Tadabbur-e-Quran - Al-Hujuraat : 10
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۠   ۧ
اِنَّمَا : اسکے سوا نہیں الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) اِخْوَةٌ : بھائی فَاَصْلِحُوْا : پس صلح کرادو بَيْنَ : درمیان اَخَوَيْكُمْ ۚ : اپنے بھائیوں کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
مسلمان باہمدگر بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کر ائو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ تم پر رحم کیا جائے
انما المومنون اخوۃ فاصلحوابین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون 10 یعنی مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ان کے درمیان کسی نزاع کا برپا ہونا ہی اول تو ان کی باہمی اخوت کے مناقی ہے لیکن شیطان کی انگیخت سے کوئی نزاع برپا ہو ہی جائے تو دوسرے مسلمانوں کو ان کے درمیان مصالحت کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ اس آگ کو مزید بھڑکانے کی واتقوا اللہ لعلکم ترحمون یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اگر تمہارے ہاتھوں کوئی ایسا کام ہوا جو بھائیوں اور بھائیوں کے درمیان قتل و خون کا سبب ہوا یا تم محض قومی، قبائلی، علاقائی یا سیاسی مصلحتوں کی خاطر کسی پہلو سے اس خون خرابے میں حصہ لینے والے بنے تو یاد رکھو کہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکو گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق وہی ٹھہریں گے جو اس کی قائم کی ہوئی اس اخوت کو ہمیشہ استوار و پائیدار رکھنے کی کوشش کریں گے نہ خود اس میں کوئی رخنہ پیدا کریں گے نہ اپنے امکان کے حد تک کسی کو اس میں کوئی رخنہ پیدا کرنے کا موقع دیں گے۔ بین اخویکم میں مثنیٰ سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ جنگ دو بھائیوں ہی کے درمیان ہو، بلکہ یہ مثنیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مثنیٰ کا اس طرح اسعتمال عربی میں معروف ہے۔ اس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ -2 قرآن میں جرح و تعدیل کا ماخذ ہمارے محدثین اور فن رجال کے ائمہ نے سورة حجرات کی اسی آیت … ان جآء کم فاسق بنبا فتبینوا … کو ماخذ قرار دیا ہے راویوں پر جرح و تنقید کے حکم کا جس کی بدولت اسماء الرجال کا عظیم الشان فن وجود میں آیا جو ان علوم میں سے ایک ہے جن کے بانی ہونے کا شرف دنیا میں سب سے پہلے مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی فاسق کسی اہم واقعے کی خبر دے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ یہ حکم یوں تو عام ہے، ہر ایسی خبر کی تحقیق ضروری ہے جو دور رس نتائج کی حامل ہو لیکن کوئی شخص رسول اللہ ﷺ سے منسوب کر کے کوئی روایت کرے تو اس کی تحقیق و تنقید بدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔ حضور ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور واجب الاطاعت ہادی ہیں۔ آپ کی ہر بات بلکہ ہر ادا امت کے لئے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر حضور ﷺ کی ذات سے منسوب کر کے کوئی غلط روایت کردی جائے اور وہ تحقیق کے بغیر قوبل کر لیج ائے تو یہ چیز دنیا میں بھی موجب خسران بن سکتی ہے اور آخرت میں بھی۔ آیت میں اگرچہ فاسق ہی کو روایت کی تحقیق کا حکم ہے لیکن اس سے آپ سے آپ یہ بات بھی نکلی کہ اگر کوئی راوی مجہول ہو، نہ اس کا فسق معلوم ہو نہ اس کی ثقاہت تو اس کی تحقیق بھی ضروری ہوگی، کیونکہ ایک مجہوی راوی کی روایت قبول کرلینے میں اندیشہ ہے کہ ممکن ہے راوی فاسق ہو۔ چناچہ محدثین نے مجہول راویوں کی بھی اچھی طرح تحقیق کی تاکہ ان کا فسق یا ان کی عدالت واضح ہوجائے۔ اگر کسی راوی کی تحقیق میں ان کو کامیابی نہیں ہوئ تو اس کو مجہول قرار دے کر اس کی روایت انہوں نے رد کردی۔ آیت سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ یہ تحقیق اسی صورت میں ضروری ہوگی جب فاسق کو ایسی روایت کرے جو دور رس نتائج کی حامل ہو، اس لئے کہ یہاں لفظ نباء وارد ہوا ہے جو کسی اہم اور دور رس نتائج کے حامل خبر ہی کے لئے آتا ہے۔ عام خبر یا واقعہ کے لئے یہ لفظ نہیں آتا۔ چناچہ روزمرہ زندگی کے عام معاملات میں فاسق یا کافر کی خبر مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آیت میں راوی اور روایت دونوں کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے اس لئے کہ فرمایا گیا ہے کہ اے ایمان والو، اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو تحقیق کرلیا کرو۔ ظاہر ہے کہ یہاں تبینوا مفعول راوی بھی ہے اور روایت بھی بلکہ روایت کا مفعول ہوتا زیادہ واضح ہے اس لئے کہ راوی کا فسق تو یہاں معلوم ہی ہے کسی روایت کی تحقیق میں جس طرح راوی کی ثقاہت، عدالت اور فقاہت اہمیت رکھتی ہے اسی طرح خود روایت کے الفاظ، اس کا موقع و محل، دوسری روایات باب کے ساتھ اس کی مخالفت یا موافقت، عقل و نقل کی کسوٹی پر اس کا مرتبہ اور سب سے زیادہ خدا کی کتاب کے ساتھ اس کی ہمہ آہنگی اور اس قبیل کی دوسری چیزیں بھی اس سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر صرف راوی کی تحقیق پر کفایت کر کے یہ چیزیں نظر انداز کردی جائیں تو تحقیق کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ہمارے محدثین زیادہ زور صرف راوی کی تحقیق پر صرف کرتے ہیں، نفس متن پر ان پہلوئوں سے غور کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ حالانکہ ان پہلوئوں سے تحقیق کئے بغیر تحقیق کا حق، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ہرگز ادا نہیں ہوسکتا۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے متن حدیث پر غور کرنے کے لئے اصول وضع کئے اور اس کا نام درایت رکھا۔ اس خدمت خاص میں سب سے بڑا حصہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا ہے۔ یہ خدمت انجام دے کر انہوں نے صرف قہ ہی پر احسان نہیں کیا ہے، بلکہ فن حدیث کی بھی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے، اگر ہمارے علماء ان اصولوں کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی توفیق پاتے تو حدیث کے خلاف وہ فتنہ ہرگز نہ اٹھ سکتا جو فتنہ پردازوں نے اٹھا دیا اور جس نے گمراہ فرقوں کے لئے دین میں دراندازی کی بہت سی راہیں کھول دیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے تدبر، حدیث، پر اپنی پیش نظر کتاب لکھنے کی توفیق اور مہلت بخشی تو اس کے مقدمہ میں انشاء اللہ ان اصولوں کی قدر و قیمت میں واضح کروں گا۔ اوپر کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہمارے محدثین کرام نے فاسق اور مجہول راویوں کی جو پردہ دری کی ہے وہ قرآن کے اسی واضح اور قطعی حکم کی تعمیل میں کی ہے لیکن اس زمانے میں بعض خوش فہم حضرات نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ راویوں کے عیوب کھولنا ہے تو غیبت جس کو قرآن نے اسی سورة کی آیت 12 میں حرام قرار دیا اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر فرمایا ہے لیکن محدثین نے حکمت عملی کے تحت اس حرام کو جائز بنایا تکہ فاسق راویوں کی روایات سے دین کو بچائیں۔ پھر اس نکتہ سے ان حضرات نے ایک اور اس سے بھی زیادہ عمیق و دقیق نکتہ پیدا کرل یا کہ شریعت کی تمام حرمتیں ابدی نہیں ہیں اس وجہ سے ایک قائد تحریک اسلامی، کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکمت عملی کے تقاضوں کے تحت جب ضرورت محسوس کرے کسی حرمت کو حلت سے بدل دیا کرے۔ ان نکات پر اپنے ناچیز خیالات ہم اپنے مقالات میں ظاہر کرچکے ہیں۔ یہاں ان پر تنقید کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ بس اتنی بات یاد رکھیے کہ جب قرآن نے فاسق اور مجہول راویوں کی پردہ دری اور ان کی روایات کی تحقیق کا حکم خود اس صراحت کے ساتھ دیا ہے تو محدثین اس خدمت کے لئے غیبت جیسی ناپاک چیز کو حکمت عملی کے تحت جائز بنانے کی زحمت کیوں اٹھاتے۔ یہ بات بھی یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ راویوں پر جرح کو غیبت قرار دینے کا سہرا ہمارے ارباب تصوف کے سر ہے۔ تصوف کی ساری عمارت، چونکہ ضعیف اور بےبنیاد روایات ہی پر قائم ہے، اس وجہ سے جب محدثین نے راویوں کی چھان بین کا کام شروع کیا تو ان حضرات کو محسوس ہوا کہ اگر محدثین اسی بےخوفی کے ساتھ یہ کام کرتے رہے تو تصوف کی پوری عمارت زمین پر آ رہے گی۔ اس خطرے سے تصوف کو بچانے کے لئے ان حضرات نے یہ نکتہ نکالا کہ یہ محدث حضرات تو لوگوں کی غیبت کرتے پھرتے ہیں۔ صوفیوں کا یہ نکتہ ان کے اپنے حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ ان کے اسی نکتہ کو ہمارے اس دور کے بعض ذہنوں نے اپنی حکمت عملی کے لئے اپنا لیا اور اس کے بل پر ایک ایسا اصول وضع کردیا جو سارے دین ہی کا تیاپانچا کر کے رکھ دے۔ آخر میں اس آیت سے متعلق ایک بات اور یاد رکھیے۔ بعض محدثین اور فقہاء فاسق کی روایت قبول کرنے کے باب میں اس کے فسق عملی کو تواہمیت دیتے ہیں لیکن اس کے عقائدی فسق کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ کوئی شخص اگر کسی عملی فسق مثلاً جھوٹ اور بدکرداری وغیرہ میں مبتلا ہو تو اس کی روایت یا شہادت تو بیشک قبول نہیں کی جائے گی، لیکن اگر وہ صرف کسی فاسقانہ عقیدہ میں مبتلا ہے تو مجرد اس کے فساد عقیدہ کی بننا پر اس کی روایت یا شہادت رد نہیں کی جائے گی۔ ہمارے نزدیک یہر ائے بالکل غلط ہے۔ تجربہ گواہ ہے کہ جتنی جھوٹی روایتیں فساد عقیدہ میں مبتلا راویوں نے گھڑی ہیں اتنی فساد عمل میں مبتلا راویوں نے نہیں گھڑی ہیں۔ یہ انہی کی گھڑی ہوئی روایتیں ہیں جو سیرت، تفسیر، تصوف اور تاریخ کی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں اور جن سے اہل بدعت و ضلالت نے اپنی دکانیں سجائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان علماء پر رحم فرمائے جنہوں نے فاسد العقیدہ راویوں کو یہ چھوٹ دے کر ملت کو ایک ایسے فتنہ سے دوچار کردیا جس سے اہل حق کے لئے عہدہ برآ ہونا نہایت دشوار کام ہوگیا ہے۔ ہمارے نزدیک فسق عملی و فسق عقائدی کی یہ تقسیم بےمعنی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کے حق میں کوئی دلیل موجود نہیں۔ اوپر جو کلیہ عام فاسقوں کے بارے میں بیان ہوا ہے وہی فاسد العقیدہ راویوں کے بارے میں بھی عقل و نقل کے موافق ہے یعنی ان کی روایت اور شہادت ان امور میں تو قبول کی جائے گی جن میں ایک کافر کی روایت بھی قبول کی جاسکتی ہے، لیکن اہم امور بالخصوص معاملات دین میں ان کی روایت یا شہادت قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Top