Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 147
مَا یَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَ اٰمَنْتُمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ شَاكِرًا عَلِیْمًا
مَا يَفْعَلُ : کیا کرے گا اللّٰهُ : اللہ بِعَذَابِكُمْ : تمہارے عذاب سے اِنْ شَكَرْتُمْ : اگر تم شکر کرو گے وَاٰمَنْتُمْ : اور ایمان لاؤگے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ شَاكِرًا : قدر دان عَلِيْمًا : خوب جاننے والا
آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو175 اور ایمان کی روش پر چلو۔ اللہ بڑا قدر دان ہے176 اور سب کے حال سے واقف ہے
سورة النِّسَآء 175 شکر کے اصل معنی اعتراف نعمت یا احسان مندی کے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ کے ساتھ احسان فراموشی اور نمک حرامی کا رویہ اختیار نہ کرو، بلکہ صحیح طور پر اس کے احسان مند بن کر رہو، تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ تمہیں سزا دے۔ ایک محسن کے مقابلہ میں صحیح احسان مندانہ رویہ یہی ہوسکتا ہے کہ آدمی دل سے اس کے احسان کا اعتراف کرے، زبان سے اس کا اقرار کرے اور عمل سے احسان مندی کا ثبوت دے۔ انہی تین چیزوں کے مجموعہ کا نام شکر ہے۔ اور اس شکر کا اقتضاء یہ ہے کہ اولاً آدمی احسان کو اسی کی طرف منسوب کرے جس نے دراصل احسان کیا ہے، کسی دوسرے کے احسان کے شکریہ اور نعمت کے اعتراف میں اس کا حصہ دار نہ بنائے۔ ثانیاً آدمی کا دل اپنے محسن کے لیے محبت اور وفاداری کے جذبہ سے لبریز ہو اور اس کے مخالفوں سے محبت و اخلاص اور وفاداری کا ذرہ برابر تعلق بھی نہ رکھے۔ ثالثًا وہ اپنے محسن کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے منشاء کے خلاف استعمال نہ کرے۔ سورة النِّسَآء 176 اصل میں لفظ ”شاکر“ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”قدردان“ کیا ہے۔ شکر جب اللہ کی طرف سے بندے کی جانب ہو تو اس کے معنی ”اعتراف خدمت“ یا قدر دانی کے ہوں گے، اور جب بندے کی طرف سے اللہ کی جانب ہو تو اس کو اعتراف نعمت یا احسان مندی کے معنی میں لیا جائے گا۔ اللہ کی طرف سے بندوں کا شکریہ ادا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ناقدر شناس نہیں ہے، جتنی اور جیسی خدمات بھی بندے اس کی راہ میں بجا لائیں، اللہ کے ہاں ان کی قدر کی جاتی ہے، کسی کی خدمات صلہ و انعام سے محروم نہیں رہتیں، بلکہ وہ نہایت فیاضی کے ساتھ ہر شخص کو اس کی خدمت سے زیادہ صلہ دیتا ہے۔ بندوں کا حال تو یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے کیا اس کی قدر کم کرتے ہیں اور جو کچھ نہ کیا اس پر گرفت کرنے میں بڑی سختی دکھاتے ہیں۔ لیکن اللہ کا حال یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے نہیں کیا ہے اس پر محاسبہ کرنے میں وہ بہت نرمی اور چشم پوشی سے کام لیتا ہے، اور جو کچھ کیا ہے اس کی قدر اس کے مرتبے سے بڑھ کر کرتا ہے۔
Top