Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 129
وَ كَذٰلِكَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظّٰلِمِیْنَ بَعْضًۢا بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۠   ۧ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُوَلِّيْ : ہم مسلط کردیتے ہیں بَعْضَ : بعض الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) بَعْضًۢا : بعض پر بِمَا : اس کے سبب كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : جو وہ کرتے تھے (ان کے اعمال)
اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کردیتے ہیں۔
آیت 129 (ویوم یحشرھم جمیعاً ) ” اور جس دن جمع کرے گا ان سب کو “ یعنی تمام جن و انس کو، ان میں سے جو گمراہ ہوئے اور جنہوں نے دوسروں کو گمراہ کیا۔ اللہ تعالیٰ جنوں کو، جنہوں نے انسانوں کو گمراہ کیا، برائی کو ان کے سامنے مزین کیا اور ارتکاب معاصی میں ان کی مدد کی، زجز و توبیح کرتے ہوئے فرمائے گا : (یمعشرالجن قدر استکترتم من الانس) ” اے گروہ جنات تم نے انسانوں سے بہت (فائدے) حاصل کئے۔ “ یعنی اے جنوں کی جماعت ! تم نے انسانوں کو خوب گمراہ کیا اور ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔ تم نے کیسے میرے محارم کی خلاف ورزی کی اور میرے رسولوں کے ساتھ عناد رکھنے کی جرأت کی اور تم اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اس کے راستے سے روکنے اور جہنم کے راستے پر دھکیلنے کی کوشش کی ؟ آج تم میری لعنت کے حق دار ہو اور تم پر میری ناراضی واجب ہوگئی۔ آج ہم تمہیں، تمہارے کفر اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے مطابق زیادہ عذاب دیں گے۔ آج تمہارے پاس کوئی عذر نہیں جو پیش کرسکو، کوئی ٹھکانا نہیں جہاں تم پناہ لے سکو، کوئی سفارشی نہیں جو تمہاری سفارش کرسکے اور نہ تمہاری پکار ہی سنی جائے گی۔ اس وقت مت پوچھئے کہ ان پر سزا کے کون سے پہاڑ ٹوٹیں گے اور انہیں کون سی رسوائی اور وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی عذر کا ذکر نہیں فرمایا۔ رہے ان کے دوست انسان تو وہ عذر پیش کریں۔ گے جسے قبول نہیں کیا جائے گا (ربنا استمتع بعضنا ببعض ) ” اے رب ہمارے ! فائدہ اٹھایا ہم میں سے ایک نے دوسرے سے “ یعنی تمام جنوں اور انسانوں نے ایک دوسرے سے خوب فائدہ اٹھایا جنوں نے انسانوں سے اپنی اطاعت، اپنی عبادت اور اپنی تعظیم کروا کے اور ان کی پناہ کی طلب سے فائدہ اٹھایا اور انسان جنوں کی خدمت کے مطابق اپنی اغراض اور شہوات کے حصول میں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انسان جنوں کی عبادت کرتے ہیں، جن ان کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی دنیاوی حاجتیں پوری کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم سے بہت ہی گناہ سر زد ہوئے اور اب ان کا لوٹانا ممکن نہیں (وبلغنا اجلنا الذی اجلت لنا) ” اور ہم پہنچے اپنے اس وعدے کو جو تو نے ہمارے لئے مقرر کیا تھا “ یعنی اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ اب تو جو چاہے ہمارے ساتھ سلوک کر اور جو تیرا ارادہ ہے ہمارے بارے میں، وہی فیصلہ کر۔ ہماری حجت تو منقطع ہوگئی، ہمارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ معاملہ وہیہو گا جو تیرا حکم ہے۔ فیصلہ وہی ہے جو تیرا فیصلہ ہے۔ ان کے اس کلام میں ایک سم کی گریہ زاری اور رقت ہے مگر یہ سب کچھ بےوقت اور بےموقف ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں عدل پر مبنی فیصلہ جو ظلم و جور سے پاک ہے، کرتے ہوئے فرمایا (النار مثولکم خلدین فیھا) ہے۔ اس لئے فرمایا : (ان ربک حکیم علیم) ” بیشک تمہارا رب دانا، خبردار ہے۔ “ جیسے اس کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کئے ہوئے ہے، ویسے ہی اس کی بےانتہا حکمت تمام اشیاء پر عام اور تمام اشیاء کو شامل ہے۔ (وکذلک نولی بعض الظلمین بعضاً بما کانوا یکسبون) ” اور اسی طرح ہم سرپرست بنا دیتے ہیں گناہ گاروں کو ایک دوسرے کا، ان کے اعمال کے سبب “ یعنی جیسے ہم سرکش جنوں کو مسلط کردیتے ہیں کہ وہ انسانوں میں سے اپنے دوستوں کو گمراہ کریں اور ہم ان کے کسب و کوشش کے سبب سے ان کے درمیان موالات اور موافقت پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح یہ ہماری سنت ہے کہ ہم کسی ظالم کو اسی جیسے کسی ظالم پر مسلط کردیتے ہیں جو اسے شر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کو شر کی ترغیب دیتا ہے، خیر میں بےرغبتی پیدا کر کے اسے اس سے متنفر کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سزا ہے جو بہت خطرناک ہے اور اس کا اثر بہ برا ہے۔ گناہ کرنے والا ظالم ہی ہے پس یہ وہ شخص ہے جو اپنے آپک و نقصان پہنچاتا ہے اور جن بھی اس کو نقصان پہنچاتا ہے (وما ربک بظلام للعبید) (حم السجدۃ 36/61) ” اور تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ “ ظالموں کو مسلط کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب بندوں کا فساد اور ظلم بہت بڑھ جاتا ہے اور روہ حقوق واجبہ ادا نہیں کرتے تو ان پر ظالم مسلط کردیئے جاتے ہیں جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں اور وہ ان سے ظلم و جور کے ذریعے سے اس سے کئی گنا زیادہ چھین لیت ہیں جو وہ اللہ اور اس کے بندوں کے حق کے طور پر ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان سے اس طرح وصول کرتے ہیں کہ ان کو اس کا اجر وثواب بھی نہیں ملتا۔ جیسے جب بندے درست اور راست رو ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے حکمرانوں کو درست کردیتا ہے اور انہیں ظالم اور گمراہ حاکم نہیں بلکہ انہیں عدل و انصاف کے امام بنا دیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان تمام جن و انس کو زجر و توبیخ کرتا ہے جو حق سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں، وہ ان کی خطا واضح کرتا ہے اور وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (یمعشر الجن والانس الم یا تکم رسل منکم یقصون علیکم ایتی) ” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا نہیں پہنچے تھے تمہارے پاس رسول تمہی میں سے کہ سناتے تھے تمہیں میرے حکم “ یعنی واضح آیات جن کے اندر امرو نہی، خیر و شر اور وعدو وعید کی تفصیلات ہیں (ویندرونکم لقآء یومک ھذا) ” اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے “ یعنی تمہیں آگاہ کرتے تھے کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔ فوز و فلاح صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب میں ہے اور ان کو ضائع کرنے میں انسان کی بدبختی اور خسارہ ہے وہ اس کا اقرار اور اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے (شھدنا علی انفسنا و غرتھم الحیوۃ الدنیا) ” ہم نے اقرار کیا اپنے گناہ کا اور ان کو دھوکہ دیا دنیا کی زندگی نے “ یعنی دنیا کی زندگی نے اپنی زینت، آرائش اور نعتموں کے ذریعے سے ان کو دھوکے میں مبتلا کردیا، وہ دنیا پر مطمئن اور راضی ہو کر بیٹھ گئے اور دنیا نے انہیں آخرت کے بارے میں غافل کردیا۔ (وشھد و اعلیٰ انفسھم انھم کانوا کفرین) ” اور گواہی دی انہوں نے اپنے آپ پر کہ وہ کافر تھے “ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی۔ تب اس وقت ہر ایک نے اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عدل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں درد ناک عذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا (ادخلوا فی امم قدخلت من قبلکم من الجن والانس) (الاعراف :38/8) ” یعنی جنوں اور انسانوں کے تم سے پہلے جو گر وہ گزر چکے ہیں ان میں داخل ہوجاؤ۔ “ ان کے کرتوت بھی تمہارے کرتوتوں کی مانند تھے۔ انہوں نے بھی اپنے حصے سے خوب فائدہ اٹھایا جیسے تم نے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی باطل میں گھس گئے جیسے تم گھس گئے ہو۔ یہ سب خسارے میں رہنے والے لوگ تھے۔ یعنی پہلے لوگ بھی اور یہ لوگ بھی اور کون سا خسارہ جنت سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے ؟ کون سا خسارہ سب سے مکرم ہستی کی ہمسائیگی سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے ؟ البتہ یہ لوگ اگرچہ خسارے میں مشترک ہوں گے۔ مگر خسارے کی مقدار میں وہ ایک دوسرے سے بہت متفاوت ہوں گے۔ (ولکل) ” اور ہر ایک کے لیے۔ “ یعنی ان میں سے ہر ایک کے لئے (درجت مما عملوا) ” بلحاظ اعمال درجے (مقرر) ہیں۔ “ یعنی ان کے اعمال کے مطابق ان کے درجات ہیں جس نے تھوڑی سی برائی کا ارتکاب کیا ہے وہ اس شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جس نے بہت برائیاں کمائی ہیں۔ تابع متبوع کے برابر ہوسکتا ہے نہ رعایا حکمران کے برابر ہوسکتی ہے۔ جیسے اہل ثواب اور اہل جنت منافع، فوز و فلاح اور جنت میں داخل ہونے میں مشترک ہیں، مگر ان کے درجات میں اس قدر تفاوت ہوگا کہ اللہ کے سوا اسے کوئی نہیں جانتا۔ اس کے باوجود وہ سب اس پر راضی ہوں گے جو ان کا آقا ان کو عطا کرے گا اور اس پر قناعت کریں گے۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرت یہیں کہ وہ ہمیں بھی جنت الفردوس کے بلند درجات عطا کرے جو اس نے اپنے مقرب، چنے ہوئے اور محبوب بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہے۔ (وما ربک بغافل عما یعملون) ” اور آپ کا رب ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے “ وہ ہر ایک کو اس کے قصد اور عمل کے مطابق جزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیا ہے اور ان پر رحم کرتے ہوئے اور ان کی بھلائی کی خاطر ان کو برے اعمال سے منع کیا ہے۔ ورنہ وہ بذاتہ تمام مخلوقات سے بےنیاز ہے۔ اطاعت کرنے والوں کی اطاعت اسے کوئی فائدہ دیتی ہے نہ نافرمانی کرنے والوں کی نافرمانی اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ (ان یشآیذھبکم) ” اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے “ یعنی تمہیں ہلاک کر کے ختم کر دے (ویستخلف من بعدکم ما یشآء کما انشاکم من ذریۃ قوم اخرین) ” اور تمہارے بعد جس کو چاہے تمہارا جانشین بنا دے جیسے تمہیں پیدا کیا اوروں کی اولاد سے “ جب تمہیں اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ دوسرے لوگوں کی طرح تمہارا اس دنیا سے منتقل ہونا لابدی ہے تم بھی اپنے بعد آنے والوں کے لئے اس دنیا کو خالی کر کے یہاں سے کوچ کر جاؤ گے جیسے تم سے پہلے لوگ یہاں سے کوچ کر گئے اور انہوں نے اس دنیا کو تمہارے لئے خالی کردیا۔ پھر تم نے اس دنیا کو کیوں ٹھکنا اور وطن بنا لیا اور تم نے کیوں فراموش کردیا کہ یہ دنیا ٹھکانا اور جائے قرار نہیں، بلکہ گزر گاہ ہے اور اصل منزل تمہارے سامنے ہے۔ یہی وہ گھر ہے جہاں ہر نعمت جمع کردی گئی ہے اور جو ہر آفت اور نقص سے محفوظ ہے۔ یہی وہ منزل ہے جس کی طرف اولین و آخرین لپکتے ہیں اور جس کی طرف سابقین ولاحقین کوچ کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دائمی اور لازمی قیام ہے۔ یہ وہ منزل ہے جس کے آگے کوئی منزل نہیں، یہ وہ مطلوب و مقصود ہے جس کے سامنے ہر مطلوب ہیچ ہے اور یہ وہ مرغوب نعمت ہے جس کے مقابلے میں ہر مرغوب مضحمل ہے۔ اللہ کی قسم ! وہاں وہ نعمتیں عنایت ہوں گی جن کو نفس چاہیں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی اور رغبت کرنے والے رغبت کریں گے۔ جیسے روحوں کی لذت، بےپایاں فرحت، قلب و بدن کی نعمت اور اللہ علام الغیوب کا قرب۔ پس کتنی اعلیٰ فکر ہے جو ان مقامات پر مرتکز ہے اور کتنا بلند ارادہ ہے جو ان اعلیٰ درجات کی طرف مائل پرواز ہے اور وہ کتنا بدنصیب ہے جو اس سے کم تر پر راضی ہے اور وہ کتنا کم ہمت ہے جو گھاٹے کا سودا پسند کرتا ہے۔ غفلت کا شکار روگرداں شخص اس منزل پر جلدی سے پہنچنے کو بعید نہ سمجھے۔ (ان ما توعدون لات وما انتم بمعجزین) ” تم سے جس چیز کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہ آنے والی ہے اور تم عاجز نہیں کرسکتے “ یعنی تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے اور اس کے عذاب سے کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتے کیونکہ تمہاری پیشانیاں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور تم اس کی تدبیر اور تصرف کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہو۔ (قل) ” کہہ دیجیے “ اے رسول ﷺ جبکہ آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دے دی اور ان کے انجام اور اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں ان کو آگاہ کردیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے باز رہے، بلکہ اپنی خواہشات کے پیچھے لگے رہے اور اپنے شرک پر قائم رہے، تو آپ ان سے کہہ دیجیے ! (یقوم اعملوا علی مکانتکم) ” اے میری قوم ! تم کام کرتے رہو، اپنی جگہ پر “ یعنی جس حال میں تم ہو اور جس حال کو تم نے اپنے لیے پسند کرلیا ہے اسی پر قائم رہو (انی عامل) ” میں (اپنی جگہ) عمل کئے جاتا ہوں۔ “ میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل اور اس کی مرضی کی اتباع کرتا ہوں (فسوف تعلمون من تکون لہ عاقبۃ الدار) ” عنقریب تم جان لو گے کہ کس کو ملتا ہے عاقبت کا گھر “ یعنی آخرت کا گھر تمہارے لئے ہے یا میرے لئے اور یہ انصاف کا عظیم مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اعمال اور ان پر عمل کرنے والوں کے بارے میں بیان فرما دیا اور نہایت بصیرت کے ساتھ ان اعمال کی جزا بھی ساتھ بیان فرما دی جہاں تصریح سے گریز کرتے ہوئے تلویح سے کام لیا ہے اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ دنیا و آخرت میں اچھا انجام صرف اہل تقویٰ کے لئے ہے۔ آخرت کا گھر اہل ایمان کے لئے ہے اور انبیا و رسل کی لائی ہوئی شریعت سے روگردانی کرنے والوں کا انجام انتہائی برا ہے۔ اس لئے فرمایا : (انہ لایفلح الظلمون) ” یقیناً ظالم فلاح یاب نہیں ہوں گے “ ظالم خواہ اس دنیا سے کتنا ہی فائدہ اٹھا لے، اس کی انتہا ضمحلال اور اتلاف ہے۔ حدیث میں ہے۔ (ان اللہ لیملی للظالم، حتی اذا اخذہ لم یفلتہ) (1) ” اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کو پکڑ لیات ہے تو اسے چھوڑتا نہیں۔ “ (1) صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قرلہ (وکذلک اخذ ربک۔۔۔ الخ) حدیث :7386
Top