Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہوا کرو۔ کیونکہ کان، آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک چیز کی پرسش ہونی ہے
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا۔ " قفوتہ، قفوت اثرہ کے معنی ہیں میں اس کے پیچھے لگایا ہولیا۔ لَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ، یعنی جس چیز کے بارے میں تمہیں قابل اطمینان علم نہیں ہے اس کے پیچھے نہ ہولیا کرو اور محض اٹکل اور گمان کی بنا پر کسی کے بارے میں کوئی بات نہ لے اڑو۔ قذف اور تہمت وغیرہ کی ممانعت : یہ قذف اور تہمت وغیرہ کی قسم کی ساری باتوں کی ممانعت ہے۔ قرآن جو معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بنیاد حسن ظن اور اعتماد پر ہے اس وجہ سے کسی کے باب میں کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالنی چاہیے جو محض گمان یا افواہ پر مبنی ہو اور وہ اس کی عزت و شہرت کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ فرمایا کہ جو لوگ اس طرح کی غیر زمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل ہر ایک سے اس طرح کی باتوں کی بابت ایک روز پرسش ہونی ہے۔
Top