Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Anwar-ul-Bayan - Al-Maaida : 10
خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ١٘ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠ ۧ
خَتَمَ اللَّهُ
: اللہ نے مہرلگادی
عَلَىٰ
: پر
قُلُوبِهِمْ
: ان کے دل
وَعَلَىٰ
: اور پر
سَمْعِهِمْ
: ان کے کان
وَعَلَىٰ
: اور پر
أَبْصَارِهِمْ
: ان کی آنکھیں
غِشَاوَةٌ
: پردہ
وَلَهُمْ
: اور ان کے لئے
عَذَابٌ عَظِيمٌ
: بڑا عذاب
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے
ختم کا مفہوم :۔ " ختم اللہ " ختم کے معنی عربی زبان میں موم یا مٹی یا کسی اسی طرح کی چیز پر ٹھپہ لگانے کے ہیں۔ یہیں سے یہ لفظ خط پر مہر لگانے اور کسی چیز کے منہ کو اس طرح بند کردینے کے لیے استعمال ہونے لگا جس کے بعد جس کے بعد نہ اس میں کوئی چیز داخل ہوسکے اور نہ کوئی چیز اس سے نکل سکے۔ قرآن مجید میں بعض جگہ جب اللہ تعالیٰ کسی فعل کو اپنی طرف منسوب فرماتا ہے تو اس سے مقصود نفس اس فعل کو اپنی طرف منسوب کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس قانون یا اس سنت کو اپنی طرف منسوب کرنا ہوتا ہے جس قانون اور سنت کے تحت وہ فعل ظہور میں آتا ہے۔ چوں کہ یہ قانون خود اللہ تعالیٰ ہی کا مقرر کردہ ہوتا ہے اس وجہ سے وہ فعل جو اس قانون کے تحت ظہور میں آتا ہے بعض اوقات قانون کے بنانے والے کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔ تعبیر مطلب کا یہ اسلوب کم و بیش ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ عربی زبان اور قرآن مجید میں بھی اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں دلوں پر مہرلگانے کے فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے لیکن مقصود اس سے اس سنت اللہ کی اپنی طرف نسبت ہے جو اس نے ہدایت و ضلالت کے لیے جاری کر رکھی ہے اور جس کے تحت دلوں پر مہر کرنے کا یہ فعل واقع ہوتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ یہ سنت اللہ کیا ہے تو اس کی وضاحت ہم آگے کریں گے۔ " علی سمعہم " ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ یہاں سمع کا لفظ واحد کیوں استعمال ہوا جب کہ قلوب و ابصار کے الفاظ جمع استعمال ہوئے ہیں۔ کلام کی ہم آہنگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ بھی جمع یعنی اسماع استعمال ہوتا ؟ میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ اس چیز کا تعلق اہل زبان کے طریق استعمال سے ہے۔ قرآن میں یہ لفظ کم و بیش 20-22 مقامات میں استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہ قلوب، افئدہ اور ابصار کے ساتھ استعمال ہوا ہے لیکن ہر جگہ واحد ہی کی شکل میں استعمال ہوا ہے اور اکثر جگہ قلوب، افئدہ اور ابصار کے ساتھ استعمال ہوا ہے لیکن ہر جگہ واحد ہی کی شکل میں استعمال ہوا ہے، کہیں بھی جمع کی شکل میں استعمال نہیں ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید زبان کے لحاظ سے بھی ایک معیاری چیز ہے اس وجہ سے ماننا پڑے گا کہ فصحائے عرب اس سیاق میں اس لفظ کو اسی طرح استعمال کرتے رہے ہیں۔ 7۔ ختم قلوب کی حقیقت اور اس کے بارے میں قانون الٰہی یہاں جس ختم قلوب کا ذکر ہے اس کے بارے میں دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیں۔ ایک یہ کہ اس ختم سے مراد ختم ظاہری نہیں ہے بلکہ ختم معنوی مراد ہے۔ جہاں تک ظاہری چیزوں کے دیکھنے، سننے اور سمجھنے کا تعلق ہے یہ لوگ ان کو دیکھتے، سنتے اور سمجھتے تھے لیکن اس مشرب کے لوگ اپنی سمجھ بوجھ کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں دنیا کے ظواہر و محسوسات ہی تک محدود رکھتے ہیں، ان ظواہر و محسوسات کے پس پردہ جو حقائق ہیں ان کی طرف نہ تو یہ خود متوجہ ہوتے ہیں اور نہ کسی دوسرے توجہ دلانے والے کی بات پر کان ہی دھرتے ہیں۔ دنیا اور زخارف دنیا میں ان کا انہماک اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ کسی اور چیز کی طرف توجہ کرنے کی ان کے اندر گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ اپنی ذہانت و فطانت اسی ایک مقصد پر صرف کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کا طول وعرض ناپنے میں تو ان کی عقل بڑی تیز ہوجاتی ہے لیکن روحانی اقدار و حقائق کے معاملہ میں وہ بالکل ہی کند ہوتی ہے۔ یہ صورت حال ان کے مذاق کو بھی اس قدر بگاڑ دیتی ہے کہ صرف وہی باتیں ان کو اچھی لگتی ہیں جن سے ان کے اس بگرے ہوئے مذاق کو غذا ملے۔ جن کو باتوں سے اس کی حوصلہ شکنی ہو، خواہ وہ کتنی ہی معقول ہوں، ان سے ان کی طبیعت کو وحشت ہوتی ہے۔ اسی صورت حال کو یہاں ختم قلوب کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دوسری یہ کہ اس ختم قلوب سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ان کی ماؤں کے یٹوں ہی سے ان کے دلوں پر ٹھپے لگا کر پیدا کیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بد اعمالیوں سے اپنے آپ کو اس قدر بگاڑ لیا ہے کہ ان کے دل پیغمبر کی بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے اس نے ہر انسان کو اچھی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس کو نیکی وبدی کا امتیاز بخشا ہے اور ساتھ ہی نیکی کو پسند کرنے اور بدی سے نفرت کرنے کا مذاق بھی اس کے اندر ودیعت کیا ہے۔ ان فطری صلاحیتوں سے آراستہ کرنے کے بعد اس نے انسان کو آزاد چھوڑا ہے کہ چاہے وہ نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کا۔ آگے چل کر یہی اختیاری نیکی یا بدی ہے جو اس کی فطری صلاحیتوں کے بنانے یا بگاڑنے میں اصلی دخل رکھتی ہے۔ اگر انسان نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس سے اس کی فطری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو نیکی کی راہ میں ترقی کی توفیق ملتی ہے۔ اور اگر وہ خواہشاتِ نفس کے پیچھے لگ کے بدی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا دل برائی کا رنگ پکڑنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ یہ رنگ اس پر اس قدر غالب ہوجاتا ہے کہ پھر اس کے اندر نیکی کی کوئی رمق باقی ہی نہیں رہ جاتی۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت آدمی کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور اس کا مذاق طبیعت اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ اس کی ساری دلچسپی صرف بدی ہی کے کاموں سے باقی رہ جاتی ہے، نیکی کے کام کرنا تو الگ رہا نیکی کی باتیں سننے سے بھی اس کو وحشت ہوتی ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں یہ بات بار بار بیان ہوئی ہے کہ آدمی کے دل پر یہ مہر اس کے گناہوں کی پاداش میں لگتی ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں :" اولم یھد للذین یرثون الارض من بعد اھلہا ان لو نشاء اصبناہم بذنوبہم ونطبع علی قلوبہم فہم لا یسمعون " (اعراف :100) (کیا ان لوگوں کو جو اگلوں کے بعد اس زمین کے وارث ہوئے اس بات سے کوئی سبق حاصل نہیں ہوتا کہ اگر ہم چاہتے تو ان کے گناہوں کی پاداش میں ان پر بھی آفت لاتے اور ان کے دلوں پر مہر کردیتے پس وہ سننے سمجھنے سے رہ جاتے)۔ اس آیت میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ دلوں پر مہر گناہوں کی سزا کے طور پر لگتی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے : " ولقد جاء تہم رسلہم بالبینات فما کانوا لیومنوا بما کذبوا من قبل، کذلک یطبع اللہ علی قلوب الکافرین، وما وجدنا لاکثرہم من عہد وان وجدنا اکثرہم لفاسقین " (اعراف : 101-102) (اور ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے لیکن یہ لوگ ایمان لانے والے نہ بنے کیوں کہ یہ پہلے سے جھٹلاتے رہے تھے۔ اسی طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے۔ ہم نے ان میں سے اکثر کے اندر عہد کی پابندی نہیں پائی (بلکہ) ہم نے ان میں سے اکثر کو بد عہد اور نافرمان پایا)۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے عہد اور اس کے احکام کی خلاف ورزی میں یہ پہلے مشاق تھے۔ اس وجہ سے جب ان کے رسول بھی ان کے پاس اللہ کی آیات اور اس کی نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے ان کی بھی کوئی پروا نہ کی۔ جو لوگ حق کی تکذیب میں اس طرح دیدہ دلیر اور ڈھیٹ ہوجاتے ہیں اللہ تعالیٰ کے دلوں پر مہر کردیا کرتا ہے جس سے ان کی عقل بالکل ہی ماری جاتی ہے۔ اس سے زیادہ وضاحت و تصریح کے ساتھ یہود کے بارے میں فرمایا ہے : " فبما نقضہم میثاقہم و کفرہم بایت اللہ وقتلہم الانبیاء بغیر حق و قولہم قلوبنا غلف۔ بل طبع اللہ علیہا بکفرہم فلا یومنون الا قلیلا " (نساء : 155) (پس بوجہ اس کے کہ انہوں نے عہد کو توڑا، اللہ کی ایات کا انکار کیا، انبیاء کو ناحق قتل کیا اور کہا کہ ہمارے دل تو بند ہیں بلکہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کفر کے سبب سے مہر کردی ہے تو وہ ایمان نہیں لائیں گے مگر بہت کم)۔ مذکورہ بالا آیات سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ماں کے پیٹ سے اس کے دل پر مہر کر کے نہیں بھیجتا بلکہ یہ مہر جس کے دل پر بھی لگتی ہے اس کے گناہوں کے قدرتی نتیجہ کے طور پر لگتی ہے۔ دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ ہر درجہ کا گناہ وہ چیز نہیں ہے جس کے نتیجہ میں کسی کے دل پر مہر لگ جایا کرے، بلکہ کوئی فرد یا کوئی گروہ جب حق کو حق سمجھتے ہوئے، اپنے دل کی گواہی کے بالکل خلاف محض ضد، نفسانیت اور ہٹ دھرمی کے سبب سے اس کی مخالفت کرتا ہے اور اس مخالفت پر جم جاتا ہے تب اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ صحیح طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجایا کرتا ہے۔ تیسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ دل کا اس طرح مہر بند ہوجانا اور سمع و بصر کی صلاحیتوں سے اس طرح محروم ہوجانا اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہے جو اس کی نعمتوں کی ناشکری کی پاداش میں کسی فرد یا گروہ پر اس دنیا میں نازل ہوتا ہے اور اسی عذاب کا فطری نتیجہ وہ عذاب عظیم ہے جس میں اس طرح کے لوگ اس زندگی کے بعد والی زندگی میں مبتلا ہوں گے۔ چناچہ زیر بحث آیت کے آخر میں یہ جو فرمایا ہے کہ " ولہم عذاب عظیم " (اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے) وہ درحقیقت اسی ختم قلوب کے اس قدرتی نتیجہ کا بیان ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔ ختم قلوب کی جو حقیقت ہم نے بیان کی ہے اس کی وہی حقیقت احادیث سے بھی واضھ ہوتی ہے۔ ہم طوالت سے بچنے کے لیے صرف ایک حدیث پر یہاں اکتفا کرتے ہیں۔ " ان المومن اذا اذنب کا نت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب و نزع واستعتب صقل قلبہ وان زادت حتی تعلو قلبہ فذلک الوان الذی قال اللہ تعالیٰ کلا بل ران علی قلوبہم ما کانوا یکسبون " (ابن کثیر بحوالہ ترمذی) (مومن جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے سبب سے اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے، اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کا وہ دھبہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور اگر اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ ان کی سیاہی اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے تو یہی وہ رین ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کلا بل ران علی قلوبہم ماکانوا یکسبون۔ (ہر گز نہیں ! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی سیاہی چھا گئی ہے)۔ سلف صالحین کے نزدیک بھی ختم قلوب کی یہی حقیقت ہے۔ ابن کثیر نے اعمش کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اعمش کہتے ہیں کہ مجاہد نے ایک مرتبہ ہمیں سمجھایا کہ سلف (صحابہ) دل کو اس ہتھیلی کے مانند سمجھتے تھے۔ جب آدمی کسی گناہ میں آلودہ ہوتا ہے تو (انہوں نے اپنی انگلی سکیڑتے ہوئے سمجھایا) دل اس طرح سکڑ جاتا ہے۔ پھر جب مزید گناہ کرتا ہے تو (دوسری انگلی کو سکیڑتے ہوئے بتایا) دل اس طرح بھنچ جاتا ہے اسی طرح تیسری انگلی کو سکیڑا۔ یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے تمام انگلیوں کو سکیڑ لیا۔ پھر فرمایا کہ جب دل گناہوں کے غلبہ سے اس طرح بھنچ جاتا ہے تو اس پر مہر کردی جاتی ہے۔ جاہد نے بتایا کہ سلف (صحابہ) اسی چیز کو وہ رین قرار دیتے تھے جس کا ذکر " کلا بل ران علی قلوبہم الایۃ " میں آیا ہے۔ ختم قلوب کی اصل حقیقت واضح ہوجانے کے بعد ہمیں جبر و اختیار کی اس بحث میں پڑنے کی ضرورت باقی نہیں رہی جو اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان برپا ہے اور جس میں یہ حضرات بےضرورت اس آیت کو بھی گھسیٹ لے گئے ہیں۔ قرآن مجید نہ تو اس جبر ہی کے حق میں ہے جس کے مدعی اشاعرہ ہیں اور نہ اس اختیار ہی کے حق میں ہے جس کے علم بردار معتزلہ ہیں بلکہ حق ان دونوں کے درمیان ہے۔ لیکن یہ مقام اس مسئلہ کی تفصیلات کے لیے موزوں نہیں ہے۔ ہم صرف چند اصولی باتیں یہاں بیان کیے دیتے ہیں جو ان لوگوں کے لیے انشاء اللہ کفایت کریں گی جو اس مسئلہ پر ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر صرف علمی ذہن کے ساتھ غور کریں گے۔ یہ اصولی باتیں مندرجہ ذیل ہیں :۔ 1۔ مبداء فطرت سے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اچھی فطرت پر پیدا کیا ہے، اس کو نیکی وبدی کا امتیاز بخشا ہے اور ان میں سے جس کو بھی وہ اختیار کرنا چاہے اس کو اختیار کرنے کی اس کو آزادی دی ہے۔ اس کے بعد اس کا نیک یا بد بننا اس کے اپنے رویہ اور توفیق الٰہی پر منحصر ہے۔ اگر وہ نیکی کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نیکی کی توفیق بخشتا ہے اور اگر وہ بدی کی راہ پر جانا چاہتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ ، اگر چاہتا ہے، بدی کی راہ پر جانے کے لیے بھی چھوڑ دیتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جن چیزوں پر انسان کا مواخذہ کرے گا یا جن پر اس کو اجر دے گا ان کے لیے اس نے انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بھی بخشی ہے۔ جو لوگ اس اختیار و ارادہ کے حامل نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو مواخذہ سے بھی بری رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے اور اس کا استعمال بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کے تحت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت کے تحت انسان کے جس ارادہ کو چاہے پورا نہ ہونے دے البتہ اگر وہ اپنی کسی حکمت کے تحت اس کے کسی نیکی کے ارادہ کو پورا نہیں ہونے دیتا تو اس نیکی کے کا جر سے اس کو محروم نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر اس کی کسی بدی کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دیتا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے اخروی خمیازہ سے بھی لازما اس کو بری قرار دے دے۔ 3۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کی مطلق مشیت کا بیان ہوا ہے اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس کی مشیت کو اس کے سوا کوئی دوسرا روک یا بدل نہیں سکتا۔ یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی مشیت سرے سے کسی عدل و حکمت کی پابند ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عادل اور حکیم ہے، اس کا کوئی کام بھی عدل اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس وجہ سے جہاں کہیں بھی اس نے اپنی مشیت کو بیان فرمایا ہے اس کو اس قانون عدل و حکمت ہی کے تحت سمجھنا چاہیے جس کے تحت اس نے اس دنیا کے نظم کو چلانا پسند فرمایا ہے۔ یہ خیال کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ اپنی جو سنت اس نے خود جاری کی ہے اور جس قانونِ عدل کو اس نے خود پسند فرمایا ہے اپنی مشیت کے زور سے خود ہی اس کو توڑے گا۔ مثلا اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس پر ہدایت و ضلالت کے لیے اس نے عدل و حکمت کا کوئی ضابطہ سرے سے مقرر ہی نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ہدایت و ضلالت اس سنت کے مطابق واقع ہوتی ہے جو اس نے ہدایت و ضلالت کے لیے مقرر کر رکھی ہے اور کوئی دوسرا اس سنت کے توڑنے یا بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ 4۔ قرآن مجید میں بعض افعال اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمائے ہیں لیکن ان سے اصل مقصود، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، ان افعال کی نسبت نہیں ہے بلکہ ان ضابطوں اور ان قوانین کی نسبت ہے جن کے تحت وہ افعال واقع ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ ضابطے اور قاعدے خود اللہ تعالیٰ ہی کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اس وجہ سے کہیں کہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے تحت واقع ہونے والے افعال کو بھی اپنی طرف منسوب کردیا ہے۔ مثلاً فرمایا ہے " فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبہم " (جب وہ کج ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل کج کردئیے)۔ یا فرمایا ہے " ونقلب افئدتہم وابصارہم " (اور ہم ان کے دل اور ان کی آنکھیں الٹ دیتے ہیں)۔ اس طرح کے مواقع پر عموماً قرآن مجید میں وہ اصول بھی بیان کردیا جاتا ہے جس کے تحت وہ فعل واقع ہوتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کوئی بات کہہ دی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں گمراہ کرتا مگر فاسقوں کو۔ ان اشارات کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ قاری اصل حقیقت کی طرف متوجہ ہوجائے اور ظاہر الفاظ سے کسی مغالطہ میں نہ پڑجائے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کا ازلی و ابدی اور محیط کل علم، اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی سنتوں میں سے کسی سنت کی نفی نہیں کرتا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ ہر شخص کے متعلق ازل سے یہ جانتا ہے کہ وہ ہدایت کی راہ اختیار کرے گا یا ضلالت کی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ ہدایت یا ضلالت کو اسی سنت اللہ کے مطابق اختیار کرے گا جو ہدایت و ضلالت کے لیے اس نے مقرر کر رکھی ہے۔ ان اصولی باتوں کو جو شخص پیش نظر رکھے گا وہ انشاء اللہ ان بہت سی الجھنوں سے آپ سے آپ نکل جائے گا جو جبر و اختیار کے معاملہ میں قرآن مجید کی پیدا کردہ نہیں بلکہ متکلمین کی موشگافیوں کی پیدا کردہ ہیں۔ 8۔ مجموعہ آیات 7-6 کا اصلی مدعا :۔ ان آیات کا اصل مدعا پیغمبر ﷺ کو صرف یہ خبردینا نہیں ہے کہ فلاں گروہ کے لوگ، خواہ تم ان کو ڈرآ یا نہ ڈرآ، ایمان لانے والے نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں آیتیں (6-7) چند نہایت اہم حقائق سے پردہ اٹھا رہی ہیں۔ ہم ان میں سے بعض باتوں کی طرف یہاں اشارہ کریں گے تاکہ ان آیات کی اصل تعلیم واضح ہوسکے۔ 1۔ پہلی چیز جو ان آیات کے اندر سب سے زیادہ واضح ہے وہ پیغمبر ﷺ کے لیے تسکین و تسلی اور آپ کے مخالفین کے لیے سرزنش اور دھمکی ہے۔ نبی ﷺ کو بتایا گیا ہے کہ آپ یہ خیال نہ کریں کہ یہ لوگ اپنے کفر پر جو جمے ہوئے ہیں تو اس وجہ سے جمے ہوئے ہیں کہ آپ کے انذار و تبلیغ میں کوئی کسر ہے یا آپ جو کلام سنا رہے ہیں وہ کسی پہلو سے غیر موثر ہے۔ نہ آپ کے انذار و تبلیغ میں کوئی کسر ہے نہ اس کلام میں کوئی نقص یا خلا ہے بلکہ ساری خرابی خود ان لوگوں کے اپنے دلوں کے اندر ہے۔ اللہ کے دین کی صداقتوں کو جھٹلاتے جھٹلاتے اب یہ قانون الٰہی کی زد میں آچکے ہیں جس کے سبب سے ان کے دلوں کے اندر سے اثر پذیری کی، ان کے کانوں کے اندر سے حق نیوشی کی اور ان کی آنکھوں کے اندر سے عبرت نگاہی کی ساری صلاحیتیں سلب ہوچکی ہیں۔ اب آپ ان کی صلاح و فلاح کی طرف سے بالکل مایوس ہوجائیں۔ اب ان کے لیے اگر کوئی چیز باقی رہ گئی ہے تو وہ اللہ کا عذاب ہے جس سے وہ لازماً دو چار ہوں گے۔ 2۔ دوسری حقیت جو واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر ایمان و ہدایت کے داخل ہونے کا رستہ اس کا دل، اس کی عقل، اس کے کان اور اس کی آنکھیں ہیں۔ اگر آدمی ان کو کھلا رکھے، آفاق، اور انفس کے اندر ہر وقت جو مشاہدے ہو رہے ہیں ان پر بصیرت کی نگاہ ڈالے۔ خدا کے کلام اور داعیانِ حق کی باتوں کو سراپا گوش ہو کر سنے اور پھر ان ساری چیزوں پر تدبر و تفکر کے اور راستبازی و دیانتداری کے ساتھ جن حقائق تک پہنچے ان کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے اور ان کو حرز جاں بنائے تب اس کو ہدایت ملتی ہے۔ اگر وہ یہ راہ نہ اختیار کرے اور قدرت کی بخشی ہوئی ان صلاحیتوں سے نہ کام لے تو ہو لاکھ سر مارے لیکن اس کے لیے ایمان وہدایت کی راہ نہیں کھل سکتی۔ 3۔ تیسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان کی روحانی و عقلی ترقی اور اس کے کمال کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمع، بصر اور فواد کی جو عظیم صلاحیتیں عطا فرمائئی ہیں ان کو ان کے صحیح مقصد کے لیے استعمال کرے۔ اگر آدمی ان کو استعمال نہ کرے یا استعمال تو کرے لیکن اس اعلیٰ مقصد کے لیے استعمال نہ کرے جس کے لیے یہ فی الحقیقت عطا ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو وبال بنا دیتا ہے۔ ان کے وبال ہونے کی صورت ان کے استعمال نہ کرنے کی حالت میں تو یہ ہوتی ہے کہ آدمی سب کچھ رکھنے کے باوجود فکر و عمل کے ہر میدان میں عاجز و درماندہ رہتا ہے اور غلط استعمال کرنے کی صورت میں یہ وبال اس طرح بنتی ہیں کہ یہ آدمی کو زندگی بھر ہر وادی اور ہر صحرا میں ہرزہ گردی کراتی ہیں یہاں تک کہ اس خلائے لامتناہی میں بھی اس کو چکرا کر لاتی ہیں اگر نہیں پہنچنے دیتیں تو اسی دروازے پر جو نجات اور فلاح کا اصلی دروازہ ہے۔
Top