Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 56
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو
آیت نمبر : 56-59 اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : (یعبادی الذین امنوآ) ” اے میرے بندوں جو ایمان لائے ہو ! “ اور جنہوں نے میرے رسول کی تصدیق کی ہے (ان ارضی واسعۃ فایای فاعبدون) ” میری زمین فراخ ہے ‘ پس تم میری ہی عبادت کرو۔ “ یعنی جب کسی سرزمین میں تمہارے لیے اپنے رب کی عبادت کرنا ممکن نہ رہے تو اس کو چھوڑ کر کسی اور سرزمین میں چلے جاؤ جہاں تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکو۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جگہیں بہت کشادہ ہیں۔ تمہارا معبود ایک ہے اور موت تمہیں آکر رہے گی پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے۔ وہ اس شخص کو بہترین جزا سے نوازے گا جس نے ایمان اور عمل صالح کو اکٹھا کیا ‘ وہ انہیں رفیع الشان بالا خانوں اور خوبصورت منازل میں ٹھہرائے گا وہاں وہ تمام چیزیں جمع ہوں گی جسے نفس چاہتے اور آنکھیں لذت حاصل کرتی ہیں اور ان منازل میں تم ہمیشہ رہو گے۔ (نعم) نعمتوں بھری جنت کے اندر یہ منازل بہترین (اجر العلمین) ” اجر ہے عمل کرنے والوں کا “ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے۔ (الذین صبروا) ” جنہوں نے صبر کیا “ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر (وعلی ربھم یتوکلون) ” اور وہ اس معاملے میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ “ عبودیت الٰہی پر ان کا صبر اس بارے میں سخت جدوجہد اور شیطان کے خلاف بہت بڑی جنگ کا تقاضا کرتا ہے ‘ جو اس عبادت میں خلل ڈالنے کے لیے ان کو دعوت دیتا رہتا ہے۔ ان کا توکل ‘ اللہ تعالیٰ پر ان کے بہت زیادہ اعتماد کا مقتضی ہے نیز اللہ تعالیٰ پر ان کا حسن ظن اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ ان کے اعمال کو متحقق کرکے پایۂ تکمیل کو پہنچائے گا جن کا انہوں نے عزم کیا ہے۔ ہرچند کہ توکل ‘ صبر کے اندر داخل ہے تاہم یہاں اس کو الگ بیان کیا ہے کیونکہ بندہ ہر فعل کے کرنے اور ترک کرنے میں ‘ جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے ‘ توکل کا محتاج ہے اور کسی کام کو ترک کرنا یا اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا توکل علی اللہ کے بغیر اتمام پذیر نہیں ہوتا۔
Top