Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 11
هَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیْمٍۙ
هَمَّازٍ : عیب جوئی کرنے والا مَّشَّآءٍۢ : چلنے والا بِنَمِيْمٍ : ساتھ چغل خوری کے
ذلیل اشارہ بازلترے ،
’ھَمَّازٌ‘ ’ھمز‘ سے مبالغہ ہے جس کے معنی اشارہ باز کے ہیں۔ اشارہ بازی اور پھبتی اس قسم کے لوگوں کا خاص شیوہ ہوتا ہے جو کسی کو دوسروں کی نگاہوں سے گرانے کے درپے ہوں۔ یہ اشارہ بازی حرکات اور چشم و ابرو سے بھی ہوتی ہے، الفاظ اور فقروں سے بھی۔ نبی ﷺ اور غریب مسلمانوں کو قریش کے مستکبرین جس قسم کے اشاروں اور فقروں کا ہدف بناتے تھے اس کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں اوران کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ ’وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ‘ (اللھمزۃ ۱۰۴: ۱) میں اسی کردار کی طرف اشارہ ہے۔ مستکبرین کے پاس دلیل کی قوت نہیں ہوتی اس وجہ سے وہ اسی اوچھے ہتھیار سے حق کو شکست دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس قسم کے تیر تُکے حقیقت کی شمشیر بُرّاں کے مقابل میں کیا کام آ سکتے ہیں! ’مَّشَّآءٍم بِنَمِیْمٍ‘۔ ’نمیمۃ‘ اور ’نمیم‘ کے معنی چغلی اور لگانے بجھانے کے ہیں۔ یہ اشارہ ان مفسرین کے جوڑ توڑ کی خصلت کی طرف ہے کہ یہ رات دن جوڑ توڑ میں سرگرم رہتے ہیں اور اس کے ذریعے چغلی کو ذریعہ بناتے ہیں۔ جس کو بھی دوسرے سے کاٹنا اور اپنے سے ملانا چاہا تو اس کے لیے سب سے بڑا حربہ ان کے پاس یہی ہوتا ہے۔ اسی نسخہ سے وہ اسلام کی مخالفت کا کام بھی لے رہے تھے۔ ان کی رات دن یہی کوشش تھی کہ مختلف قسم کی بے بنیاد غلط فہمیاں مسلمانوں میں پھیلا کر ان کے درمیان پھوٹ ڈلوائیں تاکہ اسلام نے ان کے اندر جو اخوت و مودت پیدا کی ہے وہ مستحکم نہ ہونے پائے اور آنحضرت ﷺ سے لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہو۔
Top