Siraj-ul-Bayan - Al-Anbiyaa : 40
بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ
بَلْ : بلکہ تَاْتِيْهِمْ : آئے گی ان پر بَغْتَةً : اچانک فَتَبْهَتُهُمْ : تو حیران کردے گی انہیں فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : پس نہ انہیں سکت ہوگی رَدَّهَا : اس کو لوٹانا وَ : اور لَا هُمْ : نہ انہیں يُنْظَرُوْنَ : مہلت دی جائے گی
بلکہ وہ ان پر اچانک آجائے گی ، پھر ان کو ہکا بکا بنادے گی ، پھر وہ اسے نہ ہٹا سکیں گے اور نہ مہلت پائیں گے (ف 1) ۔
1) عذاب کے باب میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ مجرموں کو ابتدا میں ڈھیل دی جاتی ہے مگر جب وہ حد مقرر سے آگے بڑھ جاتے ہیں ، اس وقت اللہ کا عذاب اچانک آجاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس عذاب سے بچا نہیں سکتی ، مگر بیوقوف لوگ اس ڈھیل کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال حسنہ کا نتیجہ ہے جو دنیا میں نازونعمت کے سارے سامان ہمیں میسر ہیں ، ورنہ ایک لمحہ بھی ہم دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ مکہ والے بار بار حضور ﷺ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ، وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت حکمت اور قدرت والی ہے ، جسے جب چاہے ، اپنے مصالح کے ماتحت گرفتار کرلے پھر کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے ۔
Top