Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
سو جو تم سے اس بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہارے پاس صحیح علم آچکا ہے تو ان سے کہو کہ آؤ، ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں، تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی عورتوں کو جمع کریں، تم اپنی عورتوں کو جمع کرو، ہم اپنے آپ کو اکٹھا کریں، تم اپنے آپ کو اکٹھا کرو، پھر ہم مل کر دعا کریں اور جھوٹوں پر لعنت بھیجیں۔
”العلم“ کے لفظ پر ہم دوسری جگہ گفتگو کرچکے ہیں کہ قرآن میں اس سے مراد وہ علم حقیقی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی آتا ہے۔ اس کا مقابل لفظ ”ظن“ ہے۔ آیت کے بعض محذوفات : اس آیت میں عربی زبان کے اسلوب کے مطابق بعض چیزیں حذف ہیں۔ اگر محذوفات کو ظاہر کردیا جائے تو پوری بات گویا یوں ہوگی۔ نَدْعُ نحن اَبْنَاۗءَنَا وانتم اَبْنَاۗءَكُمْ ونحضر نحن وَاَنْفُسَنَا وانتم َاَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ نحن وانتم۔ ہم نے اپنے ترجمے میں ان محذوفات کو کھول دیا ہے۔ مباہلہ کا موقع و محل : ”ابتہال“ کے معنی دعا اور تضرع کے ہیں لیکن اس کے اندر ترک کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے اس وجہ سے یہ ایک دوسرے پر لعنت کی بد دعا کے لیے معروف ہے۔ جن معاملات میں بنائے اختلاف کوئی عقلی و استدلالی چیز ہو ان میں تو مسئلے کو طے کرنے کا صحیح طریقہ عقل و استدلال ہی ہے لیکن جہاں عقل و استدلال کے تمام مرحلے طے ہوچکے ہوں، مخاطب دلیل وحجت سے بالکل عاری ہو، حق اس کے سامنے سورج کی طرح روشن ہو، اس کے لیے اس سے گریز و فرار کی کوئی راہ نہ ہو لیکن وہ محض اپنی بات کی پچ اور ہٹ دھرمی کی آن قائم رکھنے کے لیے اپنی بات پر اڑا ہو تو ایسے مواقع کے لیے مباہلہ کا طریقہ آخری چارہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ نصاری نے قرآن کے اس چیلنج کو قبول کرنے کی جرات نہیں کی جس سے یہ بات آخری درجے میں واضح ہوگئی کہ سیدنا مسیح کے بارے میں وہ اپنے موقف کو صحیح نہیں سمجھتے تھے بلکہ محض اپنے گروہی تعصب کے تحت اس کی حمایت کرتے تھے۔ برعکس اس کے آنحضرت ﷺ کی طرف سے یہ کھلا ہوا چیلنج اس بات کا نہایت کھلا ہوا ثبوت ہے کہ آپ کو اپنے موقف کی صحت و صداقت پر پورا پورا یقین تھا۔ مباہلے میں اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال اور اپنے اعزا و متعلقین کی شمولیت اس کی سنجیدگی اور اہمیت کو دو چند بلکہ دہ چند کردیتی ہے اس لیے کہ کوئی شخص جانتے بوجھتے اپنے زن و فرزند اور اپنے محبوں اور محبوبوں پر لعنت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔
Top