Tafseer-e-Saadi - Al-Maaida : 10
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : اور جن لوگوں نے کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتیں اُولٰٓئِكَ : یہی اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : جہنم والے
اور جن لوگوں نے انکار کیا اور ہمارے احکام کی تکذیب کی تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں1
1 اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا جوئی کے لئے راستی پر قائم رہنے والے اور اس کے احکام کی پوری پابندی کرنے الے اور کسی کی گواہی کا موقعہ آجائے تو انصاف کی گواہی دینے والے رہو اور تم کو کسی خاص قوم اور فرقہ کی دشمنی اور بغض اس پر برانگیختہ اور آمادہ کردے کہ تم ان کے معاملہ میں انصاف نہ کرو دیکھو ہر معاملہ میں عدل و انصاف کیا کرو یہ عدل کرنا تقویٰ اور پرہیز گاری سے قریب تر ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے ڈرتے رہو یقین جانو کہ تمہارے تمام اعمال سے اللہ تعالیٰ پوری طرح باخبر ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سب کی اس کو اطلاع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور بھلے کام کرتے رہے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کے لئے بڑی بخشش و مغفرت اور بڑا ثواب ہے اور جن لوگوں نے ایمان لانے سے انکار کیا اور ہماری آیات اور ہمارے احکام کو جھوٹا بتایا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ اور جہنمی ہیں۔ (تیسیر) اس آیت کے مضمون پر ہم پانچویں پارے کے آخر میں مفصل بحث کرچکے ہیں یہاں ایک دوسرے کے مفاد کے پیش نظر الفاظ میں تھوڑی سی تبدیلی فرمائی ہے اس لئے کہ ناانصافی کے دو سبب عام طور پر ہوا کرتے ہیں ایک تو کسی کی رعایت اور جانب داری کی وجہ سے انسان کسی کے ساتھ ناانصافی کا مرتکب ہوتا ہے اور یا دشمنی اور عداوت کی وجہ سے کسی کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ برتائو کرتا ہے لہٰذا وہاں فرمایا تھا کہ خواہ اپنا معاملہ ہو یا اپنے قرابت داروں کا معاملہ ہو سچ بولنے اور سچی گواہی دینے میں کسی کی رعایت نہ کیا کرو اور یہاں یہ فرمایا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی کی وجہ سے اس کے خلاف جھوٹ نہ بولو اور جھوٹی گواہی نہ دو ۔ قوامین مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اور کھڑے ہونے والے اور ثابت رہنے والے رہو۔ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی تعظیم اور اس کا ادب محلوظ رکھنے کے لئے منصفانہ اور سچی شہادت دیا کرو اور کسی قوم کی دشمنی تم کو اس پر مشتعل نہ کردیا کرے کہ تم انصاف کو ترک کردو، بظاہر دشمنی سے مراد مشرکوں اور کافروں کی دشمنی ہے جو واقعی اور حقیقی دشمنی ہے اور جب کافروں کے ساتھ عدل و انصاف کا حکم ہے اور ظلم و جور کی ممانعت ہے تو مسلمانوں کے معاملہ میں تو یہ حکم بالاولی ہے اگرچہ آیت عام ہے کسی فریق کی دشمنی بھی خواہ وہ اپنا ہو یا پرایا ہو اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کے معاملہ میں ناانصافی اور ظلم سے کام لیا جائے اور یہ جو فرمایا کہ انصاف کرنا تقویٰ کے نزدیک تر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کے معنی ہیں اپنے نفس کو اور اپنے ظاہری اور باطنی قوی کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچانا تاکہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی سے انسان محفوظ رہے اور عدل کے معنی ہیں انسانی حقوق کی رعایت کرنا اور لوگوں کو ظلم سے بچانا لہٰذا عدل اور تقویٰ کے معنی باہم قریب تر ہوئے اور کسی دوسری چیز کے مقابلہ میں عدل تقویٰ کے زیادہ قریب ہوا یا یہ مطلب ہے کہ عدل کرنے الے کو متقی کہا جاتا ہے اور عدل تقویٰ کا سبب قریب ہے۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! انصاف اور عدل تقویٰ کی علامتوں میں سے ایک بڑی اور اہم علامت ہے ، ہمارا ترجمہ اور تیسیر اس پر مبنی ہے کہ شہداء کو خبر کے بعد دوسری خبر بنایا جائے جن لوگوں نے شہداء کو حال وغیرہ بنایا ہے انہوں نے اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ اے ایمان والو ! کھڑے ہوجایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کو دو باتوں کی تاکید ہے ایک حقوق اللہ کے ساتھ متعلق ہے اور دوسری حقوق العباد کے ساتھ اور مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق پورے کرنے کی غرض سے ہر وقت کمر بستہ رہا کرو اور کسی شہادت کا موقعہ ہو تو انصاف کے ساتھ گواہی دیا کرو خواہ کسی دوست کا معاملہ ہو یا دشمن کا یہ بلا رعایت دوست اور دشمن کے سچی گواہی دینا تقویٰ کے اسباب میں سے بہت قریبی سبب ہے۔ آخر میں پھر بطور تاکید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں ڈرتے رہو اور امتشال اور امر اور اجتناب نواہی میں کوتاہی نہ کرو کیونکہ تقویٰ ہی جملہ کمالات کی اصل ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ! اے اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے اس کے تمام احکام کو بجالانے کی غرض سے ہر وقت کمر بستہ رہا کرو اور کوئی شہادت طلب کی جائے تو انصاف کے ساتھ شہادت دیا کرو اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو عدل و انصاف کے ترک پر آمادہ نہ کرے دیکھو عدل و انصاف کا دامن کسی وقت چھوٹنے نہ پائے کیونکہ بغیر کسی رعایت کے انصاف کرنا یہ تقویٰ کے اسباب میں سے ایک سبب قریبہ ہے اور تم لوگ ہمیشہ تقویٰ کے پابند ہو اور اس پر یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور اللہ تعالیٰ ان ایمان والوں سے جو نیک اعمال کی پابندی کرتے ہیں یہ وعدہ کرچکا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں بڑی بخشش اور بڑا ثواب ہے یعنی کوتاہیاں نظر انداز کردی جائیں اور بڑے بڑے انعامات سے نوازا جائے گا اور جو لوگ کفر و انکار کا طریقہ اختیار کریں گے اور ہمارے احکام کی تکذیب اور ا ن کے جھٹلانے کا شیوہ اختیار کریں گے تو وہ عام قاعدہ جزا و سزا کے موافق جہنم کے مستحق ہوں گے۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا ذکر فرمایا تھا پھر ان انعامات کا ذکر کرتے ہوئے شکریہ کی جانب توجہ دلائی جس کا مفہوم یہ تھا کہ احکام شرعیہ کی تعمیل کرو کہ محسن کے احسان کا یہی شکریہ ہے پھر ہر فریق کا انجام کا اعلان فرمایا۔ اب ایک اور احسان یاد دلاتے ہیں جس کا تعلق کفار کے جو رو ستم سے محفوظ رکھنا اور کفار کی چیرہ دستیوں سے مسلمانوں کو بچانے کے ساتھ ہے چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top