Tafheem-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 37
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِیْكُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ
خُلِقَ : پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان مِنْ : سے عَجَلٍ : جلدی (جلد باز) سَاُورِيْكُمْ : عنقریب میں دکھاتا ہوں تمہیں اٰيٰتِيْ : اپنی نشانیاں فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ : تم جلدی نہ کرو
انسان جلد باز مخلوق ہے۔ 41 ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاوٴ 42
سورة الْاَنْبِیَآء 41 اصل میں خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے " انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے، یا پیدا کیا گیا ہے "۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پتلا ہے، اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے، اسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اس کی سرشت میں ہے۔ یہی بات جس کو یہاں خُلِقَ الْاِنْسَنُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے، دوسری جگہ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا، " انسان جلد باز واقع ہوا ہے، " (بنی اسرائیل آیت 11) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ سورة الْاَنْبِیَآء 42 بعد کی تقریر صاف بتارہی ہے کہ یہاں " نشانیوں " سے کیا مراد ہے۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اڑاتے تھے ان میں سے ایک عذاب الہٰی، اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ اسی کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے۔
Top