Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 62
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْهُ اِنْ كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی لَكُمْ : تمہارے لیے لِيُرْضُوْكُمْ : تاکہ تمہیں خوش کریں وَاللّٰهُ : اور اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَحَقُّ : زیادہ حق اَنْ : کہ يُّرْضُوْهُ : وہ ان کو خوش کریں اِنْ : اگر كَانُوْا مُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے ہیں
وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ وہ تمہیں راضی کردیں حالانکہ اگر وہ مومن ہیں
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ لَکُمْ لِیُرْضُوْکُمْ ج وَاللّٰہُ وَرَسُوْلـُہٗٓ اَحَقُّ اَنْ یُّرْضُوْہُ اِنْ کَانُوْا مُؤْمِنِِیْنَ (التوبۃ : 62) (وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ وہ تمہیں راضی کردیں حالانکہ اگر وہ مومن ہیں تو اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ یہ اس کو راضی کریں۔ ) قسموں کی مہم ہم گزشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ منافقین امیر ہوں یا غریب مسلمان معاشرے میں رہنے پر مجبور تھے کیونکہ اسلام کے ایک غالب قوت بن جانے کے بعد جزیرہ عرب کی حدتک کوئی اسے چیلنج کرنے والا نہ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر منافقین عرب میں رہنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے مسلمانوں کے سوا کوئی سہارا نہیں اور مفادات کی ہوس نے ان میں یہ ہمت باقی نہیں چھوڑی تھی کہ وہ جزیرہ عرب سے نکل کر کسی اور ملک میں قسمت آزمائی کرتے۔ اب ان کے لیے مشکل یہ تھی کہ مسلمان معاشرے میں رہنے کے لیے مسلمانوں جیسا بن کر رہنا ضروری تھا اس لیے مجبوراً نمازیں بھی پڑھتے، چندہ بھی دیتے، لیکن اپنی نجی مجلسوں میں جب بھی موقع ملتا دل کے پھپھولے پھوڑنے سے باز نہ آتے۔ ان کی نجی مجلسوں کی باتیں جب کبھی مسلمانوں کے علم میں آتیں تو پھر ان کے لیے مشکلات پیدا ہوتیں۔ چناچہ ایسے مواقع پر وہ مسلمانوں کے سامنے جھوٹی قسموں کے ذریعے اپنا مخلص مسلمان ہونا ثابت کرتے اور ان تمام کاوشوں کا حاصل صرف یہ ہوتا کہ مسلمان ان سے خوش اور مطمئن رہیں تاکہ انھیں اسلامی ریاست میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ گزشتہ آیت کریمہ میں ان کی ایسی ہی ایک بیہودہ بات کا ذکر کیا گیا ہے جس کی یقینا انھوں نے تاویلیں کی ہوں گی۔ لیکن مسلمانوں کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے قسمیں اٹھا اٹھا کر مسلمانوں کو راضی کرنا چاہا ہوگا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار فرما رہے ہیں کہ مسلمانوں وہ تمہارے سامنے آکر تمہیں خوش کرنے کے لیے قسمیں اٹھاتے ہیں حالانکہ تمہارا خوش ہونا ان کی نجات کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی نجات اللہ اور اس کے رسول کی خوشی میں ہے۔ اس لیے ان کی گرفت اس بات پر فرمائی جارہی ہے کہ اگر تم صاحب ایمان ہو تو تمہارے ایمان کا تقاضا اللہ اور اس کے رسول کی رضا کا حصول ہے یا مسلمانوں کی خوشی ؟ اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہ اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا منظور ہوتی تو تم اس کے لیے کوشش کرتے نہ کہ ان کو اُذُنٌ قرار دے کر ان کے خلاف پروپیگنڈا کی عیارانہ مہم شروع کردیتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری قسموں کے پیچھے مقاصد کچھ اور مضمر ہیں۔ ضمیر واحد لانے کا سبب اس آیت کریمہ میں { یرضوہ } میں واحد کی ضمیر لائی گئی ہے حالانکہ اس سے پیچھے اللہ اور رسول کا ذکر ہے۔ اس لحاظ سے { یرضوہما } یعنی تثنیہ کی ضمیر ہونی چاہیے تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اشارہ اس بات کی طرف کیا جارہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی ذات میں تو کوئی مماثلت ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک خالق ہے دوسرا مخلوق۔ لیکن اللہ کا رسول، اللہ کے اتباع میں اپنے آپ کو ایسا فنا کردیتا ہے اور اللہ اپنے رسول کو اتنا برگزید کردیتا ہے کہ دونوں کی رضا میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ کی رضا میں اللہ کا رسول راضی نہ ہو۔ بنا بریں رضا میں وحدت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ضمیر واحد لائی گئی ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے بڑا سبق ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی ناراضگی سے ہمیں اللہ کے رسول بچا لیں گے۔ اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آپ کی شفاعت میسر آجائے اللہ کی رضانہ بھی حاصل ہو تو جب بھی شفاعت کی وجہ سے ہم نجات پاجائیں گے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ کی رضا میسر نہیں ہوگی تو اللہ کے رسول کی رضا اور اس کی شفاعت بھی میسر نہیں ہوگی کیونکہ رسول اپنے رب کی رضا کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا۔
Top