Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 12
مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍۙ
مَّنَّاعٍ : بہت روکنے والا لِّلْخَيْرِ : بھلائی کا مُعْتَدٍ : حد سے بڑھنے والا اَثِيْمٍ : گناہ گار
خیر سے روکنے والے، حد سے تجاوز کرنے والے ،
مناع، معتدی اور اثیم: اوپر کی آیات سے واضح ہوا کہ ان کی قیادت کی پوری عمارت جھوٹ، دوسروں کی تحقیر و توہین اور چغلی و نمامی پر قائم ہے۔ اب یہ واضح فرمایا جا رہا ہے کہ یہ نیکی کے کٹر دشمن، اللہ کے حدود کو توڑنے والے، بندوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور ان کو دبا بیٹھنے والے ہیں۔ ’مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ‘ یوں تو عام ہے کہ وہ ہر نیکی اور بھلائی کی راہ میں ایک بھاری پتھر ہیں لیکن یہاں خاص اشارہ ان کی بخالت کی طرف ہے کہ وہ غرباء و مساکین کی امداد میں نہ خود کوڑی خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتے اور نہ دوسروں کو خرچ کرتے دیکھ سکتے بلکہ چاہتے ہیں کہ دوسرے بھی انہی کی طرح مارگنج بنے بیٹھے رہیں تاکہ ان کی بخالت پر پردہ پڑا رہے۔ قرآن مجید میں مختلف اسلوبوں سے بخیلوں کے کردار کا یہ پہلو واضح فرمایا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بخالت کی راہ سجھاتے ہیں تاکہ خود ان کی بخالت کا راز فاش نہ ہو۔ ’مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ‘ یعنی صرف یہی نہیں کہ نہ خود خرچ کرتے نہ خرچ کرنے دیتے بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر تعدی کرنے والے بھی ہیں اور جو حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں ان کو دبا بیٹھنے والے بھی۔ ان دونوں لفظوں کی تحقیق اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ ’اعتداء‘ میں دوسروں کے حقوق پر دست درازی کا مفہوم پایا جاتا ہے اور ’اِثم‘ میں حق تلفی کا۔
Top