Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 63
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَنْ یُّحَادِدِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِیْهَا١ؕ ذٰلِكَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ
اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا : کیا وہ نہیں جانتے اَنَّهٗ : کہ وہ جو مَنْ : جو يُّحَادِدِ : مقابلہ کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَاَنَّ : تو بیشک لَهٗ : اس کے لیے نَارَ جَهَنَّمَ : دوزخ کی آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَا : اس میں ذٰلِكَ : یہ الْخِزْيُ : رسوائی الْعَظِيْمُ : بڑی
تو اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ اس کو راضی کریں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
اَلَمْ یَعْلَمُوْآ اَنَّہٗ مَنْ یُّحََادِدِاللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَاَنَّ لَہٗ نَارَجَھَنَّمَ خَالِدًا فِیْھَاط ذٰلِکَ الْخِزْیُ الْعَظِیْمُ ( التوبۃ : 63) (کیا وہ نہیں جانتے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ ) منافقین کے اصل ارادے محادۃّکے معنی ہیں کسی کے مقابلہ میں اپنا الگ محاذ قائم کرلینا اور کسی کے مقابلے میں دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہونا۔ اس آیت کریمہ میں منافقین کے مخفی ارادوں کو بھی ظاہر فرمادیا گیا ہے کہ بظاہر وہ اپنے بارے میں مسلمانوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اپنے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے مسلمانوں کے سامنے جو جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اس سے مقصد صرف غلط فہمیوں کا دور کرنا نہیں بلکہ اس کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انھوں نے اللہ اور رسول کے خلاف جو اپنا ایک گروہ بنا رکھا ہے اس کو مزید مستحکم کرنے اور اپنے ناپاک ارادوں کو بروئے کار لانے کا موقع ملتا رہے۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے سامنے اسلامی انقلاب کی مدینہ میں نو سالہ تاریخ ہے اور ان نو سالوں میں ان کے سامنے قرآن کریم اترا ہے آنحضرت ﷺ کی وعظ و نصیحت سے وہ ہمیشہ بہرہ ور ہوتے رہے ہیں تو کیا انھیں آج تک یہ خبر نہیں ہوئی کہ جو گروہ یا جو شخص بھی اللہ اور رسول کے خلاف محاذ قائم کرتا ہے اسے بالآخر جہنم کی آگ میں جلنا ہوگا اور یہ بہت بڑی رسوائی ہے جس کا اندازہ دنیا میں رہ کر تو ممکن نہیں بجز اس کے کہ ایمان کے نور سے دیکھا جائے۔ البتہ ! اس رسوائی کو بڑی رسوائی قرار دینے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ اس میں شاید اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ایسے لوگ آخرت میں تو بڑی رسوائی سے دوچار ہوں گے ہی دنیا میں بھی ان کے لیے رسوائی مقدر ہے۔ منافقین اپنی حالت پر ہی غور کرکے دیکھ لیں کہ ان میں سوائے ایک آدھ شخص کے اکثریت مالدار لوگوں کی ہے۔ لیکن آج مدینہ میں ان کے نفاق یا نفاق کی تہمت کی وجہ سے مدینہ میں ان کی کوئی عزت نہیں۔ ہر کوئی ان سے پہلو تہی کرتا ہے اور بےاعتباری کی نگاہ سے دیکھتا ہے ان کے ابوعامر راہب جیسے لوگ دن کی روشنی میں مدینہ میں قدم رکھنے کی جرات نہیں کرتے۔ ان کے چھوٹے بڑے اسلام کی آغوش میں آچکے ہیں ان کی نگاہوں کی ان میں کوئی عزت نہیں۔ کل تک ان کی بات سنی جاتی تھی آج انھیں کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ چھوٹی رسوائی ہے جسے وہ دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بڑی رسوائی قیامت کو دیکھیں گے۔
Top