Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
تم بہترین امت ہو، لوگوں کی رہنمائی کے لیے معبوث کیے گئے ہو، معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے یہ بہتر ہوتا ان میں سے کچھ تو مومن ہیں اور اکثر نافرمان ہیں۔
’ کان ‘ یہاں تامہ ہے جس طرح کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْماً میں ہے۔ خَیْرَ اُمَّۃٍ میں اشارہ اس حقیقت کی طرف ہے کہ اب دین کی صحیح شاہراہ پر تمہی ہو۔ اللہ نے جو دین نازل فرمایا تھا، اہل کتاب نے اس میں کج پیچ کی راہیں نکال کر اصلی دین کو گم کردیا۔ اب خلق کی رہنمائی کے لیے خدا نے تم کو کھڑا کیا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة بقرہ میں کذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس الایہ کے الفاظ سے واضح فرمایا ہے۔ وہاں ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ امت چونکہ ٹھیک نقطہ اعتدال اور وسط شاہراہ پر ہے اس وجہ سے یہ خیر امت ہے۔ لِلنَّاسِ میں ایک مضاف محذوف ہے یعنی لوگوں کی اصلاح، رہنمائی اور ان پر اللہ کے دین کی گواہی دینے کے لیے، جیسا کہ فرمایا ہے، لتکونوا شہداء علی الناس۔ خیر امت کا منصب صفات کے ساتھ مشروط ہے : تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ، یہ اس امت کے خیر امت ہونے کی دلیل بیان ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اس لیے خٰر امت ہو کہ تم معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو، اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس منصب پر تم نسل و نسب کی بنا پر نہیں سرفراز ہوئے ہو، جیسا کہ اہل کتاب نے اپنی بابت گمان کیا، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری نے تمہیں اس کا استحقاق بخشا ہے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوگئی کہ یہ منصب صفات اور ذمہ اریوں کے ساتھ مشروط ہے۔ کسی مخصوص گروہ کے ساتھ اللہ نے اس کو باندھ نہیں چھوڑا ہے کہ لازماً یہ اس کے ساتھ بندھا ہی رہے، اگرچہ وہ یہود نصاری کی طرح معروف کو منکر اور منکر کو معروف بنا کے رکھ دے۔ ایمان ہر نیکی کی جڑ ہے : تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصل بنیاد اللہ پر ایمان ہے۔ کسی کو جو کچھ بھی عزت و فضیلت اللہ کی نگاہوں میں حاصل ہوتی ہے وہ اسی کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی معتبر وہی ہے جو ایمان باللہ کے ساتھ ہو۔ منبروں اور اسٹیجوں سے خدا پرستی اور دینداری کے جو وعظ کھوکھلے سینوں سے نکلتے ہیں ان کی حیثیت وہی ہے جس کا ذکر قرآن نے علمائے یہود سے متعلق فرمایا ہے کہ ”اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم : کیا تم دوسروں کو نیکی اور تقوی کے وعظ سناتے ہو لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہو“۔ فسق کا لفظ یہاں ایمان و اطاعت سے نکل جانے کے معنی میں ہے۔ اس کی تشریح ہم دوسرے مقام میں کرچکے ہیں۔ اس امت کے منصب امامت کا اعلان : نظم کے اعتبار سے یہ آیت، جیسا کہ ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں، اس امت کے منصب امامت کا اعلان ہے اس سورة کی تمہید میں اللہم مالک الملک والی دعا کے ضمن میں ہم یہ لکھ آئے کہ اس کے اندر اہل کتاب کی معزولی اور امت مسلمہ کی تقرری کا فیصلہ مضمر ہے۔ چناچہ پوری تفصیل کے ساتھ یہود و نصاری دونوں کی بدعہدیاں واضح کرچکنے کے بعد یہ اعلان کردیا گیا کہ اب خیر امت کے منصب کے حق دار یہ اہل ایمان ہیں نہ کہ یہود و نصاری۔ یہود و نصاری کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ قرآن اور پیغمبر پر ایمان لاتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا ”بہتر ہوتا“ کے الفاظ کے اندر جو ابہام و اجمال ہے یہ متکلم کے اس غضب کا غماز ہے جس کے متحمل الفاظ نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کے بعد بانداز حسرت فرمایا کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود ان میں ایمان لانے والے تھوڑے نکلے، اکثریت بد عہدوں اور نافرمانوں ہی کی نکلی۔
Top