Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 13
عُتُلٍّۭ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِیْمٍۙ
عُتُلٍّۢ : بدمزاج بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد زَنِيْمٍ : بداصل بھی ہے
حق مارنے والے، سنگدل مزید برآں بےنسب کی۔
’عُتُلٍّ‘ کے معنی سخت دل اور بے مروت کے ہیں۔ جو شخص بخیل ہو گا وہ لازماً سنگ دل بھی ہو گا۔ یہ گویا اوپر کے بیان کردہ کردار کا باطنی پہلو ہے۔ انہی لوگوں کے باب میں ارشاد ہوا ہے: ’اَرَءَ یْتَ الَّذِیْ یُکَذِّبُ بِالدِّیْنِ فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ‘ (الماعون ۱۰۷: ۱-۲) (ذرا دیکھو تو اس کو جو جزاء کو جھٹلاتا ہے۔ وہی ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے)۔ ’زنیم‘: ’بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ‘۔ ’زنیم‘ کی وضاحت اہل لغت نے یوں کی ہے: ’الملحق یقوم لیس منھم ولا یحتاجون الیہ‘ (وہ شخص جو کسی قوم کے نسب میں شریک بن بیٹھے درآنحالیکہ نہ وہ ان میں سے ہو اور نہ اہل قوم اس کی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہوں) یہ لفظ ’زنمۃ‘ سے نکلا ہے۔ ’زنمۃ‘ اس غدود کو کہتے ہیں جو بعض بکریوں کی گردن میں لٹک آتا ہے اور جس کی حیثیت جسم میں ایک بالکل فالتو عضو کی ہوتی ہے۔ روایات میں اخنس بن شریق کے متعلق آیا ہے کہ اصلاً وہ ثقیف میں سے تھا لیکن مدعی تھا کہ وہ زہرہ میں سے ہے۔ اسی طرح ولید بن مغیرہ کے متعلق بھی مشہور ہے کہ وہ قریشی ہونے کا مدعی تھا حالانکہ وہ قریش میں سے نہ تھا۔ جو لوگ اپنے نسب کو حقیر سمجھ کر دوسروں کے نسب میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں وہ شیخی باز قسم کے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کا زیادہ اعتماد تملق، چاپلوسی اور قومی حمیت و حمایت کی جھوٹی نمائش پر ہوتا ہے تاکہ قوم کے اندر ان کا بھرم قائم رہے۔ چنانچہ اس طرح کے کھوٹے قرشی آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں خاص طور پر پیش پیش تھے۔ وہ اپنی قوم پرستی کا مظاہرہ کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کے خلاف لوگوں کو اکساتے کہ آپ کی دعوت سے قریش کی وحدت و جمعیت میں انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ انہی شیخی بازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ اور رذالتیں ان کے اندر جو تھیں وہ تو تھیں ہی مزید برآں یہ بھی ہے کہ ان میں کچھ طفیلی بھی ہیں جو اہل قوم سے بھی زیادہ قوم کے وفادار ہونے کے مدعی اور اس کی جاہلی روایات کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی یہ کڑوے کریلے تو تھے ہی ستم بالائے ستم یہ ہوا ہے کہ یہ نیم چڑھے بھی ہیں۔ قرآن نے یہ ضرب اس کردار پر لگائی ہے جو اس قسم کے لوگوں کے اندر لازماً پیدا ہو جاتا ہے جو احساس کہتری کے مریض اور خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔
Top