Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 195
اَلَهُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِهَاۤ١٘ اَمْ لَهُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِهَاۤ١٘ اَمْ لَهُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِهَاۤ١٘ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِیْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ
اَلَهُمْ : کیا ان کے اَرْجُلٌ : پاؤں (جمع) يَّمْشُوْنَ : وہ چلتے ہیں بِهَآ : ان سے اَمْ : یا لَهُمْ : ان کے اَيْدٍ : ہاتھ يَّبْطِشُوْنَ : وہ پکڑتے ہیں بِهَآ : ان سے اَمْ : یا لَهُمْ : ان کی اَعْيُنٌ : آنکھیں يُّبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہیں بِهَآ : ان سے اَمْ لَهُمْ : یا ان کے اٰذَانٌ : کان ہیں يَّسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں بِهَا : ان سے قُلِ : کہ دیں ادْعُوْا : پکارو شُرَكَآءَكُمْ : اپنے شریک ثُمَّ : پھر كِيْدُوْنِ : مجھ پر داؤ چلو فَلَا تُنْظِرُوْنِ : پس نہ دو مجھے مہلت
کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں، کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں، کیا ان کے آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں، کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں ؟ کہہ دو ، تم اپنے شریکوں کو بلاؤ، میرے خلاف چالیں چل دیکھو اور مجھے مہلت نہ دو
اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَآ ۡ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا ۭقُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ۔ بت پرستی کی تردید اس کے ظاہری اور باطنی، دونوں پہلوؤوں سے : بت پرستی دو جزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک تو وہ ذوات ہیں جن کو بت پرست اپنے زعم کے مطابق، خدائی میں شریک مانتے اور ان کو الہ قرار دیتے ہیں۔ دوسرے وہ پتھر اور سونے یا چاندی کی مورتیں ہیں جن کو وہ ان ذوات کے پیکر اور قالب کی حیثیت سے ڈھالتے یا تراشتے ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں ان مظاہر کے اندر ان کے مزعوم دیوتا حلول کر جاتے ہیں اور ان مظاہر کی پرستش ان آلہہ کی پرستش کا واسطہ اور ذریعہ ہے۔ نظریہ کے اعتبار سے تو بت پرستی کے حامی اس کی حمایت میں یہی بات کہتے ہیں لیکن عملاً ہوتا ہے یہ کہ عوام کالانعام سب کچھ ان مورتوں ہی کو سمجھتے ہیں جن کے آگے وہ ڈنڈوت کرتے اور نذر و قربانی پیش کرتے ہیں۔ قرآن نے یہاں بت پرستی کی اس کے دونوں ہی پہلو سامنے رکھ کر تردید کی ہے۔ اوپر کی آیات میں ذوات کو پیش نظر رکھ کر تردید فرمائی اب یہ ان کے مظاہر کو پیش نظر رکھ کر اس کی تردید ہو رہی ہے کہ دیکھ لو ان کے جو ہاتھ پاؤں، کان، آنکھ تم نے بنائے ہیں سب نمائشی اور دکھاوے کے ہیں، یہ اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں ہٹا سکتے اور اپنے سامنے رکھے ہوئے دودھ اور حلوے کی بھی کتوں اور بلیوں سے حفاظت نہیں کرسکتے تو یہ بھلا تمہاری کیا مدد کرسکیں گے جو تم نے ان کو اپنا ملجا و ماوی اور ولی و کارساز بنایا ہے۔ بعینہ یہی حقیقت زبور میں بدیں الفاط واضح فرمائی گئی ہے “ ان کے بت چاندی اور سونا ہیں یعنی آدمی کی دست کاری ان کے منہ ہیں، پر وہ بولتے نہیں آنکھیں ہیں، پر وہ دیکھتے نہیں ان کے کان ہیں، پر وہ سنتے نہیں۔ ناک ہیں، پر وہ سونگھتے نہیں۔ ان کے ہاتھ ہیں پر وہ چھوتے نہیں۔ پاؤں ہیں، پر وہ چلتے نہیں اور ان کے گلے سے آواز نہیں نکلتی۔ ان کے بنانے والے انہیں کے مانند ہوجائیں گے بلکہ وہ سب جو ان پر بھروسہ رکھتے ہیں ”(زبور باب 115: 3۔ 8)rnۭقُلِ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ۔ یہ مشرکین کی دھمکیوں کا جواب ہے کہ تم ان بےجان اور بےحرکت موتوں سے مجھے ڈراتے ہو کہ ان کی مذمت و مخالفت کے نتیجہ میں ان کا غضب مجھ پر بھڑکے گا۔ اگر تم یہ گمان رکھتے ہو تو تم اپنے ان سب دیویوں دیوتاؤں کو اپنی مدد کے لیے پکارو اور میر؁ خلاف جو تدبیر کرسکتے ہو کر گزرو، ذرا بھی رعایت نہ برتو اور ایک دن کے لیے بھی مجھے مہلت نہ دو۔
Top