Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 17
اَلصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِ
اَلصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے وَالصّٰدِقِيْنَ : اور سچے وَالْقٰنِتِيْنَ : اور حکم بجالانے والے وَالْمُنْفِقِيْنَ : اور خرچ کرنے والے وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ : اور بخشش مانگنے والے بِالْاَسْحَارِ : سحری کے وقت
جو صابر، راستباز، فرمانبردار، راہ خدا میں خرچ کرنے والے اور اوقاتِ سحر میں مغفرت چاہنے والے ہیں۔
حاملین قرآن کا کردار : اَلصّٰبِرِيْنَ الایۃ۔ یہ دوسرا بدل ہے۔ اس سے ان اخلاقی اوصاف کی وضاحت ہوگئی ہے جن سے یہ پاکیزہ صفات گروہ متصف ہے اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ وہ اخلاق و کردار کن اجزا سے مرکب ہے جو قرآن کا حامل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ یہ آیت گویا اس کے بالکل ضد اخلاق و کردار پیش کر ہے جو اوپر زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ والی آیت میں نمایاں ہوا۔۔ یہاں صرف پانچ صفات بیان ہوئی ہیں۔ صبر، صدق، قنوت، انفاق، استٖغفار۔ صبر کی حقیقت نرم و گرم ہر طرح کے حالات میں حق پر جزم و استقامت ہے۔ غربت، بیماری، مصیبت، مخالفت، جنگ، غرض جس قسم کے بھی حالات سے آدمی کو دو چار ہونا پڑے عزم و ہمت کے ساتھ ان کو برداشت کرے، ان کا مقابلہ کرے، ان سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کرے اور اپنے مکان کے حد تک موقف حق پر جما رہے۔ دل کو مایوسی اور گھبراہٹ سے، زبان کو شکوہ تقدیر سے اور اپنی گردن کو کسی باطل کے آگے جھکنے سے بچائے۔ دین کا بڑا حصہ اسی صبر پر قائم ہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ وصف نہ ہو تو کوئی طمع، کوئی ترغیب، کوئی آزمائش بھی اس کو حق سے ہٹا کر باطل کے آگے سرنگوں کر دے سکتی ہے۔ جو شخص سچائی کے راستے پر چلنا چاہے اور اس پر چل کر استوار رہنے کا آرزو مند ہو اسے سب سے پہلے اپنے اندر صبر کی صفت پیدا کرنی چاہیے۔ مزاحمتوں کے مقابلے کے لیے اور اس راہ میں ہر قدم پر مزاحمتوں سے مقابلہ ہے۔ اصلی ہتھیار بندے کے پاس یہی ہے۔ فلسفہ دین کے نقطہ سے دین نصف شکر ہے اور نصف صبر۔ لیکن عملی تجربہ گواہ ہے کہ آدمی میں صبر نہ ہو تو شکر کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ یہاں چونکہ خطاب ان لوگوں سے ہے جنہیں سچائی کی سب سے بڑی بلندی پر چرھنے کی دعوت دی جا رہی ہے اس وجہ سے ان کے سامنے، جن لوگوں کا نمونہ پیش کیا گیا ہے ان کے کردار میں سب سے پہلے ان کے صبر ہی کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ’ صدق ‘ کی اصل حقیقت کسی شے کا بالکل مطابق واقعہ ہونا ہے۔ اس کی روح پختگی اور ٹھوس پن ہے نیزے کی گرہیں دیکھنے میں جیسی مضبوط ظاہر ہو رہی ہیں آزمائش سے بھی ویسی ہی مضبوط ثابت ہوں تو ایسی نیزے کو عربی میں صادق الکعوب کہیں گے۔ زبان دل سے ہم آہنگ ہو، عمل اور قول میں مطابقت ہو، ظاہر اور باطن ہم رنگ ہوں، عقیدہ اور فعل دونوں ہم عناں ہوں، یہ باتیں صدق کے مظاہر میں سے ہیں اور انسانی زندگی کا سارا ظاہر و باطن انہی سے روشن ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی ساری معنویت ختم ہو کر رہ جاتی ہے یہی چیز ہے جو انسان کو وہ پر پرواز عطا کرتی ہے جس سے وہ روحانی بلندیوں پر چڑھتا ہے اور اس سے اس کے صبر کو بھی سہارا ملتا ہے۔ ”قنوت“ کی اصل روح اللہ جل شانہ کے لیے تواضع و تذلل ہے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی بےپایاں نعمتوں کے شعور اور اس کی بےنہایت عظمتوں کے احساس کا قدرتی ثمرہ ہے۔ یہ نعمت کو شکر کا اور مصیبت کو صبر کا ذریعہ بناتی ہے اور ہر حالت میں بندے کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ اصلاً تو یہ عقل و دل کی فروتنی اور انکساری ہے لیکن جس طرح قلب کی ہر حالت کا عکس انسان کے ظاہر پر بھی نمایاں ہوتا ہے اسی طرح اس کا عکس بھی انسان کی وضع قطع، چال ڈھال، گفتار کردار ہر چیز میں نمایاں ہوتا ہے۔ یہ اس غرور اور گھمنڈ کی ضد ہے جو نعمتوں کو اپنے استحقاق ذاتی کا ثمرہ سمجھنے کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس تلون اور بےصبرے پن کے بھی منافی ہے جو صبر و صدق کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔ انفاق کے معنی واضح ہیں۔ یہ مرغوبات دنیا کی اس محبت کی ضد صفت ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا۔ اگر مرغوبات دنیا کی محبت دل پر اس طرح چھا جائے کہ وہ خدا اور بندوں کے حقوق سے انسان کو روک دے تو یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن نے ”زین للناس“ سے تعبیر کیا ہے۔ انفاق کی خصلت اس امر کی شہادت ہے کہ صاحب انفاق کی نظر میں اصلی قدر و قیمت دنیوی خزف ریزوں کی نہیں بلکہ آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی لازوال نعمتوں کی ہے۔ برعکس اس کے جو شخص خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے کہ اس کی نگاہوں میں ساری قدر و قیمت بس اس فانی دنیا کی فانی لذتوں ہی کی ہے، آخرت کی زندگی کا اس کے ذہن میں سرے سے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ”استغفار“ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ سے تضرع وزاری کہ وہ اپنے بندے کی کو تاہیوں، گناہوں اور جرموں پر پردہ ڈالے۔ یہ تضرع اس حیا اور خوف کا نتیجہ ہے جو بندے کے دل میں اپنے پروردگار کے بےپایاں احسانات و انعامات کے احساس اور اس کے عدل و انتقام کے تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ”وقت سحر“ کی قید لگی ہوئی ہے جس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ وقت قبولیت استٖغفار کے لیے سب سے زیادہ موزوں، ریا کی آفتوں سے سب زیادہ محفوظ، دلجمعی اور آیات الٰہی میں تفکر و تدبر کے لیے سب سے زیادہ ساز گار ہے۔ قرآن اور حدیث دونوں ہی میں مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت ہوئی ہے اور یہ رب کریم کا عظیم احسان ہے کہ اس نے استغفار کی ہدایت کے ساتھ ساتھ استغفار کی قبولیت کے لیے سب سے زیادہ سازگار وقت کا بھی خود ہی پتہ دے دیا۔ اس ٹکڑے پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو اس سے جہاں ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کن صفات کے لوگ ہیں جو قرآن کے حامل ہوسکتے ہیں وہیں یہ بات بھی اس سے نکلی کہ وہ موانع کیا ہیں جو قرآن کے ان مخالفین اور قرآن کے درمیان حائل ہیں۔ معلوم ہوا کہ ان میں وہ صبر نہیں ہے جو نفس اور شیطان کی مزاحمتوں کے مقابل میں ان کو پابر جا رکھ سکے، وہ صدق نہیں ہے جو ان کے عقیدہ اور عمل، قول اور فعل، ظاہر اور باطن میں مطابقت پیدا کرسکے، وہ قنوت نہیں جو سب سے بڑے صاحب حق کے آگے ان کی گردن اور ان کے دل دونوں کو جھکا دے، ابدی زندگی کا وہ شوق نہیں ہے جو انہیں آخرت کے لیے دنیا کو قربان کرنے پر ابھار سکے اور خدائے منعم و دیان کی نعمتوں اور نقمتوں کا وہ شعور و احساس نہیں ہے جو انہیں غفلت کے بستروں سے اٹھا کر مناجات سحر کے لیے ان کو ان کے رب کے حضور لا کھڑا کرے۔ اور ساتھ ہی اسلوب بیان نے ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی کردیا کہ آج جن لوگوں نے اس قرآن کو قبول کرلیا ہے اور اس کے پھیلانے میں اللہ کے رسول کا ساتھ دے رہے ہیں وہ ان صفات سے متصف ہیں اور ان سفات سے متصف ہونے ہی کے سبب سے وہ اس بار گراں کے اٹھانے کے اہل بن سکے ہیں۔ آگلی آیات 18 تا 22 کا مضمون : وہی اوپر والا مضمون ایک دوسری شاندار تمہید کے ساتھ ایک دوسرے پہلو سے بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ، اس کے فرشتوں اور علم حقیقی کے تمام حاملین کی شہادت ابتدا سے یہی ہے کہ اللہ واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور وہ عدل و قسط کو قائم کرنے والا اور عزیز و حکیم ہے۔ اس نے بندوں کی ہدایت اور ان کو عدل و قسط پر قائم کرنے کے لیے جو دین عطا فرمایا وہ اسلام ہے، یہی دین اللہ کا حقیقی دین ہے، یہی دین اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے بھیجا لیکن یہود و نصاریٰ نے اپنی باہمی ضدم ضدا کے سبب سے دیدہ و دانستہ اس دین میں اختلافات برپا کیے اور اسلام کے بجائے یہودیت و نصرانیت کے الگ الگ بت کھڑے کرلیے۔ اس کے بعد پیغمبر ﷺ کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر یہود و نصاری تم سے اس دین حقیقی کے باب میں جھگڑنا چاہتے ہیں تو تم ان کی اس مخالفت کو ذرا خاطر میں نہ لاؤ بلکہ صاف صاف اہل کتاب کو بھی اور قریش کو بھی سنا دو کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے تو اسلام کی راہ اختیار کرلی ہے، اب جس کا جی چاہے اپنی گمراہی پر اڑا رہے۔ تمہارے اوپر ذمہ داری صرف اس پیغام کو پہنچا دینے کی ہے، اس کے بعد معاملہ اللہ کے حوالہ کرو۔ وہ سب کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے جس کو جس چیز کا سزا وار پائے گا اس کو وہ دے گا۔ آگے پیغمبر ﷺ ہی کے واسطے سے اہل کتاب کو یہ دھمکی دی ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے ہیں، جنہوں نے اللہ کے نبیوں کا خون ناحق بہایا ہے اور جو دین کے مصلحین و مجددین اور عدل و قسط کے علم برداروں کے درپے آزار و قتل رہے، اب ان کی عدالت کا وقت آگیا ہے، اب وہ خدا کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے، ان کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت جائیں گے اور کوئی ان کا حامی و مددگار نہ بن سکے گا۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top