Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 100
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّا١ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا١ؕ وَ مِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
لَعَلِّيْٓ : شاید میں اَعْمَلُ : کام کرلوں صَالِحًا : کوئی اچھا کام فِيْمَا : اس میں تَرَكْتُ : میں چھوڑ آیا ہوں كَلَّا : ہرگز نہیں اِنَّهَا : یہ تو كَلِمَةٌ : ایک بات هُوَ : وہ قَآئِلُهَا : کہہ رہا ہے وَ : اور مِنْ وَّرَآئِهِمْ : ان کے آگے بَرْزَخٌ : ایک برزخ اِلٰى يَوْمِ : اس دن تک يُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
اُمید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا 90“۔۔۔۔ ہر گز نہیں، 91 یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بَک رہا ہے۔ 92 اب ان سب(مرنے والوں)کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ 93
سورة الْمُؤْمِنُوْن 90 یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک، بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے، اب ہماری توبہ ہے، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے، اب ہم سیدھی راہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات 27۔ 28۔ الاعراف، 53۔ ابراہیم، 44، 45۔ مومنون، 105 تا 115۔ الشعراء، 102۔ السجدہ، 12 تا 14۔ فاطر، 37۔ الزمر، 58۔ 59۔ المومن، 10 تا 12۔ الشوریٰ ، 44۔ مع حواشی)۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 91 یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ از سرنو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جاسکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہوگی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر سورت میں امتحان کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے یا نہیں، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کردی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے اس کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہوچکا ہے اسے پھر بعینہ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے کے لیے بھیجنا لاحاصل ہے، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کرچکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 228۔ الانعام، حواشی 6۔ 139۔ 140۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ 26)۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 92 یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ " یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے۔ " مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابل التفات نہیں ہے۔ شامت آجانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جاسکتا۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن 93 " برزخ " فارسی لفظ " پردہ " کا معرب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے اور دنیا کے درمیان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اس حد فاصل میں ٹھہرے رہیں گے۔
Top