Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 30
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ١ؕ وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرًا
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو مَنْ : جو کوئی يَّاْتِ : لائے (مرتکب ہو) مِنْكُنَّ : تم میں سے بِفَاحِشَةٍ : بیہودگی کے ساتھ مُّبَيِّنَةٍ : کھلی يُّضٰعَفْ : بڑھایا جائے گا لَهَا : اس کے لیے الْعَذَابُ : عذاب ضِعْفَيْنِ ۭ : دو چند وَكَانَ : اور ہے ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ يَسِيْرًا : آسان
نبیؐ کی بیویو، تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا 43 ، اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے44۔
سورة الْاَحْزَاب 43 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے کسی فحش حرکت کا اندیشہ تھا۔ بلکہ اس سے مقصود حضور کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں، اس لیے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ ، " اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہوجائے گا " (الزمر۔ آیت 65) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ حضور سے شرک کا کوئی اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود حضور کو اور آپ کے واسطہ سے عام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتنا خطرناک جرم ہے جس سے سخت احتراز لازم ہے۔ سورة الْاَحْزَاب 44 یعنی تم اس بھلاوے میں نہ رہنا کہ نبی کی بیویاں ہونا تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے، یا تمہارے مرتبے کچھ ایسے بلند ہیں کہ ان کی وجہ سے تمہیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آسکتی ہے۔
Top