Maarif-ul-Quran - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر وہ جھکیں صلح کی طرف تو تو بھی جھک اسی طرف اور بھروسہ کر اللہ پر، بیشک وہی ہے سننے والا جاننے والا۔
تیسری آیت میں صلح کے احکام اور اس کے متعلقات کا بیان ہے ارشاد فرمایا (آیت) وَاِنْ جَنَحُوْا للسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا، لفظ سلم بفتح السین اور سلم بکسرا لسین دونوں طرح صلح کے معنی میں آتا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ اگر کفار کسی وقت صلح کی طرف جھکیں تو آپ کو بھی جھک جانا چاہئے۔ یہاں صیغہ امر تخییر کے لئے استعمال فرمایا ہے مراد یہ ہے کہ جب کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو آپ کو بھی اختیار ہے اگر مسلمانوں کی مصلحت صلح میں محسوس کریں تو صلح کرسکتے ہیں۔ اور اِنْ جَنَحُوْا کی قید سے معلوم ہوا کہ صلح اسی وقت کی جاسکتی ہے جب کفار کی طرف سے صلح کی خواہش ظاہر ہو۔ کیونکہ بغیر ان کی خواہش کے اگر مسلمان خود ہی صلح کی تحریک کریں تو یہ ان کی کمزوری سمجھی جائے گی۔
ہاں اگر کوئی موقع ایسا آپڑے کہ مسلمان کسی نرغہ میں گھر جائیں اور اپنی سلامتی کے لئے کوئی صورت بجز صلح کے نظر نہ آئے تو صلح میں پیش قدمی بھی بقول فقہاء جائز اور اشارات نصوص سے ثابت ہے۔
اور چونکہ دشمن کی جانب سے صلح کی خواہش ہونے میں یہ احتمال رہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر غفلت میں ڈال دیں اور پھر یکبارگی حملہ کردیں اس لئے آخر آیت میں رسول کریم ﷺ کو یہ ہدایت دی گئی کہ (آیت) وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ، یعنی آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں کہ وہی خوب سننے والے جاننے والے ہیں۔ وہ انکی گفتگو کو بھی سنتے ہیں۔ اور ان کے دلوں میں چھپے ہوئے ارادوں کو بھی جانتے ہیں وہ آپ کی مدد کے لئے کافی ہیں۔ آپ ایسے بےدلیل احتمالات پر اپنے کاموں کی بنیاد نہ رکھیں۔ اور ایسے خطرات کو اللہ کے حوالہ کردیں۔
Top