Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 26
كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍۚۖ
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا : سب کے سب جو اس پر ہیں فَانٍ : فنا ہونے والے ہیں
روئے زمین پر جو بھی ہیں سب فانی ہیں
(کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذعا الجلل والاکرام فبای الاء ربکما تکذبین) (26۔ 28)۔ (مذکورہ بالا دلائل کا لازمی نتیجہ)۔ ضمیر مجرور کا مرجع الارض (زمین) ہے اس کا ذکراوپر آیت 10 سے چلا آ رہا ہے۔ زمین کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسان کی پرورش کا جو سامان کیا ہے، اس کی خلقت میں اپنی شانیں اور حکمتیں دکھائی ہیں، اس کے ہر گوشے پر جس طرح اس کا اقتدار محیط ہے اور اس کے اضداد کے باہمی توافق سے جس طرح اس کے خالق کی یکتائی نمایاں ہو رہی ہے، یہ باتیں مستلزم ہیں کہ ایک دن یہ ساری چیزیں فنا ہوجائیں گی، صرف اللہ تعالیٰ کی با عظمت اور سزا وار تعظیم ذات ہی باقی رہ جائے گی، جس کے حضور سب کی پیشی ہونی ہے اور وہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ سزا وار ہوگا، کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ اس کے آگے دم مار سکے یا اس کے اذان کے بغیر کسی سفارش کے لیے زبان کھول سکے۔ (ذی الجلل والاکرام) کے الفاظ اس سورة کی آخری آیت میں بھی آئے ہیں۔ مقصود ان دونوں لفظوں کے لانے سے یہ ہے کہ در حقیقت وہی اپنی ذات میں با عظمت ہے اس وجہ سے وہی سب کی تعظیم و تکریم کا حقیقی سزا وار ہے۔ کوئی اور ان اوصاف میں اس کا شریک نہیں ہے۔ لفظ ’ وجہ ‘ یہاں اس کی ذات کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ چہرہ ذات کا سب سے اشرف حصہ ہے اس وجہ سے بعض اوقات اس سے پوری ذات کو تعبیر کردیتے ہیں۔ آخر میں آیت ترجیح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تم پیغمبر کے انداز کو سنو یا نہ سنو لیکن بالآخر یہ بات ہو کے رہے گی کہ ایک دن سب فنا ہوجائیں گے، صرف اللہ جل شانہٗ کی ذات ہی باقی رہے گی تو تم اپنے رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلائو گے !
Top