہی سے معرا تھا۔ ان سے صرف یہ غلطی ہوئی کہ وہ غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ اس پر انھیں یہ بتانے کے لیے سخت ترین سزا دی گئی کہ حق و باطل کی کشمکش میں شرکت سے پہلو تہی کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کفر اور اسلام کی آویزش میں مومن کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ اسی میں اس کے ذاتی جوہر جلا پاتے ہیں اور اسی کے باعث حق کا قافلہ آگے بڑھتا ہے۔ کوئی شخص اپنی ذات میں کیسا ہی عبادت گزار اور متقی کیوں نہ ہو۔ حق و باطل کی کشمکش میں عدم شرکت کے باعث رانداہ درگاہ قرار پاتا ہے اور اگر وہ اپنی روش تبدیل نہیں کرتا تو اسے اسلامی قافلہ سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ : ہر کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ ما نیست 2 اس واقعہ میں تین کردار ہمارے سامنے ہیں۔ نبی کریم ﷺ ، کعب بن ما لک اور ان کے ساتھی اور اسلامی معاشرہ۔ جہاں تک نبی کریم ﷺ کا تعلق ہے آپ باوجود اس کے کہ مہاجرین و انصار سے بےپناہ محبت کرتے تھے۔ لیکن آپ کی محبت اسلام کی محبت کے زیر اثر تھی۔ آپ کے نزدیک ہر وہ شخص آپ کی توجہ کا اہل تھا۔ جو اللہ کی بندگی اور جہاد فی سبیل اللہ میں اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا۔ چا ہے وہ شخص اپنی ذات میں بےنام و نسب، بےبس اور بےکس ہو اور جو شخص آپ کی نگاہ میں اپنی خدمات جلیلہ کے اعتبار سے نہایت عزت و وجاہت کا مالک ہے۔ لیکن وہ حق و باطل کی کشمکش میں شریک ہونے کی بجائے گھر بیٹھ رہتا ہے۔ تو وہ اپنی گزشہ تمام خدمات کے باوجود سزا و عتاب کا مستحق ہوگا اور اگر اس سزا کے دوران وہ شخص اپنے وفا و اطاعت میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دیتا بلکہ وہ مسلسل معافی قبول کرنے کا خواستگار رہتا ہے تو سزا کے دوران بھی نبی کریم ﷺ کی نگاہیں اس کی بلائیں لیتی ہیں اور اس کی قبولیت توبہ کے لیے آپ دعا مانگتے ہیں۔ آپ کا رویہ اس محبت کرنے والے باپ کی طرح ہے۔ جو اپنے بیٹے کو نافرمانی پر سزا دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کا سینہ ہر وقت منتظر رہتا ہے کہ کب اس کا بیٹا معافی مانگ کر سینے سے چمٹ جاتا ہے۔ چناچہ ایسا ہی رویہ آنحضرت ﷺ کا ان تینوں بزرگوں کے ساتھ رہا۔ 3 حضرت کعب بن مالک ( رض) اور ان کے ساتھی۔ یہ تینوں بزرگ اپنے معاشرے کے معزز افراد ہیں۔ انھیں اپنے دائرہ کار میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ گزشتہ اسلامی تاریخ میں ان کی خدمات کسی سے کم نہیں۔ بااین ہمہ انھیں مقا طعہ کی سخت سزا دی گئی۔ کوئی ان سے کلام نہیں کرتا اور کوئی سلام کا جواب دینے کا روادار نہیں۔ ایک کوتاہی پر سالوں کی خدمات فراموش کردی گئی ہیں۔ عزت خاک میں ملا دی گئی ہے۔ اس کے رد عمل میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان بزرگوں کے نفس پر چوٹ پڑتی وہ اسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بناتے لوگوں میں دوڑ بھا گ کرتے اپنا ایک گروپ بنانے کی کوشش کرتے۔ قیادت کے بارے میں غلط فہمیوں کا طوفان کھڑا کردیتے۔ لیکن اس کے برعکس تینوں بزرگ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور اپنے آپ کو بڑی سے بڑی سزا کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ شبِ روز کے بیشتر حصہ میں اللہ کے سامنے رو رو کر اپنی کوتاہی کی معافی چاہتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کے سوا کوئی نہیں بچاسکتا۔ کعب بن مالک کو غسان کا بادشاہ اپنے پاس آنے اور قدر و منزلت کے منصب پر فائز کرنے کی پیشکش کرتا ہے۔ لیکن کعب اس کا ریشم میں لپٹا ہوا مکتوب جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ اپنے قریبی دوستوں کو اللہ کا واسطہ دے کر بات کرنے کی کوشش کرتے ہے۔ لیکن کوئی ان کو منہ لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس طرح سے مدینہ کی سرزمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہو کر رہ گئی۔ حتی کہ کے چالیسوں دن ان کی بیویوں کو بھی علیحدہ ہونے کا حکم دیے دیا گیا اب وہ اپنی ذات میں بالکل یکہ و تنہا ہیں۔ لیکن ان کا غرور نفس بھڑکنے کی بجائے جھکتا اور پگھلتا جارہا ہے۔ انھیں یقین ہوگیا ہے۔ جس نے دیا ہے درد وہی چارہ گر بھی ہے کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات یہ ہے ان بزرگوں کا کردار جس سے اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے ان کو اٹھا کر اپنی آغوش میں لے لیا۔ 4 اِسلامی معاشرہ۔ کسی بھی معاشرہ کی اصل قوت اس کا نظم و ڈسپلن ہوتا ہے۔ جن صداقتوں پر معاشرہ کی بنیاد اٹھائی جاتی ہے ان صداقتوں پر بےپناہ یقین معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھتا ہے۔ قیادت کے ساتھ بےپناہ لگائو اور اطاعت کا جذبہ معاشرہ میں روح کی طرح کارفرما رہ کر زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ اِسلامی معاشرہ ان تمام حقائق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ جن بزرگوں کا سزا دی گئی اس معاشرے سے ان کی قرابت داریاں ہیں۔ انھیں سے ان کے وطنی و نسبی رشتے ہیں۔ نہ جانے ان میں سے کتنے لوگوں کی ان کے ساتھ دوستیاں اور کاروباری رشتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی قیادت کی طرف سے حکم آتا ہے کہ ان کا بائیکاٹ کردو۔ تو معاشرے کا ایک ایک فرد ان سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ کعب اپنے چچا ذاد بھائی قتادہ جو ان کے بچپن کے دوست بھی ہیں سے پوچھتے ہیں کہ قتادہ تم میرے بھائی ہو میں تم کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ وہ جواب ہی نہیں دیتے تیسری دفعہ قسم دینے پر صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ کعب مسجد میں جاتے ہیں۔ لوگوں کو سلام کرتے ہیں۔ کوئی سلام کا جواب نہیں دیتا۔ بازار میں نکلتے ہیں۔ کوئی منہ نہیں لگاتا۔ مدینے کا پورا معاشرہ ایک حکم کے ساتھ ایک راستے پر چل نکلا ہے۔ اس راستے سے نہ انھیں قرابت روکتی ہے نہ دوستیاں کام دیتی ہیں نہ کوئی اور تعلق انھیں رویہ بدلنے پر مجبور کرتا ہے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سب کچھ ہے۔ وہ اسی کے مطابق جینا اور مرنا جانتے ہیں۔ ان تینوں کرداروں کو غور سے دیکھے۔ آپ کو ان کے اندر ایک ہی روح کار فرما دکھائی دے گی اور وہ ہے ایمان۔ یعنی اللہ پر ایمان اور اللہ کے رسول پر ایمان۔ آخرت پر ایمان وہ صرف اللہ کو اپنا مالک اور حاکم سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو آئیڈیل اور راہنما جانتے ہیں اور آخرت میں جواب دہی کے لیے ہر وقت فکر مند رہتے ہیں۔ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت ان کے لیے ضابطہ حیات ہے۔ یہی وہ حقائق ہیں۔ جن سے ان کی زندگی عبارت ہے اور اسی نے ان کو دنیوی اور اخروی کامیابیوں کا مستحق بنایا ہیں۔
Top