Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 78
اَلَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِۚ
اَلَمْ : کیا يَعْلَمُوْٓا : وہ جانتے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے سِرَّهُمْ : ان کے بھید وَنَجْوٰىهُمْ : اور ان کی سرگوشی وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ عَلَّامُ : خوب جاننے والا الْغُيُوْبِ : غیب کی باتیں
کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ان کے راز اور ان کی سرگوشی کو جانتا ہے اور اللہ تمام غیب کو جاننے والا ہے
78، 79:۔ اَلَمْ يَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوٰىهُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۔ منافقین کی بلادت : الم یعلموا ان اللہ، یہ اسلوب کلا استعجاب اور حسرت کے اظہار کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اتنی طویل تعلیم وتربیت، ایسی مسلس سعی تطہیر و تز کیا اور اتنے بیشمار حقائق کے انکشاف کے بعد بھی کیا یہ لوگ اتنے ٹھس اور غبی ہیں کہ اتنی موٹی سے بات بھی یہ نہ سمجھ سکے کہ خدا ان کے سارے راز اور ساری سرگوشیوں کو جانتا ہے اور اللہ تمام غیب کا عالم ہے۔ یہ بات ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ خدا ہر چیز کو فعلاً بھی جانتا ہے صفۃً بھی، اسی وجہ سے یہاں اور اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ قرآن کے دوسرے مقامات میں، خدا کے احاطہ علم کو فعل کے صیغہ سے بھی واضح کیا گیا ہے اور صفت کے صیغہ سے بھی۔ باعتبار نظم یہ آیات آگے والی آیت کی تمہید ہے جس میں ان منافقین کی ان نکتہ چینیوں اور سرگوشیوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو وہ مومنین مخلصین کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنے حلقوں میں کرتے رہتے تھے۔ اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ ۭ سَخِرَ اللّٰهُ مِنْهُمْ ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔ الذین یہاں میرے نزدیک نجواھم، میں ھم سے بدل ہے۔ اگرچہ مجھے اس پر پورا جزم نہیں ہے لیکن میں نے ترجمہ میں اسی کا لحاظ رکھا ہے۔ کشاف میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ متطوع اور مطوع دونوں ایک ہی لفظ ہیں۔ مطوع اس کو کہتے ہیں جو صرف فرائض و واجبات ہی ادا کرلینے پر قناعت نہ کرے بلکہ اپنی خوشی اور حوصلہ مندی سے نفلی نیکیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ لمز کے معنی عیب لگانا، ہجو کرنا، مذمت کرنا۔ اوپر کی آیات میں یہ بیان ہوا تھا کہ منافقین اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ صرف یہی نہیں کرتے کہ خود خرچ نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرتے دیکھ نہیں سکتے۔ جس کو خرچ کرتے دیکھتے ہیں اس کو اپنے ہمز و لمز کا نشانہ بنا لیتے ہیں جو فیاض اور مخلص مسلمان فیاضی اور خوش دلی سے خدا کی راہ میں دیتے ہیں ان کو تو کہتے ہیں کہ یہ ریاکار اور شہرت پسند ہے۔ اپنی دینداری اور سخاوت کی دھونس جمانے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ جو غریب بےچارے کچھ رکھتے ہی نہیں، اپنی محنت مزدوری کی گاڑھی کمائی ہی میں سے اللہ کی راہ میں کرچ کرتے ہیں، ان کی حوصلہ شکنی کے لیے ان کا یہ مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں چست کرتے ہیں کہ لو آج یہ بھی اٹھے ہیں کہ حاتم کا نام دنیا سے مٹا کر رکھ دیں۔ بخیلوں اور کنجوسوں کی نفسیات کا یہ پہلو ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اپنی بخالت پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے ان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ دوسرے بھی بخیل بنے رہیں۔ نکٹا دوسروں کو بھی نکٹا ہی دیکھنا چاہتا ہے تاکہ اسے کوئی نکٹا کہنے والا باقی نہ رہے۔ یہی نفسیات ان منافقین کی بھی تھی۔ پھر اس سے ان کے اسلام دشمنی کے جذبے کو تسکین ہوتی تھی۔ وہ خود اسلام کے لیے نہ کوڑی خرچ کرنا چاہتے تھے نہ اس پر راضی تھے کہ کوئی دوسرا خرچ کرے۔ اپنی اس خواہش کے برخلاف وہ دوسروں کو جب دیکھتے کہ وہ اسلام کے لیے سب کچھ اس دریادلی سے لٹا رہے ہیں گویا اپنے ہی گھر بھر رہے ہیں، یہاں تک کہ مزدور اپنی مزدوری ہی میں سے، بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر، اس خوشی سے دیتا ہے گویا اپنی سیر آدھ سیر کھجور یا جو کے عوض دولت کونین خرید رہا ہے تو ان منافقین کے سینے پر سانپ لوٹ جاتا۔ وہ غصہ سے کھولتے اور حسد سے جلتے۔ پھر اپنے دل کا بخار طعن وتشنیع، طنز اور پھبتی سے نکالتے۔ اللہ کی ڈھیل : سخر اللہ منہم، اسی طرح کا فرقہ ہے جس طرح بقرہ میں فرمایا ہے۔ اللہ یسہزئ بہم، یعنی یہ تو اہل ایمان کا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن اللہ ان کا مذاق اڑا رہا ہے کہ ان کی رسی دراز کیے جا رہا ہے کہ یہ خوب کلیلیں کرلیں تب ان کو وہاں سے پکڑے جہاں سے پکڑے جانے کا ان کو سان گمان بھی نہ ہو۔
Top