Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 20
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَهَاجَرُوْا : اور انہوں نے ہجرت کی وَجٰهَدُوْا : اور جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَ : اور اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں اَعْظَمُ : بہت بڑا دَرَجَةً : درجے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے ہاں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی لوگ هُمُ : وہ الْفَآئِزُوْنَ : مراد کو پہنچنے والے
جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا ان کا درجہ اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے اور وہی لوگ کامیاب و کامران ہیں۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ لا اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَاللّٰہِ ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ یُبَشِّرُھُمْ رَبُّھُمْ بِرَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَرِضْوَانٍ وَّجَنّٰتٍ لَّھُمْ فِیْھَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌ لا خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاطاِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (التوبۃ : 20 تا 22) (جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کیا ان کا درجہ اللہ کے ہاں بہت بڑا ہے اور وہی لوگ کامیاب وکامران ہیں۔ خوشخبری دیتا ہے ان کو ان کا رب اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ایسے باغوں کی جن میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے بیشک اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔ ) مومن کا سراپا بحث کو سمیٹتے ہوئے مسلمانوں کے سامنے مکمل اور ہمیشہ کی راہنمائی کے لیے ان انسانوں کا سراپا لاکر کھڑا کردیا ہے جو اللہ کو مطلوب اور محبوب ہیں تاکہ جب بھی مسلمان کامیابی اور کامرانی کا راستہ تلاش کریں تو یہ سراپا انھیں راہنمائی کے لیے کفایت کرے۔ اس میں سب سے پہلی صفت وہی بیان کی گئی ہے جس کا ذکر سابقہ آیت کریمہ میں بھی ہواکیون کہ ایک مومن جو دنیا بھر کے کافروں سے الگ راستہ اختیار کرکے ایک نئی زندگی اختیار کرتا ہے اس کا آغاز ایمان سے ہی ہوتا ہے۔ اہل دنیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کامیابیوں اور کامرانیوں کا راز دولت دنیا اور اقتدار میں ہے۔ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنا پھر اس کے بل بوتے پر انسانوں کو اپنا غلام بنانا اور پھر اسی کے سہارے اقتدار کے مناصب پر فائز ہوجانا یہ ایک دنیادار انسان کی زندگی کا خلاصہ بھی ہے اور معراج بھی۔ تعلیم صرف دولت کمانے کا ذریعہ ہے اور دولت ہر طرح کی آسائش حاصل کرنے، سر پر کلغی سجانے، اپنی عظمت کے ڈنکے بجانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا نام ہے۔ لیکن اسلام بالکل اس کے برعکس ایک دوسرا تصور دیتا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ دولت دنیا ایک ضرورت ہے اور ضروریات کے حصول کا ذریعہ بھی۔ لیکن انسانی زندگی کا حاصل اور اس کی معراج چند مقاصد سے وابستہ ہے۔ ان مقاصد کا حصول انسان کے فرائض میں داخل کیا گیا ہے۔ اور انہی مقاصد کو انسانی زندگی کی کامیابی کی ضمانت بنایا گیا ہے۔ ضروریاتِ زندگی کے لیے محنت حیوان بھی کرتا ہے اور کافر بھی اور مسلمان کو بھی زندگی کی بقاء کے لیے ایک حد تک ان کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن مسلمان کا اصل ہدف صرف دنیا کمانا اور اس کو بیش از بیش ترقی دینا، عیش و عشرت کے اسباب فراہم کرنا اور دوسروں سے آگے بڑھنے کی دھن میں زندگی صرف کردینانھیں ہے۔ اس کا اصل ہدف اللہ کی معرفت اور اس کی رضا کا حصول ہے۔ جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ کائنات کی ایک ایک چیز میری چاکری میں دی گئی ہے میں ان کا مقصود بنایا گیا ہوں اور وہ میری خدمت بجالانے میں کبھی کوتاہی کی مرتکب نہیں ہوتیں۔ میری غذا بہم پہنچانے کے لیے سورج چاند، ہوا اور مٹی اور موسموں کے تغیرات اپنااپنا فرض انجام دیتے ہیں۔ صرف اتنی بات کے لیے کہ مجھے غذا ملنی چاہیے تمام عناصرِ قدرت مسلسل کوشاں نظر آتے ہیں کیونکہ انھیں اسی مقصد کی خاطر پیدا کیا گیا ہے۔ انسان جو کائنات کا گل سرسبد ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا گیا ہو اللہ کے پیغمبر اور ان پر اترنے والی کتابیں انسانوں پر واضح کرتی ہیں کہ تم کائنات کے مخدوم ہو لیکن اللہ کے بندے ہو۔ اس کی بندگی بجالانا تمہارا اولین فریضہ ہے۔ رہی یہ بات کہ بندگی کا حق ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور اس کی کتابیں اس ضرورت کو بتمام و کمال ادا کرتی ہیں۔ انسان کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کو پہچان کر اپنے فریضہ زندگی کو جان کر اللہ کے نبیوں کی راہنمائی میں زندگی گزارے۔ جب آدمی اس بات کو سمجھ لیتا ہے اور قبول کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو اسی کو ” ایمان “ کہتے ہیں۔ اللہ کی طرف سے آنے والی راہنمائی کو قبول کرنا اور دل کی گہرائیوں سے اس کا یقین کرنا اور پھر کبھی اس میں شک وارتیاب کا کانٹا نہ چبھنے دینا یہ وہ ایمان ہے جس سے انسان کی حقیقی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کی بیشتر باتیں چونکہ انسان کی خواہشات کے برعکس ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بہت سی باتیں عالم غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان باتوں کو قبول کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک آدمی اس بات کا یقین پیدا نہ کرے کہ اللہ کی طرف سے آنے والی راہنمائی میں جو کچھ میرے حوالے کیا جارہا ہے اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ اللہ کے آخری نبی کے آجانے اور آخری کتاب کے نزول کے بعد اللہ کی طرف سے آنے والی راہنمائی مکمل ہوگئی۔ اب اس سے فائدہ اٹھانے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آدمی اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کرے اور یقین کے ساتھ تسلیم کرے۔ دنیا اپنے عقل و دانش کے بل بوتے پر ہزار نئی نئی راہیں نکالے اور زندگی کے نئے نئے تجربے کرے لیکن ایک مومن کے لیے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت کی راہنمائی کے سوا کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے اور کبھی اس کے یقین میں لرزش پیدا نہ ہو۔ اسے کامل یقین ہو کہ اللہ کا علم ہر نارسائی سے پاک ہے۔ اس کا آخری نبی باقی نبیوں کی طرح ہر انسانی کمزوری سے مبرّا ہے۔ اس کی لائی ہوئی تعلیم کے بنیادی ماخذ بتمام و کمال محفوظ ہیں۔ نئی ضرورتوں کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ لیکن جن باتوں پر شریعت فیصلہ دے چکی ہے ان میں کوئی قلم کاری نہیں ہوسکتی۔ اس پر جتنا پختہ ایمان اور یقین ہوگا اتنا ہی اللہ اور اس کے رسول کی راہنمائی پر چلنا ایک مومن اور امت مسلمہ کے لیے آسان ہوجائے گا اور دوسری یہ بات کہ جب آدمی اللہ کے احکام پر عمل کرے تو اس کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس بات کا سوفیصد یقین رکھے کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میں ہر وقت اس کی نگاہوں میں ہوں، میری کوئی تنہائی اس سے محفوظ نہیں، وہ میرے صرف ظاہری اعمال کو نہیں بلکہ باطنی اعمال اور دل کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ جس آدمی کو اس بات کا یقین ہوگا وہ کبھی گناہ نہیں کرسکے گا۔ کبھی گناہ کی بات سوچ بھی نہیں سکے گا، وہ کبھی کسی کا نقصان نہیں کرے گا، اس کا قدم کبھی غلط جگہ پر چل کر نہیں جائے گا۔ اس کی نگاہ آوارہ نہیں ہوگی، اس کے دل کے خیالات بےقابو نہیں ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اگر اسے اس بات کا بھی یقین میسر آجائے کہ میرے اللہ کی قدرتیں بےپناہ ہیں، دنیا ساری مل کر اس کے ارادے کو بدل نہیں سکتی، وہ چاہے تو چشم زدن میں سمندر کو صحرا میں اور صحرا کو سمندر میں تبدیل کردے۔ اس کی بےپناہ قدرت ہمیشہ اس آدمی کی تائید ونصرت میں ہوتی ہے جو شریعت کے مطابق اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے زندگی کا ہر قدم اٹھاتا ہے، وہ بڑے بڑے بادشاہوں کو کٹھ پتلیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتاکیون کہ وہ جانتا ہے کہ ان کی طاقت مصنوعی اور چند روزہ ہے۔ اللہ کے لشکر بیشمار ہیں، اللہ جب اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے تو کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ ایمان کے ادنیٰ تقاضے ہیں جس سے بہرہ ور ہو کر انسانی زندگی میں انقلابِ عظیم آجاتا ہے۔ اس کی زندگی طہارتِ فکر اور طہارتِ عمل کا پیکر بن جاتی ہے۔ وہ چیتھڑے پہن کر بھی اللہ کے بھروسے پر بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں ایک بےطاقت آدمی ہوں لیکن میری پشت پر سب طاقتوں کا پروردگار ہے۔ ان تصورات سے چونکہ زندگی کی بنیاد اٹھتی ہے اور اسی کی روشنی میں زندگی کی عمارت بلند ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم نے باربار ایمان کا ذکر کیا ہے۔ 2 ایمان کے بعد اس آیت کریمہ میں ہجرت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ہجرت ایمان کا تقاضا بھی ہے اور ایمان کا پھل بھی۔ ہجرت کا معنی ہے ” چھوڑ دینا “۔ فتحِ مکہ سے پہلے اپنا گھر اور اپنا مال و دولت چھوڑ کر مدینہ پہنچنا ہجرت کہلاتا تھا۔ لیکن فتحِ مکہ کے بعد اپنا وطن چھوڑ کر مرکز اسلام میں پہنچنا اس لیے ضروری نہ رہا کیونکہ پورا جزیرہ عرب آہستہ آہستہ اسلام کے زیر نگیں آگیا اور اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ لیکن فتحِ مکہ کے بعد بھی ہجرت کا ایک تصور باقی رہا اور قیامت تک باقی رہے گا۔ وہ ہجرت وہ ہے جس کے بارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : المہاجرمن ھجر مانھی اللہ عنہ (مہاجر وہ ہے جو ہر وہ چیز چھوڑ دے جس سے اللہ نے روکا ہے) پہلے وطن چھوڑنے کو ہجرت کہا جاتا تھا اب ہر اس بات کو چھوڑ دینا جسے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے اللہ کے اوامر پر عمل کرنا اور نواہی سے رکنا، یہ وہ ہجرت ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔ یہ ہجرت جیسا کہ عرض کیا گیا ایمان کا لازمی تقاضا ہے، جو آدمی اللہ اور اسکے رسول کے ہر حکم کی صداقت پر یقین رکھتا ہے وہ اگر کرنے کی بات ہے تو اس پر ضرور عمل کرے گا اور اگر رکنے کی بات ہے تو وہ اسے ضرور چھوڑ دے گا۔ اور اگر وہ شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے رکتانھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے شریعت کے احکام پر یقین نہیں وہ انھیں مانتا ضرور ہے لیکن ایسی بےدلی سے جس کا عملی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایمان ایسے ماننے کو نہیں کہتے۔ اس لیے قرآن کریم نے ایک جگہ فرمایا یایھا الذین امَنُوا امِنُوا (اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ایمان لائو) یعنی ایسا ایمان جو تمہیں آمادہ عمل نہیں کرتاجو تمہاری زندگی پر حکمران نہیں جس کی موجودگی میں تم اللہ کی نافرمانی کرنے کی جسارت کر گزرتے ہو اور اللہ کے رسول کی سنتوں کو توڑتے ہو وہ ایمان نہیں محض زبان کا جمع خرچ ہے۔ حقیقی ایمان آدمی کو اللہ سے غافل نہیں ہونے دیتا، رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کسی اور محبت کو غالب نہیں آنے دیتا۔ شریعت کی ایک ایک بات اس کے دل کی آواز بن جاتی ہے اور اگر کبھی بشری تقاضے سے کوئی گناہ کر گزرتا ہے تو اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ معمولی غفلت پر وہ اس قدر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ حضرت طلحہٰ ( رض) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دن اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ باغ کا گھنا سایہ کھجوروں کے باہم پیوستہ درخت، انگور کی چڑھی ہوئی شاخیں، ایسے گھنے سائے میں نہ جانے چند چڑیاں کیسے گھس آئیں۔ انھوں نے باہر نکلنا چاہا راستہ نہ ملنے پر ٹہنی ٹہنی پر پھدکنا شروع کیا اور اپنی آہ وبکا سے وہ سماں باندھا کہ حضرت طلحہٰ یکسوئی قائم نہ رکھ سکے، نظر ان کے ساتھ بہکنے لگی۔ اس منظر میں ایسے کھوئے کہ یاد ہی بھول گیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ جیسے ہی خیال آیا اس قدر دل گرفتہ ہوئے کہ دیر تک بیٹھے روتے رہے پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں جاکر سارا ماجرا کہہ سنایا اور اجازت چاہی کہ میں اپنا سارا باغ جو بہت قیمتی تھا صدقہ کرنا چاہتا ہوں چناچہ اجازت ملنے پر انھوں نے صدقہ کردیا۔ چند منٹ کی غفلت جو چڑیوں کے چہچ ہے سے پیدا ہوئی تھی اور نماز سے غفلت کا سبب بن گئی تھی اس کی اتنی بڑی قیمت ادا کی کہ سارا باغ اللہ کی نذر کردیا۔ صحابہ کے اس طرح کے بیشمار واقعات ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایمان ایک ایسی زندہ حقیقت تھی جو ان کی زندگی پر حکمران ان کے اعمال کی نگران اور محرک تھی، ایسا ایمان جب نصیب ہوجاتا ہے تو پھر انسان کے لیے ہر اس بات کو چھوڑنا جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے مشکل نہیں رہتاکیون کہ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ مجھے جن باتوں سے روکا گیا ہے ان سے رکنے میں میری بھلائی ہے اور جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کا کرنا میرے لیے آسودگی کا باعث ہے۔ وہ اپنی خواہشاتِ نفس کو شریعت کی زنجیر پہنا کر رکھتا ہے۔ اس کے عمل کی تمام قوتوں اور محرکات پر اللہ کے خوف کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ خواہشاتِ نفس کی خاطر شریعت میں چور دروازے نکالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جب کہیں یہ دیکھ کر اس کے قدم رکنے لگتے ہیں کہ آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں، اس کا ایمان اسے سہارا دیتا ہے اور عمل کی قوتیں اس سے اور توانا ہوجاتی ہیں۔ 3 ایمان سے دل ونگاہ کی آبیاری ہوتی ہے اور ایک مضبوط قوت ارادی پیدا ہوتی ہے اور ہجرت سے آدمی تمام آلائشوں سے پاک ہو کر خوبصورت کردار وعمل کا پیکر بن جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر یہ احساس ابلتا ہے کہ یہ ایمان کی روشنی کیا صرف میری ذات تک محدود رہے گی اور کیا گناہوں کا چھوڑ دینا اور اللہ کی نافرمانی سے تائب ہوجانا کیا میری ذات تک محدود رہ کرمعاشرے اور سماج میں وہ نتائج پیدا کرسکے گا جس سے صالح انسانی معاشرے کی تعمیر ہوسکے۔ ایک فرد چاہے اپنی ذات میں کیسا ہی مخلص اور پاکیزہ صفات کیوں نہ ہو اگر اس کے گردوپیش میں بدعملی کے طوفان اٹھ رہے ہوں اور بےیقینی کی وبا پھیلی ہوئی ہو تو اس کی ذاتی خوبیاں اور اس کے عمل کی پاکیزگی دیر تک باقی نہیں رہ سکتی اس لیے کہ کوئی آدمی بھی گھر میں بند رہ کر زندگی نہیں گزارسکتا۔ اسے گلی محلے میں بھی نکلنا ہے، اسے ہمسائیوں سے بھی واسطہ پڑنا ہے، اس کے بچے سکول کی عمر کو پہنچ کرسکول بھی جائیں گے، اسے اپنے محلے میں غمی اور خوشی کے مواقع میں شریک ہونا ہے۔ اس کے کئی کام دوسروں سے متعلق ہوں گے اور دوسروں کے اس سے۔ یقینا ایک دوسرے سے ملنا ایک مجبوری ہوگی۔ ایسی صورت میں فرد کا سرتاپا خیر ہوجانا بھی اس وقت تک کارآمد نہیں ہوسکتا جب تک اس کے اندر ایک جذبہ نہ ابھرے، جس سے وہ اپنے گردوپیش کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کرنے کا تہیہ کرلے وہ یقین کرلے کہ میرا گھر اس وقت تک محفوظ ہے جب تک کہ یہ محلہ محفوظ ہے اور یہ محلہ اس وقت تک محفوظ ہے جب تک یہ شہر محفوظ ہے اگر مجھے اپنے گھر کو باقی رکھنا ہے تو مجھے شہر کو باقی رکھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اگر میں اپنے بچوں کا برائیوں سے بچانا چاہتا ہوں تو مجھے باقی بچوں کو بھی صاف ستھرا کردار دینا ہوگا۔ اگر میں چاہتا ہوں کہ میرے گھر میں چوری نہ ہو میرے گھر میں ملاوٹ کا مال نہ پہنچے، تو مجھے اپنے معاشرے کے ایک ایک فرد میں دیانت وامانت کا ذوق اور اللہ کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کیونکہ ایک فرد اچھا ہے تو صرف اس کی اچھائی کافی نہیں اور اس کی اچھائی کی بقا کی کوئی ضمانت بھی نہیں کیونکہ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں اپنی خیریت، اپنے بچوں کی خیریت، اپنی بقاء اور اپنے بچوں کی بقا اسی صورت میں ہے کہ معاشرے میں جہاں تک ہوسکے خیر کے جذبات کو عام کیا جائے اور جہاں تک ممکن ہو شر کے عوامل کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنی ذات سے باہرخیر کی قوتوں کو سپورٹ کرنا اور شر کی قوتوں کو کمزور کرنے اور ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لانا اسی کو قرآن کریم کی زبان میں ” جہاد “ کہتے ہیں۔ اس کے لیے اپنا مال صرف کرنا پڑے تو مال صرف کرنا ضروری ہے۔ پسینہ بہانا پڑے تو پسینہ بہانا فرض ہے حتی کہ بدرجہ آخر اگر جان دینا پڑے تو جان دینا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے 13 سال تک مکہ معظمہ میں جان کھپائی، پسینہ بہایا، اذیتیں برداشت کیں، صرف اس لیے تاکہ انسانوں کو صحیح معنی میں انسان بنایاجائے۔ انھیں اللہ کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی جائے، انھیں معرفتِ حق دے کر بندگی کا شعور بخشا جائے۔ جب انھوں نے آپ کا جینا مشکل کردیا اور آپ کے تمام راستے بند کردیئے تو آپ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ پہنچ کر دعوت کی قوتوں کو بھی منظم کیا اور جہاد کی سپرٹ بھی پیدا کی۔ ہر ایمان لانے والے کے دل میں ایمان کو قوت بنایا، اللہ کی ہر نافرمانی چھوڑ دینے کا جذبہ پیدا کیا پھر اسی متاع فکر کو عام کرنے کے لیے دعوت کو زیادہ قوت سے پھیلانے کی کوشش کی اور اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کو طاقت سے دور کرنے کا نہ صرف تہیہ کیا بلکہ آہستہ آہستہ انھیں دور بھی کردیا۔ آج بھی ہم غور کریں تو ایک مسلمان کی زندگی کے یہی تین عنوانات ہیں۔{ ایمان، ہجرت اور جہاد } اور تینوں کا رشتہ آپس میں اس قدر جڑا ہوا ہے کہ کسی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان ایک ایسی روشنی ہے جس کی موجودگی میں اللہ کی نافرمانی کی ظلمت کو جگہ نہیں مل سکتی اور اگر کچھ قوتیں یا نفسانی خواہشیں راستہ روک کر کھڑی ہوجائیں تو پھر جہاد کے ہتھیار سے کام لے کر ان قوتوں کو سرنگوں کرنا پڑتا ہے۔ تین صفات پر تین بشارتیں یہ تین بنیادی صفات ہیں جن سے ایک مومن کا سراپا تیار ہوتا ہے انھیں صفات سے موصوف افراد سے جب امت تیار ہوتی ہے تو وہ حزب اللہ کہلاتی ہے۔ اس کی پشت پر اللہ کی تائید ہوتی ہے اور ان کے پیش نظر اللہ کی رضا اور اس کے دین کے غلبے کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتاوہ اپنے دل میں کسی شک وشبہ کو آنے کا راستہ نہیں دیتے۔ ان کی زندگی میں اللہ کی نافرمانی داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانی اور لادینی کی قوتوں کے غلبے کو دیکھ کر بےچین ہوجاتے ہیں۔ وہ افراد کی اصلاح کے لیے بھی جہاد کرتے ہیں اور لادینی قوتوں کے خاتمے کے لیے بھی جہاد کرتے ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ایک مومن کی مومنانہ زندگی کی تعمیر ایمان اور ہجرت سے ہوتی ہے اور اس کی زندگی کے مقاصد کی تکمیل جہاد سے ہوتی ہے۔ ان میں سے کوئی صفت بھی ایسی نہیں جسے عرصہ انتظار میں رکھا جائے۔ جو لوگ ایمان و یقین کی محنت کو منکرات کے خاتمے اور جہاد سے الگ رکھ کر دیکھتے ہیں وہ محنت اور یقین کی فضا کبھی پیدا نہیں کرسکتے کیونکہ صالح غذا ایسے ماحول میں کبھی پیدا نہیں ہوتی جس کی فضا میں سمیّت رچی بسی ہو اور کوئی فضا بھی زہر کی آلودگی سے پاک نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہاں کے رہنے والے اس کی سرکوبی یعنی جہاد کی قوت سے بہرہ ور نہیں ہوتے اور اسے بروئے کار لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ افسوس یہ ہے کہ جو یقین و ایمان کی بات کرتے ہیں وہ نہی عن المنکر کے تصور سے خالی اور جہاد سے بےبہرہ ہیں اور جو جہاد کی بات کرتے ہیں وہ اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتے کہ نمازیں بےروح ہوگئی ہیں، ایمان میں نور باقی نہیں رہا اور گھروں تک میں منکرات پہنچ گئے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک مکمل اسلامی زندگی سے صدیوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ قرآن کریم نے تینوں کو ایک ترتیب اور ایک ہی جگہ بیان فرماکر اس کی یکجائی کا تصور دیا ہے اور یہ اشارہ کیا ہے کہ اگر تم اسلامی زندگی کی برکات سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہو تو ان تینوں صفات کو ایک ساتھ پیدا کرنے کی کوشش کرو ورنہ نسخے کے الگ الگ اجزا اپنے اندر کیسی بھی افادیت رکھتے ہوں کبھی بھی مریض کی صحت یابی کا باعث نہیں بنتے۔ مکمل روحانی بالیدگی انھیں کو نصیب ہوتی ہے جو ان تینوں کو ایک ساتھ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی اللہ کے یہاں سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑے مرتبے کے مالک ہیں اسی لیے فرمایا : اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَاللّٰہِ ط وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ ” وہی اللہ کے نزدیک سب سے عظیم مرتبہ کے مالک ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں “ اَعْظَمُ اگرچہ اسم تفضیل ہے لیکن یہاں یہ تقابل کے معنی میں نہیں آیا بلکہ مطلقاً ان لوگوں کے مرتبے کے بیان کے لیے آیا ہے جو ان تینوں صفات کے حامل ہیں اور یہی لوگ دنیا وآخرت میں کامیاب ہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں ان تین صفات کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے تین طرح کے انعامات کی بشارت دی ہے۔ ایمان کے مقابلے میں اپنی رحمت اور مہربانی کی بشارت دی ہے جبکہ کافر اور مشرک پر اللہ کا غضب بھڑکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی ذات وصفات میں شرک کرتا ہے تو اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اللہ کی ذات وصفات کو تسلیم کرکے اور اس کے تمام احکام کے واجب الاطاعت ہونے کا اقرار کرکے ایمان لانے کا اعلان کرتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کا استقبال کرتی ہے اور انھیں صاحب ایمان لوگوں کی وجہ سے کافرو مشرک اللہ کے غضب سے بچے رہتے ہیں۔ اللہ کا فضل و کرم اور اس کے انعامات اس کی رحمت ہی کا اظہار ہیں جب کسی کی طرف اس کی رحمت متوجہ ہوجاتی ہے تو پھر وہ اللہ کے انعامات اور فضل و کرم کا مورد بن جاتا ہے۔ اس کی نیکیاں برگ وبار پیدا کرتی ہیں اور اس کی کو تاہیاں اور غلطیاں عفو و درگزر کی سزاوار ٹھہرتی ہیں۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے اس کے احکام کی تعمیل کرتا ہے اور جن باتوں سے اس نے روکا ہے ان میں سے ایک ایک کو چھوڑ دیتا ہے وہ اپنی سابقہ زندگی میں جن باتوں کا عادی تھا اور جن باتوں کے لیے اس نے ہمیشہ لڑائیاں لڑی تھیں، اب اللہ کی شریعت کو تسلیم کرنے کے بعد وہ ان میں سے ایک ایک سے دامن کشاں ہوجاتا ہے۔ وہ جن چیزوں کو اپنے لیے خوشی کا سامان سمجھتا تھا ان سے منہ پھیر لیتا ہے۔ جن مجلسوں میں اس کے خوشی کے لمحات گزرتے تھے وہ ان مجلسوں پر لعنت بھیجتا ہے۔ اب اسے صرف ایک بات کی فکر رہتی ہے کہ مجھ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہونے نہ پائے جس میں اللہ کی نافرمانی پائی جاتی ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کے انعام کے طور پر فرماتے ہیں کہ میرے بندے نے چونکہ میری خاطر اپنی مرضیات کو چھوڑا ہے، اپنے کافر احباب کو چھوڑا ہے، اپنی پرانی مجالس کو چھوڑا ہے اور اپنے مرغوبات کو چھوڑا ہے، ہم قیامت کو اس کا صلہ یہ دیں گے کہ ہم اسے اپنی رضا سے نوازیں گے۔ رضوان جنت میں ایک مقام بھی ہے جو اس کے خاص بندوں کو عطا ہوگا اور رضوان جنت کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے اور رضوان اللہ کی رضا کو بھی کہتے ہیں اور یہ رضا اتنا بڑا انعام ہے کہ جب اہل جنت کو یہ انعام عطا ہوگا تو وہ یوں محسوس کریں گے کہ جنت کی ساری نعمتیں اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ تیسری صفت جہاد ہے۔ اس کے انعام کے طور پر ارشاد فرمایا کہ جہاد کرنے والوں کو ہم جنتوں سے نوازیں گے یہ جنتیں ایسی ہوں گی جس میں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں پائی جائیں گی جنھیں نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کبھی کسی کان نے سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال تک گزرا اور مزید یہ کہ ان نعمتوں کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ بڑی سے بڑی نعمت استعمال کے بعد ختم ہوجاتی ہے لیکن جنت کی ہر نعمت دائمی اور ابدی ہوگی۔ دنیا میں کتنی ایسی نعمتیں ہیں کہ ان کی عمر خود انسان سے طویل ہے۔ محلات کھڑے رہ جاتے ہیں محلات میں رہنے والے ختم ہوجاتے ہیں۔ زمینیں باقی رہتی ہیں اور زمیندار اٹھ جاتے ہیں۔ ایوان ہائے حکومت تادیر باقی رہتے ہیں اور حکمران چل دیتے ہیں۔ یہ دنیا کی ریت ہے لیکن جنت میں نہ نعمتوں کو زوال آئے گا اور نہ نعمت والوں پر موت آئے گی۔ جنت بھی ہمیشہ رہے گی اور اہل جنت بھی ہمیشہ رہیں گے۔ یہ وہ تین نعمتیں ہیں جو ایک ایک صفت کے بدلے میں دی گئی ہیں لیکن عجیب ماجرا یہ ہے کہ جس طرح متذکرہ بالا تینوں صفات الگ الگ نتیجہ خیز نہیں ہوتیں بلکہ ان کے اثرات ایک دوسرے سے مل کر پیدا ہوتے ہیں اسی طرح یہ تینوں نعمتیں الگ الگ ہونے کے باوجود الگ نہیں ہوں گی۔ جنت ہی میں اللہ کی رضوان بھی ملے گی اور جنت ہی اللہ کی رحمت مہربانی اور اس کے فضل و کرم کا مرکز اور محور ہے۔ آخری جملہ { اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ } یہ ایسا بلیغ جملہ ہے کہ ادراک اس کی وسعتوں کا ساتھ نہیں دے سکتا کہ تم نے جن نعمتوں کا تذکرہ پڑھا ہے۔ ان میں سے ایک ایک نعمت کی عظمت کی کوئی انتہاء نہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اسی پر تمام نہیں ہوجاتیں اس کے پاس تو اجر عظیم بھی ہے یعنی وہ اپنے بندوں کو جب نوازنے پر آئے گا تو صرف جنت اور اس کی نعمتوں پر اکتفا نہیں فرمائے گا بلکہ اس کے علاوہ بھی وہ کچھ عطاکرے گا جسے وہ خود عظیم فرما رہا ہے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص کی اپنی شخصیت کے مطابق بلندی اور پستی ہوتی ہے اور اپنی وجاہت کے مطابق کثرت اور قلت ہوتی ہے۔ جب ایک بچہ کسی چیز کو بڑا کہتا ہے تو وہ بڑی چیز اس کے اپنے ہاتھوں کے مطابق ہوتی ہے۔ لیکن جب باپ کسی چیز کو بڑا کہتا ہے تو وہ اس کے خیال کی وسعتوں کے مطابق ہوتی ہے۔ پھر بڑی عمر کے لوگوں میں بھی علم، دولت اور حوصلہ کے اعتبار سے انسانوں کی بیشمار قسمیں ہیں اور ہر شخص کے بڑے اور چھوٹے الگ الگ پیمانے ہیں۔ ایک غریب آدمی چند ہزار روپے کو بہت بڑی رقم سمجھتا ہے لیکن ایک امیر آدمی چند ہزار کو خاطر میں لانا ہی پسند نہیں کرتے۔ بادشاہ سونا اچھالتے اور اشرفیاں لٹاتے ہیں اور عام آدمی ایک ایک اشرفی کو سنبھال کر رکھتا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ اجر عظیم ہر ایک کی اپنی حیثیت کے مطابق ہے جب بندہ کسی اجر کو بڑا کہتا ہے تو وہ ایسا ہی اجر ہوگا جسے بندے دے سکتے ہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی اجر کو اجر عظیم کہتا ہے تو وہ اس کی اپنی شان کے لائق ہے۔ اس کی وسعتیں انسانوں کی گرفت میں نہیں آسکتیں۔ ہمارے حساب کتاب اور ناپ تول کے پیمانے اس کے سامنے شکست ہوجاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی پرواز کے مطابق اندازہ کرسکتا ہے کہ اللہ کا اجر عظیم کیا ہوگا لیکن سچائی یہ ہے کہ اس کا صحیح علم صرف قیامت کو ہوسکے گا۔
Top