Tafseer-e-Saadi - Yunus : 7
اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہمارا ملنا وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوگئے بِالْحَيٰوةِ : زندگی پر الدُّنْيَا : دنیا وَاطْمَاَنُّوْا : اور وہ مطمئن ہوگئے بِهَا : اس پر وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ ھُمْ : وہ عَنْ : سے اٰيٰتِنَا : ہماری آیات غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں۔
آیت : (7-8) (ان الذین لا یرجونلقاء نا) ” جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔ “ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش ور سب سے بڑی آرزو ہے ‘ بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں (ورضوا بالحیوۃ الدنیا) ” اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں۔ “ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہو گے۔ (واطما لوابھا) ” اور اسی پر مطمئن ہوگئے “ یعنی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لئے کوشاں رہے اس کی لذات و شہوات پو ٹوٹ پڑے۔ دنیا انہیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی ‘ انہوں نے اسے حاصل کرلیا۔ دنیا کی چمک انہیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا ‘ ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتی رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزر گاہ نہیں جہاں سے مسافر ادراہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے وال منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انہی کی طرف لپکتے ہیں۔ (والذین ھم عن ایتناغفلون) ” اور وہہماری آیتوں سے غافل ہیں۔ “ پو یہ آیات قرآنی اور آیات نفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے رو گردانی درحقیقت مدلوں مقصود سے روگردانی اور غفلتکومستلزم ہے۔ (اولئک) جنکایہ وصف ہے (ماولھم انصار) ” انکا ٹھکانا آگ ہے۔ “ یعنی ان کا ٹھکانا اور مسکن جہنم ہے جہاں سے کبھی کوچ نہیں کریں گے۔ (بما کانو ایکسبون) ” بہ سبب اس کے جو کماتے تھے “ جہنم کا یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ انہوں نے کفر ‘ شرک اور مختلف قسم کے دیگر گناہوں کا ارتکاب کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نافرمانوں کے عذاب کا ذخر کرنے کے بعد اطاعت کرنے والے اہل ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے :
Top