Tadabbur-e-Quran - An-Naba : 8
وَّ خَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًاۙ
وَّخَلَقْنٰكُمْ : اور پیدا کیا ہم نے تم کو اَزْوَاجًا : جوڑوں کی شکل میں
تم کو جوڑے جوڑے نہیں پیدا کیا ؟
’وَّخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا‘۔ اگرچہ اسلوب کلام باعتبار الفاط خبریہ ہو گیا ہے لیکن معناً یہ ’اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا‘ ہی پر معطوف ہے۔ اس کی وضاحت اوپر آیات ۱-۲ کے تحت ہو چکی ہے۔ یہ اشارہ ہے اس سب سے بڑے سامان تسلی کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں آدمی کے لیے مہیا کیا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے تمہیں تنہا نہیں پیدا کیا بلکہ تمہارے ساتھ تمہاری ہی جنس سے تمہارا جوڑا بھی بنایا تاکہ وہ تمہارے لیے طمانیت اور سکینت کا ذریعہ بنے۔ یہ امر واضح رہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑا جوڑا بنائی ہے اور یہ جوڑے آپس میں ایسی گہری وابستگی رکھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی تنہا اپنے مقصد تخلیق کو پورا نہیں کر سکتا۔ ان میں بظاہر تو نسبت ضدین کی ہے لیکن قدرت نے ان کے اندر ایسے ظاہری و باطنی داعیات رکھے ہیں کہ وہ باہم مل کر رہنے ہی میں سکون و راحت پاتے اور ایک برتر مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ یہ خصوصیت جس طرح اس دنیا کے تمام اضداد میں ہے اسی طرح میاں اور بیوی کے درمیان بھی ہے۔ اس چیز کی طرف قرآن نے سورۂ روم (۳۰) آیت ۲۱ میں یوں اشارہ فرمایا ہے: ’اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً‘ (اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان اس نے محبت اور غم گساری رکھی)۔ اضداد کے اندر اس توافق و سازگاری کو قرآن نے توحید اور قیامت کی دلیل کی حیثیت سے جگہ جگہ پیش کیا ہے جس کی وضاحت ہم برابر کرتے آ رہے ہیں۔
Top