Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 121
قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
قَالُوْٓا : وہ بولے اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِرَبِّ : رب پر الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان (جمع)
بولے ہم عالم کے خداوند پر ایمان لائے
قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ ساحروں نے حضرت موسیٰ کی تعظیم ہی پر بس نہیں کیا بلکہ صاف صاف اپنے ایمان کا اعلان بھی کردیا اور وہ بھی اس تصریح کے ساتھ کہ ہم عالم کے رب، موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے۔ جس کے صاف معنی یہ بھی تھے کہ انہیں فرعون کی خدائی سے انکار ہے۔ کون اندازہ کرسکتا ہے کہ اس اعلان کا سارے مجمع پر کیا اثر پڑا ہوگا اور فرعون اور اس کے درباریوں کی کیسی رسوائی ہوئی ہوگی ! ساحروں کے اندر حق پسندی کی رمق موجود تھی : یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہرچند یہ لوگ جادوگر تھے اور ان کے اندر اس پیشہ کی بعض خصوصیات بھی، جیسا کہ اوپر معلوم ہوا، پیدا ہوگئی تھیں تاہم حق پسندی کی کچھ رمق ان کے اندر موجود تھی۔ چناچہ سورة طہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقابلہ کے لیے وہ خوش دلی سے نہیں آئے تھے بلکہ مجبور کر کے لائے گئے تھے۔ خود ان کا قول نقل ہوا ہے کہ انا امنا بربنا لیغفرلنا خطایانا وما اکرھتنا علیہ من السحر (ہم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطاؤں اور اس سحر کو معاف کرے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا)۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پہلے ہی سے اندازہ رکھتے ہوں کہ حضرت موسیٰ کوئی ساحر نہیں ہیں اور نہ انہوں نے جو چیز پیش کی ہے وہ سحر ہے۔ اس وجہ سے وہ ان کے مقابلہ سے گریز کرنا چاہتے رہے ہوں لیکن فرعون اور اس کے کارندوں کے ڈر سے انہیں مجبوراً یہ کام کرنا پڑا ہو۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے حق پسندی کی ایک روشنی دبی دبائی موجود تھی جو حضرت موسیٰ کے اس معجزے کی جلالت سے بھڑک اٹھی۔ سعادت کا کوئی شمہ بھی انسان کے اندر موجود ہو تو بتوفیق الٰہی وہ اپنا اثر دکھا ہی جاتا ہے۔
Top