Tadabbur-e-Quran - Maryam : 13
وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةً١ؕ وَ كَانَ تَقِیًّاۙ
وَّحَنَانًا : اور شفقت مِّنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے وَزَكٰوةً : اور پاکیزگی وَكَانَ : اور وہ تھا تَقِيًّا : پرہیزگار
اور خاص اپنے پاس سے سوز و گداز اور پاکیزگی۔ اور وہ نہایت پرہیز گار تھا
تفسیر آیت 13 تا 14: وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَكَاةً وَكَانَ تَقِيًّا (13) وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا۔ حنان کے معنی محبت، ذوق و شوق، اور سوز و گداز کے ہیں۔ یہ لفظ نہایت معروف و متداول الفاط میں سے ہے اس وجہ تعجب ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کی طرف بعض لوگوں نے یہ بات، کس طرح منسوب کردی کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے اس کے معنی معلوم نہیں۔ قلب و روح کی اصلی زندگی۔ یہ سوز و گداز اور یہ محبت ہی انسان کے قلب و روح کی زندگی کی اصلی علامت ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان انسان نہیں بلکہ پتھر کی ایک مورت ہے۔ اس سوز و گداز میں سے حضرت یحییٰ کو، جیسا کہ من لدنا کے الفاظ سے واضح ہے، نہایت وافر حصہ ملا تھا۔ ان کے سوز و گداز اور جوش محبت الٰہی کا کچھ اندازہ کرنا ہو تو انجیلوں میں ان کے ارشادات پڑھیے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے اقوال کی حرارت آج بھی دلوں کو گرماتی اور روحوں کو تڑپاتی ہے۔ " زکوۃ " کا مفہوم : حنان کے بعد ان کی صفت میں " زکوۃ " کا لفظ آیا ہے۔ زکوۃ کے معنی پاکیزگی اور طہارت کے ہیں۔ اس طہارت سے مراد ظاہر اور باطن دونوں کی طہارت ہے یہ حقیقت " حنان " ہی کا پرتو ہے۔ گداز باطنی موجود ہو تو نہ باطن میں کسی اخلاقی و عقائدی آلائش کا اثر باقی رہتا ہے نہ ظاہر میں۔ " زکوۃ " کے بعد " تقی " کا لفظ ہے۔ پچھلی دونوں صفتوں کا تعلق زیادہ تر انسان کے باطن سے ہے۔ اس لفظ میں ان کے ظاہری اعمال و اخلاق اور کردار کی تعریف ہے کہ نہایت ہی پرہیز گار اور متقی تھے۔ ان کی ساری زندگی ترک دنیا کی زندگی تھی۔ انہوں نے ت وبہ کی منادی اس زور و شور سے کی کہ اس سے دشت و جبل گونج اٹھے۔ ہیکل میں تقریر کرتے لوگوں کے دل دہل جاتے لیکن اس دنیا سے ان کا تعلق صرف دینے کے لیے تھا اس سے لیا انہوں نے کچھ بھی نہیں۔ جنگل کے شہد اور اس کی ٹڈیوں پر گزارہ کرتے۔ کمبل کی پوشاک سے تن ڈھانکتے اور جس سر کو چھپانے کے لیے اس دنیا میں کوئی چھت نہیں بنائی اس کو خدا کی کتاب کی خاطر کٹوا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ماں باپ کے ساتھ وفا داری : بَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُنْ جَبَّارًا عَصِيًّا۔۔ یہ ماں باپ کے ساتھ ان کی وفاداری کا بیان ہے کہ باوجودیکہ وہ یہ سمجھ سکتے تھے کہ ان کی ولادت سے لے کر ان کی تعلیم و تربیت تک ہر چیز براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوئی ہے، وہ کسی چیز میں بھی اپنے ماں باپ کے محتاج نہیں ہوئے لیکن وہ اس قسم کی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ وہ کسی چیز میں بھی اپنے ماں باپ کے محتاج نہیں ہوئے لیکن وہ اس قسم کی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ برابر اپنے والدین کے نہایت وفادار اور اطاعت شعار رہے۔ وہ سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔
Top