Bayan-ul-Quran - Al-Maaida : 10
وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ١٘ۗ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖ١ۚ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖ١ۙ فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ١٘ۗ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ
وَدَخَلَ : اور وہ داخل ہوا الْمَدِيْنَةَ : شہر عَلٰي حِيْنِ : وقت پر غَفْلَةٍ : غفلت مِّنْ اَهْلِهَا : اس کے باشندے فَوَجَدَ : تو اس نے پایا فِيْهَا : اس میں رَجُلَيْنِ : دو آدمی يَقْتَتِلٰنِ : وہ باہم لڑتے ہوئے هٰذَا : یہ (ایک) مِنْ : سے شِيْعَتِهٖ : اس کی برادری وَهٰذَا : اور وہ (دوسرا) مِنْ : سے عَدُوِّه : اس کے دشمن کا فَاسْتَغَاثَهُ : تو اس نے اس (موسی) سے مدد مانگی الَّذِيْ : وہ جو مِنْ شِيْعَتِهٖ : اس کی برادری سے عَلَي : اس پر الَّذِيْ : وہ جو مِنْ عَدُوِّهٖ : اس کے دشمن سے فَوَكَزَهٗ : تو ایک مکا مارا اس کو مُوْسٰى : موسیٰ فَقَضٰى : پھر کام تمام کردیا عَلَيْهِ : اس کا قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ مِنْ : سے عَمَلِ الشَّيْطٰنِ : شیطان کا کام (حرکت) اِنَّهٗ : بیشک وہ عَدُوٌّ : دشمن مُّضِلٌّ : بہکانے والا مُّبِيْنٌ : صریح (کھلا)
اور ایک دن لوگوں کی بیخبر ی میں وہ شہر میں داخل ہوا تو اس میں اس نے دو آدمیوں کو لڑتے پایا۔ ایک اس کے اپنے گروہ میں سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں کے گروہ میں سے تو جو اس کے گروہ میں سے تھا اس نے اس سے اس شخص کے مقابل میں مدد کی درخواست کی جو اس کے مخالفوں میں سے تھا تو موسیٰ نے اس کے گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔ اس نے کہا یہ تو مجھ سے شیطانی کام صادر ہوگیا، بیشک وہ ایک کھلا ہوا گمراہ کرنے والا دشمن ہے
آیت (16-15) مدینۃ سے مراد چونکہ محض غلاموں اور خدمت گاروں کی تھی اس وجہ سے ان کی بستی اصل شہر سے الگ بسائی گئی تھی۔ وہ صرف مزدوروں اور خدمت گاروں کی طرح کام کے اقوات میں شہر میں جایا کرتے تھے۔ صالح جوانی میدان عمل میں حضرت موسیٰ ؑ جوان ہوئے اور ان کے اندر وہ قتوت و مروت اور رحیتر و غیرت پیدا ہوئی جو صالح جوانی اور علم و معرفت کا خاصہ ہے تو وہ وقتاً فوقتاً شہر میں اپنے مظولم بھائیوں کا حال دیکھنے کے لئے جانے لگے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی حمیت و حمایت کے سبب سے قبطیوں کی نظروں میں کھٹکنے لگی تھے اس وجہ سے انہیں یہ کام لوگوں کی نگاہوں سے بچ بچا کے ایسے اقوات میں کرنا پڑتا جن میں لوگ آرام کرتے ہیں۔ ایک دن وہ اسی طرح کے تجسس کے لئے شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیل دونوں لڑ رہے ہیں۔ اسرائیل نے جبحضرت موسیٰ کو دیکھا تو ان سے طالب مدد ہوا۔ حضرت موسیٰ اس کو مظلوم دیکھ کر، بتقاضائے فتوت و حمایت حق، اس کی مدد کے لئے بڑھے اور چاہا کہ بیچ بچائو کرا دیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قبطی اپنی رعونت کے سبب سے ان سے الجھ پڑا۔ انہوں نے اپنی مدافعت میں اس کو حو گھونسا مارا تو وہ ایسا بےڈھب پڑا کہ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نہ تو قبطی کے قتل کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے اور نہ اس کو اس صورتحال کے پیش آنے کا کوئی گمان تھا۔ بالکل بےارادہ جب یہ حادثہ پیش آگیا تو انہیں فوراً اپنی غلطی پر سخت پشماننی ہوئی اور انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی کہ اے رب میں نے اپنی جان پر سخت ظلم ڈھایا تو مجھے معاف فرما دے۔ چونکہ یہ غلطی ان سے بالکل بےارادہ ہوئی تھی، پھر انہوں نے معافی بھی بلاتاخیر مانگی اس وجہ سے سے اللہ تعالیٰ نے ان کو فوراً ہی معاف فرما دیا اور اس معافی کی غیبی طور پر انکو بشارت بھی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ غفور رحمی ہے۔ اوپر یہ ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بھرپور جوانی کے ساتھ اپنی حکمت و معرفت سے بھی نوازا تھا یہ اسی حکمت و معرفت کا کرشمہ ہے۔ اگر حضرت موسیٰ ؑ صرف ایک تگڑے جوان ہوتے تو اپنے گھونسے کی شہ زوری اور بےپناہی پر فخر سے پھولے نہ سماتے۔ بالخصوص ایک قبطی کے اس طرح قتل کو تو وہ اپنا ایک زندہ جاوید کارنامہ سمجھتے لیکن انہوں نے اپنے دشمن کے معاملے میں بھی اپنی ایک غیر ارادی غلطی کو، اپنا ایک جرم سمجھا اور اپنے رب سے اس کی فوراً معافی مانگی۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ معاملہ حضرت موسیٰ ؑ اور ان کے رب ہی کے درمیان کا معاملہ تھا۔ مصر میں اس وقت جو صورتحال تھی اس میں اس بات کا کوئی امکان نہ تھا کہ حضرت موسیٰ ؑ حکومت اور قانون سے کسی انصاف کی توقع کرتے۔
Top