Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر کی اور میرے عہد کو پورا کرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا۔ اور مجھی سے ڈرو
یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ: اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے، یہودی علما اس کے معنی بطل اللہ کے بتاتے ہیں۔ یہ معنی لینے میں غالباً اس روایت کو بڑا دخل ہو گا جو یہود نے تورات میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کشتی لڑنے کی داخل کر رکھی ہے۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ عبرانی زبان سے بھی واقف تھے۔ ان کی تحقیق میں یہ دولفظ دو جزوں سے مرکب ہے۔ اِسر اور اِیل۔ اِسر کے معنی ان کی تحقیق میں بندہ کے ہیں اور ایل عبرانی میں الٰہ کے معنی کے لئے مشہور رہی ہے۔ اس طرح مولانا کے نزدیک اسرائیل کے معنی عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ کے ہوئے۔ یہود نے اسرائیل کی وجہ تسمیہ معین کرنے میں جس قسم کی ذہانت دکھائی ہے اسی قسم کی ذہانت انہوں نے یعقوب علیہ السلام کی وجہ تسمیہ معین کرنے میں بھی دکھائی ہے۔ ان کے نزدیک یعقوب علیہ السلام کا نام یعقوب اس لئے ہوا کہ وہ اپنے بھائی عیسو کی ایڑیاں پکڑے ہوئے پیدا ہوئے۔ استاذ امام کے نزدیک اس کی توجیہ بھی یہود کی توجیہ سے بالکل مختلف ہے۔ وہ قرآن مجید کے ارشادات کی روشنی میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے یعقوب نام پانے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسحٰق علیہ السلام کے بعد ان کے پیدا ہونے کی بشارت بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سنا دی تھی۔ اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ: یاد کرو۔ یہ بنی اسرائیل کو دعوت بانداز ملامت ہے یعنی یاد کر لو اس لئے کہ تم بالکل بھولے بیٹھے ہو اور جو فضل میں نے تم پر کئے تھے ان کو تم نے اپنے استحقاق ذاتی و خاندانی کا ثمرہ سمجھ لیا۔ نعمت سے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن افضال وعنایات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کی تفصیل بھی بیان فرما دی ہے۔ ہم چند آیتیں یہاں نقل کرتے ہیں ان سے اس اجمال کی وضاحت ہو جائے گی۔ اسی سورہ کے آگے والے رکوع میں فرمایا ہے: یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ. (۴۷ بقرہ) اے بنی اسرائیل میرے اس انعام کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیا اور میں نے تم کو دنیا والوں پر فضیلت دی۔ اس آیت میں اس آانعام کا حوالہ دیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی سیادت وامامت کی صورت میں عطا فرمایا تھا۔ پھر سورہ مائدہ میں فرمایا ہے: وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ. (۷ مائدہ) اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کے انعام کو اور اس کے اس عہد کو جو اس نے تمہارے ساتھ ٹھہرایا۔ اس آیت میں اس انعام کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر ان کو اپنی شریعت دے کر فرمایا۔ یہ شریعت اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان ایک میثاق اور معاہدے کی حیثیت رکھتی تھی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی شریعت کی پابندی کا عہد لیا اور اس پابندی کے صلہ میں اپنی طرف سے ان کے لئے دنیا وآخرت کی فوزوفلاح کی ضمانت دی۔ پھر اسی مائدہ میں آگے چل کر اس انعام کی مزید وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ وَجَعَلَکُمْ مُلُوْکًا وَاٰتٰکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ. (۲۰ مائدہ) اور یاد کرو جب کہ موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم کے لوگو اپنے اوپر اللہ کے انعام کو یاد رکھو کہ اس نے تمہارے اندر انبیا اٹھائے۔ تم میں بادشاہ بنائے اور تم کو وہ کچھ بخشا جو تم سے پہلے دنیا میں کسی قوم کو نہیں دیا۔ ان آیات سے اس اجمال کی پوری وضاحت ہوجاتی ہے جو زیر بحث آیت میں ہے۔ مزید جو چیز اس آیت کے پیش نظر رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اول تو فرمایا کہ میرا انعام اور پھر اس پر مزید اضافہ یہ فرمایا کہ جو میں نے تم پر انعام کیا، یہ تاکید اس لئے ہے کہ بنی اسرائیل کی تمام گمراہیوں کی جڑ، جیسا کہ آگے چل کر واضح ہو گا، یہی چیز تھی کہ ان کو جو بڑائیاں محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حاصل ہوئیں ان کو انہوں نے اپنی اہلیت واستحقاق کا کرشمہ اور اپنے نسل ونسب کا ایک قدرتی حق سمجھ لیا۔ یہاں نِعۡمَتِیۡ اور اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ کے الفاظ سے ان کی اسی ذہنیت کی اصلاح مقصود ہے اور آگے یہ چیز بالتدریج کھلتی جائے گی۔ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ: عہد سے مراد یوں تو پوری شریعت ہی ہے اس لئے کہ شریعت درحقیقت بندوں اور خدا کے درمیان ایک معاہدہ کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ معاہدہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام آسمان وزمین کا خالق ومالک ہے کسی کی بھی یہ شان نہیں ہے کہ تمام آسمان وزمین کا بادشاہ اس سے کوئی معاہدہ کرے، اس کے باوجود اگر وہ کسی کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی طرف سے اس کو ایک بہت بڑا شرف بخشتا ہے لیکن یہاں اس عام معاہدہ کے ساتھ ساتھ اس خاص عہد کی طرف بھی اشارہ ہے جو بنی اسرائیل سے آنحضرت ﷺ کے متعلق لیا گیا تھا۔ اس عہد کا ذکر تورات میں بھی ہے اور اس کی طرف قرآن میں بھی ارشادات کئے گئے ہیں۔ کتاب استثنا ۱۵-۱۹ میں ہے: “خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کو سننا۔۔۔۔ میں ان کےلئے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔“ قرآن مجید میں اس عہد کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لئے رحمت کی جو دعا کی، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْءٍ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبآءِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلاَلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیَ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. (۱۵۶۔۱۵۷ اعراف) اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے میں اس کو لکھ رکھوں گا ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کریں گے، زکوۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ یعنی جو پیروی کرتے ہیں رسول نبی امی کی جن کو لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں۔ وہ ان کو حکم دیتے ہیں نیکی کا اور روکتے ہیں منکر سے اور ان کے لئے جائز کرتے ہیں پاکیزہ چیزیں اور حرام کرتے ہیں ان پر ناپاک چیزیں اور دفع کرتے ہیں ان پر سے بوجھ اور پھندوں کو جو ان پر تھے۔ پس جو ان پر ایمان لائے اور جنہوں نے ان کی حمایت کی اور مدد دی اور اس روشنی کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اتاری گئی ہو تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نبی ﷺ سے متعلق بنی اسرائیل سے جو عہد اللہ تعالیٰ نے لیا تھا اس میں بنی اسرائیل پر کیا ذمہ داری ڈالی گئی تھی اور اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے صلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے کیا وعدے کئے گئے تھے۔ وَاِيَّايَ فَارْهَبُوۡنِ: کسی کی عظمت وجلالت کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی کی حالت طاری ہوجاتی ہے اس کے لئے عربی زبان میں رھبت کا لفظ ہے اور یہ بات اِیَّاکَ نَعۡبُدُ کی تفسیر کرتے ہوئے ہم واضح کر چکے ہیں کہ اگر فعل کے مفعول یا اس کے متعلق کو فعل پر مقدم کیا جائے تو یہ اس کے اہتمام اور اس پر زور دینے کی ایک شکل ہوتی ہے۔ علاوہ بریں اگر فعل پر“ف”آ جائے تو یہ مزید اہتمام کی ایک دلیل ہے۔ علیٰ ہٰذا القیاس اگر فعل کے بعد ضمیر بھی آ جائے تو اسی پہلو کی مزید وضاحت ہو گی۔ اس لحا ظ سے وَاِيَّايَ فَارْهَبُوۡنِ کے معنی ہوں گے، پس صرف مجھی سے ڈرو۔ صرف مجھی سے ڈرو کا مطلب یہاں یہ ہے کہ میرے عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے میں تمہاری دوسری مصلحتوں اور دوسرے اندیشوں پر میری عظمت وجلالت کے تصور کو غالب ہونا چاہئے۔ تم ڈرتے ہو کہ اگر تم نے نبی آخر الزمان کی دعوت قبول کر لی تو تمہاری سیادت وریاست ختم ہو جائے گی، امیوں کو تم پر فضیلت حاصل ہو جائے گی، تمہارے عوام تمہارے دشمن بن کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور جو فوائد تم ان سے اب تک حاصل کرتے رہے ہو ان کے دروازے بند ہو جائیں گے حالاں کہ ڈرنے کی چیزیں یہ نہیں ہیں۔ ڈرنا تو صرف مجھ سے چاہئے جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے اور جس نے تم سے عہد لیتے وقت پہاڑ کو تمہارے سروں پر چھتری کی طرح اوڑھا دیا تھا۔
Top