Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 40
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ۖۗ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ
رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْنِيْ : مجھے بنا تو مُقِيْمَ : قائم کرنے والا الصَّلٰوةِ : نماز وَ : اور مِنْ : سے۔ کو ذُرِّيَّتِيْ : میری اولاد رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَتَقَبَّلْ : اور قبول فرما دُعَآءِ : دعا
اے میرے رب مجھے نماز کا اہتمام کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما
تفسیر آیات 40 تا 41: رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ڰ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَاب۔ یہ آخر میں اپنے اور اپنی اولاد کے لیے اس مقصد میں سرگرم رہنے کی دعا کی جس کے لیے انہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور جس کا ذکر اوپر رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے الفاظ میں ہوچکا ہے۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ میں من تبعیض کا ہے اس لیے کہ مکہ میں انہوں نے اپنی ذریعت میں سے صرف حضرت اسمعیل کو بسایا تھا۔ سب سے آخر میں اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے اور تمام اہل ایمان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ حضرت ابراہیم کے والد، آزر، کے متعلق قرآن کے متعدد مقامات میں تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے چونکہ ہجرت کے وقت ان سے کہہ دیا تھا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اس وجہ سے ان کے شرک وکفر پر شدید اصرار کے باوجود ان کے لیے استغفار کرتے رہے۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو اس سے روک دیا تو آپ رک گئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا جو اوپر مذکور ہوئی ہے اس ممانعت کے وارد ہونے سے قبل کی ہے۔ دعا کی خصوصیات : اس دعا میں دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ سات مرتبہ " رب " یا " ربنا " کا لفظ آیا ہے۔ یوں تو بظاہر تو یہ ایک تکرار سی محسوس ہوتی ہے لیکن درحقیقت یہ چیز دعا کی خصوصیات بلکہ اس کے لوازم میں سے ہے۔ دعا کا اصل مزاج تضرع، استحالت، استغاثہ اور التجا و فریاد ہے۔ یہ چیز مقتضی ہوتی ہے کہ جس سے دعا کی جا رہی ہے اس کو بار بار متوجہ کیا جائے۔ جب بندہ خدا کو " ربی " سے خطاب کرتا ہے تو وہ گویا اس لطف خاص کو اپنی دعا کے حق میں سفارشی بناتا ہے جس کا تجربہ اسے خود ہے اور جب اس کو " ربنا " سے خطاب کرتا ہے تو وہ اس کے اس کرم عام کو اپنی دعا کے حق میں سفارشی بناتا ہے جس کا مشاہدہ تمام خلق میں ہو رہا ہے۔ یہاں وہ بات پھر ذہن میں تازہ کرلیجیے جو اوپر گزر چکی ہے کہ یہ دعا قریش کو اس لیے سنائی گئی کہ وہ سوچیں کہ وہ کس مقصد سے اس وادی میں غیر ذی زرع میں بسائے گئے تھے اور اب کیا بن کے رہ گئے ہیں۔ نیز وہ اس امر پر بھی غور کریں کہ وہ تمام نعمتیں جو اس سرزمین پر ان کو حاصل ہوئیں، وہ حاصل تو ہوئیں حضرت ابراہیم کی دعا کی برکت اور خاص اللہ تعالیٰ کے فضل سے لیکن انہوں نے ان تمام نعمتوں کا منبع اپنے خیالی معبودوں کو قرار دے رکھا ہے۔
Top