Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 40
بَلْ تَاْتِیْهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّهَا وَ لَا هُمْ یُنْظَرُوْنَ
بَلْ : بلکہ تَاْتِيْهِمْ : آئے گی ان پر بَغْتَةً : اچانک فَتَبْهَتُهُمْ : تو حیران کردے گی انہیں فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : پس نہ انہیں سکت ہوگی رَدَّهَا : اس کو لوٹانا وَ : اور لَا هُمْ : نہ انہیں يُنْظَرُوْنَ : مہلت دی جائے گی
اور معاملہ کچھ ان کی فرمائش اور جلد بازی پر موقوف نہیں بلکہ وہ گھڑی تو ان پر اس طرح اچانک آپہنچے گی کہ ان کے ہوش اڑا کر رکھ دے گی پھر ان کو نہ تو اس کے لوٹا دینے کا یارا ہوگا اور نہ ہی ان کو کوئی مہلت ہی مل سکے گی3
52 قیامت بالکل اچانک آئے گی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کی وہ ہولناک گھڑی اچانک آپہنچے گی اور اپنے وقت پر اس نے بہرحال آ کر رہنا ہے۔ خواہ کوئی مانے یا نہ مانے۔ چاہے یا نہ چاہے۔ سو اس وقت ان لوگوں کا حال بہت برا ہوگا جنہوں نے زندگی بھر اس کا انکار کیا ہوگا۔ ایسے لوگوں کے ہوش اس وقت اڑ جائیں گے اور ان کی حسرت و مایوسی کی کوئی حد و انتہاء نہ رہے گی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور کسی کو پتہ نہیں کہ وہ ہولناک گھڑی کب اور کس حال میں آئیگی۔ کیونکہ وہ بالکل اچانک آئے گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { لَا تَاْتِیْکُمْ الاَّ بَغْتَۃً } ۔ (الاعراف : 87) ۔ اور پھر کفار و منکرین تو چونکہ اس کو مانتے ہی نہیں اس لیے ان کے لیے وہ جب بھی آئیگی بالکل اچانک ہی آئیگی اور ایسی اچانک کہ ان کے ہوش اڑا کر رکھ دے گی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ وہ کہیں وقت بتا کر نہیں آئے گی بلکہ ایسی اچانک آئے گی کہ کسی کو اس کا کوئی اندازہ اور احساس تک نہ ہوگا جیسا کہ دنیا میں زلزلے آتے ہیں تو کہیں وقت بتا کر نہیں آتے بلکہ دن رات کے کسی بھی حصے میں اور کسی بھی حال میں آجاتے ہیں۔ جیسا کہ سورة اعراف کی آیت نمبر 97 تا 99 میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ اس لیے عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا وقت پوچھنے کی بجائے اس کے لیے تیاری کی جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید - 53 منکرین کیلئے پھر کوئی مہلت ممکن نہ ہوگی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کی وہ گھڑی جب آپہنچے گی تو ان کے ہوش اڑا کر رکھ دے گی۔ پھر نہ تو ان لوگوں کے لیے اس کو لوٹا دینے کا یارا ہوگا اور نہ ہی ان کو کوئی مہلت ہی مل سکے گی۔ تاکہ یہ توبہ و اعتذار کا کوئی سامان کرسکیں بلکہ پھر تو انکو دائمی عذاب میں رہنا ہوگا۔ سو کیسے شقی و بدبخت ہیں یہ لوگ کہ دنیاوی زندگی کی اس قیمتی فرصت میں آخرت کے اس دائمی عذاب سے بچنے کی فکر و کوشش کرنے کی بجائے یہ الٹا اس کے آنے کے لئے جلدی مچاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کفر و انکار کی ظلمت انسان کو کس قدر اندھا، بہرا اور کتنا غیر ذمہ دار اور لاپرواہ بنا دیتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ وہ اپنے وقت پر بالکل اچانک آدھمکے گی۔ پھر یہ نہ اس کو ٹال سکیں گے اور نہ ہی انکے لیے کسی طرح کی کوئی مہلت ممکن ہوگی کہ یہ توبہ و اصلاح کرسکیں۔ سو ایسوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور فرصت حیات کو غنیمت سمجھ کر اپنی اصلاح کر لینی چاہیے قبل اس سے کہ وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل -
Top