Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
پس جب انسان کو کوئی دکھ پہنچتا ہے تو ہم کو پکارتا ہے پھر جب ہم اس پر اپنی طرف سے فضل کردیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مھے میری تدبیر کی بدلوت حاصل ہوا۔ بلکہ یہ ایک آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے
آیت 49 ایک مہلک مغالطہ اس سورة کی آیت 8 کے تحت اس کی وضاحت ہوچکی یہ۔ انسان کی یہ عجیب کمزوری ہے کہ جب اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تب تو وہ خدا سے فریاد کرتا ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت دور کر کے اس کو اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو وہ خدا اور اپنی مصیبت دونوں کو بھول جاتا ہے اور اس نعمت کو یا تو اس کو اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو وہ خدا اور اپنی مصیبت دونوں کو بھول جاتا ہے اور اس نعمت کو یا تو دوسروں کی طرف منسوب کرتا ہے کہ فلاں اور فلاں کی برکت اور بخشش سے یہ چیز مجھے حاصل ہوئی جیسا کہ آیت 8 میں ذکر ہے یا اس کو اپنی تدبیر اور اپنی حکمت و سائنس کا کرشمہ قرار دیتا ہے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے یعنی وہ اس نعمت کا منبع یا تو خدا کے سوا دوسروں کو قرار دیتا ہے یا اپنی ذات کو اور یہ دونوں ہی صورتیں شرک کی ہیں اس لئے کہ بندے کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے خدا ہی سے حاصل ہوتی ہے اور دوسروں کی حیثیت اس میں ایک ذریعہ اور واسطہ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ اس کی سائنس اور قابلیت بھی اللہ ہی کا عطیہ ہے اگر وہ کسی کامیابی کا ذریعہ بنتی ہے تو خدا ہی کی رہنمائی سے بنتی ہے بل ھی فتنہ ولکن اکثرھم لایعلمون یعنی کوئی نعمت بھی کسی کو نہ غیر اللہ سے ملتی اور نہ وہ اس کے علم و قابلیت اور اس کے استحقاق کا نتیجہ ہوتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سیم لتی ہے اور اس کے ذریعے سے وہ بندے کا امحتان کرتا ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر گزار رہتا ہے یا اس کو پاک کر استکبار و طغیان میں مبتلا ہوجاتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت سے نا آشنا ہوتی ہے اور یہ چیز ان کو شرک اور فساد میں مبتلا کردیتی ہے۔ سورة قصص میں ق اورن کا جو کرو اور یان ہوا ہے اس میں یہ حقیقت نہایت واضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ آیت 78-76 ق اور نموسیٰ کی قوم میں سے تھا تو اس نے ان کے مقابل میں سرکشی کی اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دیئے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقتور پارٹی سے اٹھتی تھیں۔ اس وقت کو یاد کرو جب اس کو قوم نے اس سے کہا کہ اترامت، اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جو کچھ خدا نے تجھے دیا ہے اس میں اور آخرت کا طالب بن اور دنیا میں سے اپنا حصہ نو بھول اور اللہ نے جس طرح تم پر احسان فرمایا ہے تم بھی لوگوں پر احسان کرو اور زمین میں فساد کے طالب نہ بنو۔ اللہ فاسد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس نے جواب دیا کہ یہ دولت تو مھے میرے علم کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔ کیا اس کو نہیں معلوم کہ اس سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر چھوڑیں جو قوت میں اس سے بڑھ چڑھ کر اور جمعیت میں اس سے زیادہ تھیں !
Top