Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 41
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور تم جان لو
اَنَّمَا
: جو کچھ
غَنِمْتُمْ
: تم غنیمت لو
مِّنْ
: سے
شَيْءٍ
: کسی چیز
فَاَنَّ
: سو
لِلّٰهِ
: اللہ کے واسطے
خُمُسَهٗ
: اس کا پانچوا حصہ
وَلِلرَّسُوْلِ
: اور رسول کے لیے
وَ
: اور
لِذِي الْقُرْبٰي
: قرابت داروں کے لیے
وَالْيَتٰمٰي
: اور یتیموں
وَالْمَسٰكِيْنِ
: اور مسکینوں
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافروں
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
اٰمَنْتُمْ
: ایمان رکھتے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَمَآ
: اور جو
اَنْزَلْنَا
: ہم نے نازل کیا
عَلٰي
: پر
عَبْدِنَا
: اپنا بندہ
يَوْمَ الْفُرْقَانِ
: فیصلہ کے دن
يَوْمَ
: جس دن
الْتَقَى الْجَمْعٰنِ
: دونوں فوجیں بھڑ گئیں
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلٰي
: پر
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
قَدِيْرٌ
: قدرت والا ہے
اور جان رکھو کہ جو کچھ تم غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری فیصلہ کے دن، جس دن دونوں جماعتوں میں مڈبھیڑ ہوئی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
آیات 41۔ 49 کا مضمون : یاد ہوگا اس سورة کا آغاز اموال غنیمت سے متعلق لوگوں کے سوال سے ہوا تھا۔ وہاں سوال کا ایک اصولی جواب دے کر کلام کا رخ مسلمانوں کے ایک گروہ کی ان کمزوریوں کی اصلاح کی طرف مڑ گیا تھا جو اس سوال اور اسی نوعیت کے بعض دوسرے معاملات کی وجہ سے سامنے آئی تھیں۔ اب سوال کے تعلق سے اموالِ غنیمت کی تقسیم کا ضابطہ بیان فرمایا اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ اللہ کی اس تقسیم کو راضی خوشی قبول کرو اس لیے کہ جو کچھ تمہیں حاصل ہوا خدا کی تدبیر اور کارسازی سے حاصل ہوا اور آئندہ جو کچھ حاصل ہوگا اسی کی تدبیر و کارسازی سے حاصل ہوگا۔ یہ نہ خیال کرو کہ یہ سب کچھ تمہاری کار فرمائی ہوتی ہے بلکہ اصل چیز خدا کی تدبیر ہے جس کو وہ تمہارے واسطہ سے بروئے کار لاتا ہے۔ اس کے بعد آئندہ پیش آنے والی جنگوں سے متعلق کچھ ہدایات دی ہیں جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھی ناگزیر ہیں اور جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کرنے والوں کو دوسرے جنگ آزماؤں سے ممتاز بھی کرتی ہیں۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے اور اس امر کو برابر ملحوظ رکھیے کہ اس پوری سورة میں خطاب اگرچہ بظاہر الفاظ عام ہے لیکن روئے سخن مسلمانوں کے اس گروہ کی طرف خاص طور سے ہے جو ابھی اچھی طرح پختہ نہیں ہوا تھا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ۔ اِعلموا کا محل : اعلموا کا لفظ یہاں جس سیاق میں ہے اس سے اس حکم کی قطعیت اور عظمت واضح ہو رہی ہے جو یہاں بیان ہوا ہے۔ چونکہ اموالِ غنیمت سے متعلق، جیسا کہ سورة کے شروع میں معلوم ہوچکا ہے، کچھ لوگوں نے ناروا قسم کے سوال اٹھا دیے تھے اس وجہ سے پہلے تو ان کی کمزوریوں پر تفصیل سے تبصرہ کیا، پھر جب ان کے سوال کا جواب دیا تو اس کا آغاز ایک تنبیہی کلمہ سے فرمایا کہ لوگ گوش ہوش سے سنیں اور بادشاہ کائنات کے فرمان کی حیثیت سے بےچون و چرا اور بلا اختلاف و نزاع اس کی تعمیل کریں۔ اموال غنیمت کی حیثیت : غنم الشیء کے معنی ہیں فاز بہ و نالہ بلا بدل، فلاں چیز بلا کسی عوض کے حاصل کرلی۔ اسی سے غنیمت ہے جس سے مراد وہ مال و اسباب ہوتا ہے جو میدان جنگ میں کفار سے مسلمان مجاہدین کو حاصل ہوتا ہے۔ میدان جنگ میں حاصل شدہ مال و اسباب ککو نفل یا غنیمت کے الفاظ سے تعبیر کر کے قرآن نے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ یہ جہاد و قتال کا کوئی معاوضہ نہیں ہے بلکہ ایک ضمنی اور زائد فائدہ ہے جو ایک مجاہد کو حاصل ہوتا ہے۔ مجاہد، اللہ کی راہ میں جو جہاد کرتا ہے وہ ایک فرض ادا کرتا ہے اور اس کا اجر اس کو اللہ کے ہاں ملتا ہے جو اس کی ابدی زندگی کے لیے محفوظ ہوگیا۔ رہی یہ چیزیں جو اسے سر را ہے حاصل ہوجاتی ہے تو یہ زوائد ہیں۔ حاصل ہوجائیں تو غنیمت، نہ حاصل ہوں تو نہ ان کی طمع کرے نہ غم۔ قرآن نے یہ تصور دے کر اس جاہلی تصور کی اصلاح کی ہے جس میں اہل عرب اب تک مبتلا رہے تھے کہ وہ جنگ کا اصلی حاصل لوٹ کے مال کو سمجھتے تھے اور اسی چیز سے وہ اس کے نفع و نقصان کا اندازہ لگاتے تھے۔ اس تصور کا کچھ اثر مسلمانوں کے ایک گروہ کے اندر بھی باقی تھا جو بدر کے موقع پر ظاہر ہوا اور قرآن نے اس کی اصلاح فرمائی۔ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۔ یہ اس مجمل جواب کی تفصیل ہے جو آیت 1 میں قل الانفال للہ والرسول کے الفاظ سے دیا گیا ہے۔ وہاں ہم اشارہ کر آئے ہیں کہ یہ اجمالی جواب دے کر کہ اموال غنیمت کی حیثیت انفرادی ملکیت کی نہیں ہے، جیسا کہ جاہلیت میں دستور رہا ہے بلکہ اجتماعی ملکیت کی ہے، کلام کا رخ اس ذہنیت کی اصلاح کی طرف مڑ گیا تھا۔ جس کا اظہار مسلمانوں کے ایک مخصوص گروہ کی طرف سے ہوا تھا۔ اب یہ اس اجتماعی ملکیت کی تقسیم کا طریقہ بیان فرما دیا۔ اموال غنیمت کی تقسیم : فرمایا کہ اس کا پانچوں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ یعنی جاہلیت کا یہ دستور کہ جو شخص جو مال و اسباب لوٹے وہ اس کا ہے، ختم ہوا۔ اب سارا مال غنیمت اکٹھا کیا جائے گا اور اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کا حق نکال کر بقیہ مال مجاہدین میں تقسیم ہوگا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سرداران قبائل لوٹے ہوئے مال میں سے چوتھا لیتے تھے جس کو مرباع کہتے تھے، اور یہ مال ان کے ذاتی تصرف میں آتا تھا۔ اسلام نے مال غنیمت میں سے اللہ و رسول کا حق صرف پانچواں حصہ رکھا اور یہ بھی، جیسا کہ آگے آرہا ہے، تمام تر معاشرہ کی اجتماعی بہبود کے کاموں کے یے معاشرہ کو لوٹا دیا۔ اللہ کا حق اور اس کا مصرف : اس پانچویں حصہ کے مصارف کی تفصیل میں سب سے پہلے اللہ کا حق بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے کہ ہر چیز سے بےنیاز اور غنی ہے۔ اس کے حق کا اصلی مصرف وہ کام ہوں جو اعلائے کلمۃ اللہ، اقامت دین اور حفاظت و مدافعت ملت کی نوعیت کے ہوں گے۔ زمانہ اور حالات کی تبدیلی سے ان کی شکلیں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن ہر شکل میں اعلائے کلمۃ اللہ کے نصب العین کو مد نظر رکھنا لازمی ہوگا۔۔ رسول کا حق اور اس کی نوعیت : دوسرا حق رسول کا بتایا گیا ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات بار بار آتی ہے کہ رسول کا یہ حق بحیثیت رسول کے نہیں بلکہ اسلامی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے جب کہ آپ کے مبارک اوقات کا لمحہ لمحہ اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں صرف ہو رہا تھا یہ ضروری ہوا کہ اس مال میں آپ کا حق بھی رکھا جائے۔ یہ حق درحقیقت ریاست کے سربراہ کا حق تھا جو حضور کے وصال کے بعد آپ سے آپ حضور کے خلیفہ اور جانشین کی طرف منتقل ہوگیا۔ ذوی القربی کا حق اور اس کی نوعیت : تیسرا حق ذوی القربی کا بیان ہوا ہے۔ ذوی القربی سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے قرابت دار مراد ہیں اور قرابت دار بھی ظاہر ہے کہ وہ قرابت دار ہوں گے جن کی کفالت کی رسول اللہ ﷺ پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ عام اس سے کہ یہ ذمہ داری عرفی و شرعی نوعیت کی ہو یا اخلاقی نوعیت کی جو ہر کریم النفس سربراہ خاندان پر خاندان کے غریبوں، محتاجوں اور معذوروں کے متعلق اخلاقاً عائد ہوتی ہے۔ یہ بات اس وسعت و عمومیت سے نکلتی ہے جو ذوی القربی کے لفظ میں ہے اور یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ذوی القربی کا یہ حق رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد بھی قائم رہنے والا تھا۔ اگر یہ آپ کی حیات مبارک ہی تک محدود ہوتا تو اس کے مستقل ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ یتیموں اور مسکینوں کا حق اور اس کی نوعیت : چوتھا حق یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا ہے۔ ان کا حق بیان کرتے ہوئے اس ‘ ل ’ کا اعادہ نہیں فرمایا جو واوپر اللہ، رسول اور ذوی القربی تینوں کے ساتھ الگ الگ لگا ہوا ہے بلکہ ان کا ذکر ذوی القربی کے تحت ہی کردیا ہے۔ اس سے مقصود اس طبقہ کی تشریف اور عزت افزائی ہے کہ گویا یہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ذوی القربی ہی کے تحت ہیں۔ جو لوگ اسلامی نظام کے مزاج سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ یتیموں اور مسکینوں کی حیثیت ایک صحیح اسلامی نظام میں سربراہ ریاست کے کنبے کی ہے۔ سربراہ حکومت کو جس طرح اپنے کنبہ کی فکر کرنی پڑتی ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اس کو یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کی خدمت کرنی پڑتی ہے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا طرز عمل اس کی ناقابل تردید اور زندہ جاوید شہادت ہے۔ حضرت عمر ؓ نے تو کہیں فرمایا بھی ہے کہ ریاست کے مال میں سے میرا حق بس اتنا ہی ہے۔ جتنا ایک یتیم کے متولی کا حق یتیم کے مال میں سے ہے۔ اس حقیقت کا بھی انہوں نے بار بار اظہار فرمایا کہ مملکت کے ہر یتیم و مسکین اور مسافر کی ذمہ داری براہ راست مجھ پر ہے۔ جس مملکت میں یتیم دھکے کھائیں، مسکین بھوکے سوئیں، مسافر کا کوئی پرسانِ حال نہ ہو اس مملکت کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے خواہ وہ اسلام کے کتنے ہی بلندو بانگ دعاوی کرے۔ غربا و فقراء کے اموال کا اجتماعی مقصد : یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جو لوگ ‘ ل ’ کو لام تملیک کے معنی میں لے کر غرباء و فقراء، یتامی اور مساکین کی اجتماعی بہبود کے کاموں پر ان کے حصہ کے مال کو خرچ کرنے سے روکتے ہیں، ان کی بات عربیت کے پہلو سے کچھ زیادہ وزن دار نہیں ہے۔ حرف ‘ ل ’ عربی میں تملیک ہی کے لیے نہیں آتا بلکہ متعدد معانی کے لیے آتا ہے جن میں ایک معروف مفہوم نفع رسانی اور بہبود کا بھی ہے۔ ہم نے اس پر مفصل بحث اپنے ایک مستقل مقالے میں کی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بالکل جائز ہے کہ اسلامی حکومت جن کاموں کو غرباء اور فقراء کی اجتماعی بہبود کے نقطہ نظر سے مفید پائے ان پر بھی ان کے حصہ کی رقوم جو اس کی تاویل میں آئیںِ خرچ کرے، انفرادی تملیک ہر حال میں لازمی نہیں ہے۔ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ۔ یوم الفرقان سے مراد غزوہ بدر کا دن ہے۔ یوم التقی الجمعن کے الفاظ سے اس کی وضاحت بھی فرما دی ہے۔ اس لیے کہ وہی پہلا دن تھا جب مسلمانوں اور کفار کے درمیان جماعتی حیثیت سے تصادم ہوا ہے۔ غزوہ بدر کو یوم الفرقان سے تعبیر کرنے کی وجہ کی طرف ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں۔ قریش کے لیڈروں نے خود اس جنگ کو ایک کسوٹی کی حیثیت دے دی تھی کہ جو اس جنگ میں ہارا وہ باطل پر سمجھا جائے گا، جو جیتا وہ حق پر مانا جائے گا۔ اس طرح خود انہی کی انتخاب کردہ کسوٹی نے حق و باطل کا فیصلہ کردیا۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے کہ اس جنگ میں تائید الٰہی گوناگوں شکلوں میں اس طرح بےنقاب ہوئی کہ گویا ہر شخص نے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ حق کسی کے ساتھ ہے اور خدا کس کے پہلو پر ہے وما انزلنا علی عبدنا سے اسی نصرت الٰہی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ ٹکڑا اوپر والے مضمون ہی کو مؤکد کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تقسیم غنیمت کے باب میں یہ حکم جو تمہیں دیا ہے بےچون و چرا اس کی تعمیل کرو، اگر اللہ پر اور اس نصرت الٰہی پر تمہارا ایمان ہے جو ہم نے حق و باطل کے درمیان فیصلہ کردینے والی جنگ میں اپنے بندوں پر اتاری۔ چونکہ روئے سخن ان نکتہ چینوں کی طرف خاص طور سے ہے۔ جنہوں نے اموال غنیمت سے متعلق سوال اٹھائے تھے، اس وجہ سے فرمایا کہ اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس قسم کے سوالات غمازی کرتے ہیں کہ ابھی تمہارے اندر ایمان راسخ نہیں ہوا ہے۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ یوں نہیں فرمایا کہ اگر تم اس نصرت الٰہی پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے تم پر اتاری بلکہ یوں فرمایا کہ ‘ اپنے بندے پر اتاری ’ جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ کسی گروہ کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ کامیابی جو حاصل ہوئی ہے یہ اس کا کارنامہ ہے۔ یہ جو کچھ ہوا ہے اللہ کی کارسازی اور اس رسول کی برکت سے ہوا ہے کہ جس کی مدد کے لیے اللہ نے اپنی غیبی فوج بھیجی۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ نہ اللہ کسی کا محتاج ہے اور نہ اس کا رسول کسی کا دست نگر ہے۔ اللہ جب چاہے گا اپنے رسول کی مدد کے لیے اپنی افواج قاہرہ بھیج دے گا۔
Top