Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 48
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِیْمٰىهُمْ قَالُوْا مَاۤ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَ مَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ : والے الْاَعْرَافِ : اعراف رِجَالًا : کچھ آدمی يَّعْرِفُوْنَهُمْ : وہ انہیں پہچان لیں گے بِسِيْمٰىهُمْ : ان کی پیشانی سے قَالُوْا : وہ کہیں گے مَآ اَغْنٰى : نہ فائدہ دیا عَنْكُمْ : تمہیں جَمْعُكُمْ : تمہارا جتھا وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ : تم تکبر کرتے تھے
اور برجیوں والے کچھ اشخاص کو جن کو وہ ان کی علامت سے پہچانتے ہوں گے، آواز دیں گے، کہیں گے، کیا کام آئی تمہارے تمہاری جمعیت اور تمہارا وہ سارا گھمنڈ جو تم کرتے تھے !
وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ اصحاب الاعراف کا خطاب کفار کے لیڈروں سے : اصحاب اعراف کا یہ خطاب الفاظ سے واضح ہے کہ اہل دوزخ کے لیڈروں سے ہوگا اس لیے کہ اپنی جمعیت پر ناز اور اپنے مال و جاہ پر غرہ انہی کو تھا۔ دوخ میں یہ لوگ اپنے نمایاں نشان سے ممتاز ہوں گے اس وجہ سے اہل اعراف پہچان جائیں گے کہ یہ ابولہب ہے، ایہ ابوجہل، یہ فلاں اور یہ فلاں، ان کو مخاطب کر کے اہل اعراف ان سے یہ سوال بطور تفضیح کریں گے۔ ہر دور کے ائمہ کفر کا اپنے مال و اسباب اور اپنی تعداد و جمعیت پر غرہ قرآن میں تفصیل سے مذکور ہے۔ ہم نے یہاں ‘ ما ’ کو سوالیہ مفہوم میں لیا ہے۔ اس میں زور بھی زیادہ ہے اور قرآن کے نظائر سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ پھر بعد کا جملہ، جو اس سے متعلق ہے، واضح طور پر سوالیہ ہے بھی۔ اگر اس کو بعد والے جملے سے الگ مفہوم میں لیں گے تو کلام میں ہم آہنگی باقی نہیں رہے گی۔
Top