Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 120
اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١٘ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَیِّئَةٌ یَّفْرَحُوْا بِهَا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّكُمْ كَیْدُهُمْ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۠   ۧ
اِنْ : اگر تَمْسَسْكُمْ : پہنچے تمہیں حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْھُمْ : انہیں بری لگتی ہے وَ : اور اِنْ : اگر تُصِبْكُمْ : تمہیں پہنچے سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّفْرَحُوْا : وہ خوش ہوتے ہیں بِھَا : اس سے وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پر وہیز گاری کرو لَا يَضُرُّكُمْ : نہ بگاڑ سکے گا تمہارا كَيْدُھُمْ : ان کا فریب شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِمَا : جو کچھ يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں مُحِيْطٌ : گھیرے ہوئے ہے
اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو ان کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے اور اگر تم کو کوئی گزند پہنچ جاتا ہے تو اس سے خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کروگے اور تقوی اختیار کروگے تو ان کی چال تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ اس کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔
صبر اور تقویٰ : فرمایا کہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تم کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو انہیں بڑا رنج ہوتا ہے اور اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچ جائے تو یہ اس سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر تم نے ثابت قدمی دکھائی اور ان باتوں سے بچتے رہے جن سے بچتے رہنے کی تمہیں نہایت واضح ہدایات دے دی گئی ہیں تو ان کی چالیں تمہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی ساری سرگرمیوں اور ساری چالوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس آخری ٹکڑے کی مزید وضاحت کے لیے اسی سورة کی آیات 125 اور 186 پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ ان تصبروا وتتقوا کے تحت ابن جریر کا ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ یہاں جس تقوی کا حکم دیا گیا ہے اس میں سب سے مقدم لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ کی ہدایات پر عمل ہے یعنی کفار کو اپنا محرم راز بنانے سے احتراز۔ اگلی آیات 121 تا 129 کا مضمون : اب آگے ان واقعات و حالات پر تبصرہ ہے جو غزوہ احد کے موقع پر پیش آئے اور یہ سلسلہ بیان سورة کے آخر تک چلا جائے گا۔ ہم اس سورة کے تمہیدی مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کی اپنی ہی ایک جماعت کے بےتدبیری سے جو شکست پیش آئی اس نے اسلام اور کفر کی اس کشمکش سے تعلق رکھنے والے ہر گروہ پر کسی نہ کسی پہلو سے اثر ڈالا۔ مسلمانوں میں جو لوگ کمزور تھے وہ اس حادثہ سے بد دل ہوگئے اور ان کی اس بددلی سے منافقین نے فائدہ اٹھا کر ان کے دلوں میں اسلام، اسلام کے مستقبل اور نبی ﷺ کے خلاف مختلف قسم کے وسوسے بھرنے شروع کردئیے۔ یہود کو بھی اس حادثے سے بڑی شہ ملی، وہ از سرِ نو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور پیغمبر ﷺ کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں سرگرم ہوگئے۔ قریش کو بدر کی شکست سے جو ضرب پہنچی تھی اس کا زخم بھی گویا اس واقعہ سے مندمل ہوگیا اور وہ پھر یہ حوصلہ کرنے لگے کہ اسلام کو زک پہنچائی جاسکتی ہے۔ یہ صورت حال مقتضی ہوئی کہ احد کے واقعات پر تبصرہ کر کے ان تمام غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو اس موقع پر مخالفین، ذہنوں میں پیدا کر رہے تھے۔ ساتھی ہی یہی بہترین موقع تھا اس بات کے لیے کہ مسلمانون کی کمزوریوں اور غلطیوں پر گرفت کی جائے اور آئندہ ان کو ان سے احتراز کرنے کی ہدایت کی جائے تاکہ یہ امت کمزوریوں سے پاک ہو کر اس منصب کی ان ذمہ داریوں کی صحیح طور پر اہل ہوسکے، جس پر ’ کنتم خیر امۃ ‘ والی آیت میں اس کو سرفراز کیا گیا ہے۔ چناچہ جب اس سورة میں بات یہاں تک پہنچی کہ تمہی غالب اور فتحمند ہوگے اور تمہارے مخالفوں کی کوئی چال بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی بشرطیکہ تم صبر اور تقوی پر قائم رہو تو بہترین موقع گویا احد کے واقعات پر تبصرہ کر کے یہ دکھانے کا آگیا کہ صبر اور تقوی کے پہلو سے وہ کیا خامیاں ابھی جماعتی زندگی میں موجود تھیں جو اس افتاد کا باعث ہوئیں اور اس سے انفرادی اور اجتماعی اصلاح و تزکیہ کے کیا کیا سبق ملتے ہیں۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top