Tadabbur-e-Quran - Maryam : 29
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ١ؕ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّا
فَاَشَارَتْ : تو مریم نے اشارہ کیا اِلَيْهِ : اس کی طرف قَالُوْا : وہ بولے كَيْفَ نُكَلِّمُ : کیسے ہم بات کریں مَنْ كَانَ : جو ہے فِي الْمَهْدِ : گہوارہ میں صَبِيًّا : بچہ
اس نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں نے کہا ہم اس سے کس طرح بات کریں جو ابھی گود میں بچہ ہے ؟
تفسیر آیت 30 تا 33:۔ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا (30) وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (31) وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا (32) وَالسَّلامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (33) گہوارے میں حضرت مسیح کے ارشادات : یہ حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں جو اس موقع پر انہوں نے اپنی اور اپنی والدہ ماجدہ کی بریت میں گہوارے کے اندر سے فرمائے۔ حضرت مریم جس امتحان میں ڈال دی گئی تھیں اس سے پوری عزت اور سرخروئی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری تھا کہ گود کا بچہ ہی ان کی پاک دامنی اور اپنی وجاہت کی شہادت دے تاکہ کسی کے لیے بھی اس کے بعد لب کشائی کی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہم حضرت مسیح کے ان ارشادات کی وضاحت سورة آل عمران کی تفسیر میں کرچکے ہیں یہاں صرف اشارت پر کفایت کریں گے۔ عبرانی میں لفظ " ابن " کا مفہوم : پہلی بات انہوں نے یہ فرمائی کہ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ یعنی کوئی میری اس خارق عادت ولادت سے اس غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو کہ میں کوئی مافوق بشر ہستی ہوں۔ میں اللہ کا بندہ ہی ہوں یہ قرآن نے ان کے ارشاد ابن اللہ کی صحیح تعبیر بتائی ہے۔ عبرانی میں ابن کا لفظ بندہ اور بیٹے دونوں کے لیے آتا ہے۔ موقع و محل سے اس کا تعین کرتے ہیں۔ حضرت مسیح کی واضح تعلیلمات کی موجودگی میں اس لفظ کی تاویل میں کسی التباس کی گنجائش نہیں تھی لیکن پال نے اس کو فتنہ کا ذریعہ بنا لیا۔ اور تثلیث کا ایک پورا گورکھ دھندا تیار کردیا۔ ہم انجیلوں کی روشنی میں اس میتھالوجی کی تردید سورة آل عمران اور مائدہ کی تفسیر میں کرچکے ہیں۔ تورات پر حکمت کا اضافہ : دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ خدا نے مجھے کتاب و نبوت سے سرفراز فرمایا ہے اور میں جہاں کہیں بھی ہوں میرا وجود وہاں کے لیے سراپا خیر و برکت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ جہاں تک شریعت کا تعلق ہے تورات ہی کی شریعت پر عامل اور اسی کے داعی اور مجدد تھے۔ البتہ انہوں نے اس پر حکمت کا اضافہ فرمایا۔ یہی حکمت کے وعظ ہیں جو منتشر اور ناتمام حالت میں ہمیں انجیلوں میں ملتے ہیں۔ یہی لعل و گہر ہیں جو وہ اپنی زبان مبارک سے ہر دشت و چمن میں برساتے ہوئے گزرتے تھے اور جس دل میں ذرا بھی زندگی کی رمق ہوتی تھی اس کو زندۂ جاوید کردیتے تھے۔ تمام دین و شریعت کی بنیاد نماز اور زکوۃ پر ہے : تیسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ مجھے زندگی بھر کے لیے نماز اور زکوۃ کی ہدایت ہوئی ہے۔ در اصل یہی دو چیزیں ہیں جو تمام دین و شریعت کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں اس وجہ سے تمام آسمانی شرائع میں سب سے پہلے انہی کا ذکر آتا ہے۔ ان کی ظاہری شکلیں مختلف ادیان میں مختلف رہی ہیں لیکن بندی رب اور ہمدردی خلق کی روح ان کی رہ شکل میں محفوظ رہی ہے۔ نماز آدمی کو اس کے رب سے صحیح طور پر جوڑتی ہے اور زکوۃ سے اس کا تعلق خلق کے ساتھ صحیح طور پر استوار ہوتا ہے۔ انہی دو چیزوں کی استواری پر تمام دین کے قیام کا انحصار ہے۔ اگر کوئی شخص ان کو ڈھا دے تو وہ تمام دین کو ڈھا دے گا اگرچہ وہ دین کے نام پر کتنی ہی لاف زنی کرے۔ ماں کی فرمانبرداری : چوتھی بات انہوں نے یہ فرمائی کہ خدا نے مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے، مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا ہے۔ یعنی ہرچند میری ولادت کی نوعیت خاص ہے، میرے اوپر میرے رب کے انعامات بھی خاص ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں ایک ماں کا بیٹا اور فرمانبردار بیٹا ہوں۔ خدا کے خاص انعامات کے معنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ میری حیثیت عرفی و بشری میں کوئی فرق آگیا ہے۔ ساتھی ہی یہ حقیقت بھی واضح فرما دی کہ جو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار نہیں وہ جبار و شقی ہے۔ حضرت مسیح کے اس ارشاد سے انجیل کی بعض ان روایات کی تردید ہوتی ہے جن سے یہ گمان گزرا ہے کہ خدانخواستہ وہ حضرت مریم کا واجبی احترام نہیں کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت مسیح پر دعوائے الوہیت کی تہمت چپکائی گئی ہے تو اس کی تائید فراہم کرنے کے لیے اس قسم کی روایات بھی انجیلوں میں داخل کردی گئیں۔ وَالسَّلامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا۔ ہر مرحلہ میں سلام و تحیت : جس طرح ٓیت 15 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ سے متعلق ان کی زندگی اور موت کے ہر مرحلہ میں سلام و تحیت کی بشارت دی ہے اسی طرح یہ حضرت مسیح نے اپنی ولادت، موت اور بعث کے ہر مرحلہ میں اپنے لیے قدوسیوں کے سلام اور ان کی تحیت کی خبر دی ہے۔ اس آیت سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ ولادت اور موت کے بعد اٹھائے جانے کے مراحل سے جس طرح ہر بشر گزرتا ہے اور گزرے گا اسی طرح سیدنا مسیح بھی گزرے اور گزریں گے۔ اس باب میں ان سے متعلق محض تفسیری روایات کی بنا پر کوئی ایسی بات فرض کرلینا احتیاط کے بالکل خلاف ہے جس کی کوئی سند قرآن میں نہیں ہے۔
Top